ترکی: ہزاروں استاد، اینکر اور پولیس والے باغی قرار پائے


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

ادھر بلاد ترکی سے خبر موصول ہوئی ہے کہ بغاوت کے جرم میں اب تک تقریباً پندرہ ہزار سے زیادہ اساتذہ، سولہ سو یونیورسٹی کے ڈین، نو ہزار کے قریب وزارت داخلہ کے اہلکار، پونے آٹھ ہزار پولیس والے، چھے ہزار فوجی، چھے سو رینجرز، سو جنرل اور ایڈمرل، پونے تین ہزار جج، وزارت خزانہ کے پندرہ سو اہلکار، وزارت مذہبی امور کے پانچ سو اہلکار (بشمول امام، خطیب وغیرہ)، وزیراعظم سیکریٹیریٹ کے ڈھائی سو اہلکار، سینتالیس ضلعی گورنر اور تیس صوبائی گورنر گرفتار، فارغ یا معطل کر دیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ سرکاری ٹی وی ٹی آر ٹی کے پونے چار سو اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ ادھر ترکی کے اینکر شینکر بھی کچھ ٹھیک بندے نہیں ہیں اور بعض تو باقاعدہ فسادی ہیں۔ اب تک پینتالیس ہزار سے زیادہ اہلکاروں کو گرفتار، برخواست یا معطل کیا جا چکا ہے۔

ہزاروں پر یہاں تلوار چل رہی ہے جبکہ خبریں یہی تھیں کہ چند فوجیوں نے فلاں پل پر قبضہ کر لیا اور چند نے ائیرپورٹ پر اور چند نے پارلیمنٹ پر گولہ باری کر دی اور ایک ہیلی کاپٹر نے اور ایک جہاز نے عوام پر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو دن پہلے پولیس والے ہیرو تھے جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے باغی فوجیوں کا مقابلہ کر کے بغاوت ناکام بنائی ہے، اور آج آٹھ ہزار پولیس والے بھی باغی قرار پائے ہیں۔

\"AKP\"

جس وقت یہ بغاوت ہو رہی تھی تو اس وقت یہ ہزاروں لوگ پتہ نہیں کہاں چھپے ہوئے تھے جو اب بغاوت کے جرم میں پکڑے گئے ہیں۔ گولن تحریک کی قوت کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہر دسواں ترک اس کا حامی ہے۔ یعنی سات کروڑ میں سے ستر لاکھ اس کے حامی ہیں۔ اب تو یہ لگ رہا ہے کہ بغاوت کے وقت یہ ستر لاکھ بالکل کچے کارکن نکلے اور اپنے گھروں میں چھپے رہے اس لیے سڑکوں پر صرف بغاوت کے مخالفین ہی تھے۔ جبکہ گولن تحریک کی خاص بات اپنے کاز سے کمٹمنٹ ہے۔ ان کا ماٹو ہے کہ سائنس اور اسلام کو ساتھ لے کر چلو، نبی پاکؐ کا نام دنیا کے ہر گوشے تک پہنچا دو، اور اس مقصد کے لیے جو قربانی بھی دینی پڑتی ہے وہ دے دو، لیکن تشدد اور جارحیت کا نام بھی مت لو۔ گولن تحریک سیاست میں حصہ لینے کی بھی مخالف ہے اور اپنے پیروکاروں کو یہ ہدایت کرتی ہے کہ جس شخص یا پارٹی میں تمہیں خیر دکھائی دے اور اسلام اور ترکی کی سربلندی اس کے حکومت میں آنے میں دکھائی دے، اس کی حمایت کرو۔

ترکی نے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے سزائے موت پر جزوی پابندی سنہ 2002 میں عائد کر دی تھی اور مکمل پابندی، حتی کہ جنگی حالات میں بھی سزائے موت پر پابندی، سنہ 2004 میں عائد کر دی گئی تھی۔ اب ایردوان اس پابندی کو ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں اور یہ معاملہ پارلیمان کے زیر غور ہے۔ بظاہر ایردوان باغیوں کو سزائے موت دینا چاہتے ہیں۔

\"gulen\"

کیا یہ گولن تحریک کی باقاعدہ بغاوت ہے یا پھر یہ اقتدار کی جنگ کی وہی پرانی روایت ہے جس میں مطلق العنان حکمران طاقت پانے کے بعد ایک کے بعد ایک پرانے دوست اور اتحادی سے پیچھا چھڑاتا رہتا ہے تاکہ بلا شرکت غیرے حکومت کر سکے۔ نیک ترین بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے بھی تو سارے بھائی مار کر ہی سکون لیا تھا، حتی کہ وہ بھائی بھی مار دیا گیا تھا جو اس کا اتحادی تھا۔ اس کا اہم ترین سردار میر جملہ بھی بنگال اور دکن کی نہ ختم ہونے والی مہم پر بھیجا گیا تھا جہاں اس نے قضائے الہی سے وفات پائی۔ ننھے سے لڑکے اکبر کو شہنشائے ہند ظل الہی مہابلی اکبر اعظم بنانے والا خانخاں بیرم خان بھی اکبر کے طاقت پکڑتے ہی حج پر بھیج دیا گیا تھا جہاں راستے میں ہی ایک ناراض شخص کے ہاتھوں وہ عظیم سپہ سالار قتل کر دیا گیا تھا جس نے لاکھوں کے لشکروں کو بہت کم نفری سے شکستیں دے کر اکبر کو ہندوستان کا بادشاہ بنایا تھا۔

جب طاقتور کمالسٹ فوج اربکان کی پارٹی کو ہٹا چکی تھی، تو پھر فتح اللہ گولن ہی کی حمایت اور ان کے کارکنوں کی مہم ہی اے کے پارٹی کو اقتدار میں لانے کا سبب بنی تھی۔ اس تحریک کے کارکن ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں میں موجود ہیں۔ جون جولائی میں جب الیکشن آتا تھا، تو یہ ادھر ادھر سے پیسے پکڑ کر بھی ترکی جاتے دکھائی دیتے تھے تاکہ ایردوان کی اے کے پارٹی کو ووٹ دے سکیں۔

\"gezi-park\"

پھر جب عبداللہ گل کے پارٹی سے نکل کر صدر بننے کے بعد ایردوان بلاشرکت غیرے پارٹی کے مالک بن گئے تو ان کا سب سے پہلا معرکہ گیزی پارک سے پھوٹنے والے مظاہرین سے ہوا۔ ان مظاہرین کو اسی جذبے سے مارا پیٹا گیا جیسے اب کشمیر میں بھارتی کر رہے ہیں۔ اس پر ایک طرف تو صدر عبداللہ گل نے آواز اٹھائی کہ اے کے پارٹی کی روایت سب کو ساتھ لے کر چلنے اور نرمی کا رویہ اختیار کرنے کی ہے، تو دوسری طرف فتح اللہ گولن کا بیان بھی آ گیا کہ ایسی مار پیٹ غلط ہے۔

اس پر دونوں اتحادیوں میں خلیج پیدا ہوئی۔ گولن تحریک کی طاقت کے مراکز یعنی ان کے سکولوں اور ٹیوشن اکیڈمیوں پر کریک ڈاؤن کیا گیا اور انہیں بند کیا جانے لگا۔ دوسری طرف انہیں دنوں ایردوان کی کابینہ کے وزیروں کے علاوہ ان پر اور ان کے خاندان پر کرپشن کے الزامات لگے جس میں ایردوان کی ایک اپنی مبینہ فون ریکارڈنگ بھی شامل تھی جس میں وہ اپنے بیٹے سے بلیک منی چھپانے کا کہہ رہے تھے۔ اس ریکارڈنگ کو ایردوان نے جعلسازی قرار دیا، مگر اس کے ساتھ ہی تحقیقات کرنے والے پولیس والوں کو بھی ملازمت سے نکال دیا گیا، اور ان کے علاوہ عدلیہ پر بھی برق گرا دی۔

اور اب یہ گولن تحریک اور ایردوان کی جنگ کا تیسرا مرحلہ ہے۔ جس میں گولن تحریک سے تعلق کے الزام پر ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے۔

اور یوں وہ گولن تحریک جو کسی وقت اے کے پارٹی کی نظروں میں دنیا کی صالح ترین تحریک تھی، اے کے پارٹی کے کرپشن سکینڈل کے بعد ترکی کے خلاف ایک گہری سازش کرنے والی غدار جماعت ٹھہری ہے۔

گولن تحریک کے بارے میں ایک بات جاننا دلچسپ ہے۔ اس کی مثال کافی حد تک پاکستان کی تبلیغی جماعت جیسی ہے۔ اس کی کوئی باقاعدہ ممبر شپ نہیں ہے اور اس کے رجسٹرڈ ممبر نہیں ہوتے ہیں۔ کسی کو ان کے نظریات اچھے لگتے ہیں، تو وہ ان کے ہمدردوں کے حلقہ درس یا کاروباری میٹنگ میں شامل ہونے لگتے ہیں۔ اگر جی اوب جائے تو یہ لوگ ان سے دور ہو جاتے ہیں۔

اب گولن تحریک کے ان ’ہمدروں‘ کی شناخت کا معاملہ یوں سمجھیں، کہ آپ سکون سے گھر میں بیٹھے ہیں۔ یکایک دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔ باہر تبلیغی جماعت کے نیک لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہے جو آپ کو نیکی کی بات سننے کے لیے پکڑ کر ساتھ لے جاتا ہے اور مسجد میں مغرب کی جماعت اپنی نگرانی میں پڑھا کر آپ پر تبلیغ کرتا ہے۔ اور یہ عمل آپ پر اپنے وہاں قیام کے سارے دورانیے میں کرتا ہے۔ اب کچھ عرصے بعد پاکستان میں کوئی ایسی حکومت آ جاتی ہے جس کی تبلیغی جماعت سے شدید دشمنی ہے اور آپ بھی اس کی گڈ بکس میں شامل نہیں ہیں کہ آپ نے دو چار مرتبہ اس کے خلاف بات کر دی ہے۔ تو آپ کو بھی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

\"witch-burning\"

ایسے میں کسی شخص پر بھی گولن تحریک کا ہمدرد ہونے کا الزام لگانا بہت آسان ہے۔ یہ مغرب کے وچ ہنٹ جیسا ہے جس میں کسی بھی عورت پر جادوگرنی ہونے کا الزام لگا کر اسے پکڑ لیا جاتا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی میں ڈبو دیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اس کا فیصلہ منصف حقیقی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اگر وہ ڈوب کر مر جاتی تھی تو معصوم قرار پاتی تھی اور اس پر سے جادوگری کا الزام ہٹا لیا جاتا تھا۔ اگر وہ بچ جاتی تھی تو اسے جادوگرنی قرار دے کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ صرف یورپ میں پندرہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک پینتیس ہزار سے زیادہ عورتوں کو جادوگری کے جرم میں زندہ جلا کر یا دوسرے ذرائع سے مار دیا گیا۔ برطانیہ میں 1735 وچ کرافٹ کے خلاف ایک قانون بھی بنا تھا جو کہ بالآخر 1951 میں ختم کیا گیا۔ اس قانون کے تحت 1940 کی دہائی تک سزائیں دی جاتی رہیں۔ گو کہ اب تک یورپ کا جادوگری پر اعتقاد کچھ کم ہو چکا تھا اور اس میں جادوگری کی بجائے دھوکہ دہی کا جرم عائد کیا جاتا تھا۔

\"Joseph_McCarthy\"

حالیہ تاریخ میں ایسا وچ ہنٹ امریکہ میں پچاس کی دہائی میں ہو چکا ہے جب سینیٹر جوزف میکارتھی نے عظیم محب وطن راہنما کہلانے کے شوق میں بے تحاشا نمایاں امریکیوں پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ان ملزمان میں سے ایک ہالی ووڈ کا ستارہ چارلی چپلن بھی تھا۔ لوگوں کو ایک خیالی دشمن سے ڈرا کر بے گناہوں کی زندگی تباہ کر دینے والے اس رویے کو میکارتھی ازم کا نام دیا گیا تھا (نوٹ: ممکن ہے کہ آپ کو اس میں اوریانیت دکھائی دے جائے)۔

ترکی میں بھِی وہی وچ ہنٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بغاوت تو ظاہر ہے کہ اصلی تھی کہ سینکڑوں ترک مرے ہیں۔ لیکن، اس بغاوت کے بعد کا منظر نامہ ایسا ہے کہ اب مشہور بین الاقوامی ادارے اے ایل مانیٹر اور نیویارک ٹائمز تک یہ شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ ایردوان کے مخالفین کو ٹھکانے لگائے جانے کا بہانہ ہے۔

ترکی کے ججوں کی تنظیم کے سربراہ مصطفیٰ کاراداگ کے مطابق جن ججوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ صرف ایسے قانون دان نہیں ہیں، جن پر بغاوت میں شرکت کا شبہ ہے بلکہ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مصطفیٰ کے بقول ان افراد کا قصور یہ ہے کہ وہ صدر ایردوان کے مخالف اور ناقد ہیں۔

ہم یہ کہتے ہیں کہ باغیوں سے نمٹا جائے۔ ان کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قرار واقعی سزا دی جائے۔ جمہوری حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ہٹانے کی ہرگز بھی حمایت نہی کی جا سکتی ہے۔ مگر اس بغاوت کی آڑ میں اپنی ذاتی دشمنیاں نہ نکالی جائیں۔ ورنہ وچ ہنٹ، میکارتھی ازم، گلو بٹ ازم اور اوریانیت کے بعد ایک نئی اصطلاح بھی سامنے آ جائے گی ۔۔۔ ایردوانیت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments