پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو….


  • \"aliآن لائن صحافت کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ریڈر شپ اور قبولیت کا پیمانہ کلکس کی تعداد اور فیس بک لائکس کی بنیاد پر لکھاری کی مقبولیت کا معیار طے پاتا ہے۔

چاہے تحریر کتنی ہی حقیقت سے بعید ہو یا انتہا درجے کی کم علمی اور ذہنی پستی کا مظہر ہو، کلکس کی تعداد لکھاری کے لئے قبولیت کی سند اور ایڈیٹرز کے لئے ترجیح کی بنیاد ٹھہرتی ہے۔

فیض اللہ کی تحریر کے سیاق و سباق پر آیا جائے تو باچا خان کی فکر اور سیاست سے اختلاف کوئی اچنبھے کی بات یا قابل اعتراض امر نہیں کہ سیاسی شخصیات اور ان کا فکر تنقید و استناد کے معیارات اور تاریخی عمل کی کسوٹی پر پرکھے جانا ایک عام سی بات ہے۔ پھر آزادی اظہار کے اصول پر ایمان کا تقاضا ہے کہ ہرقسم کی نفرت آمیزی کو برداشت کرنے کے لئے خاطرجمع رکھیں۔

اس تحریر میں فاضل تبصرہ نگار کا اپنے فکری رجحان کا اظہار بڑا دلچسپ ہے۔ باچا خان کی تنقیص، سید مودودی کا تذکرہ اور غامدی پر چوٹ۔

باچا خان کی طرف سے پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے کا اظہار تھا جسے چھیالیس کے انتخابات میں عوامی مقبولیت کی کسوٹی پر سرخروئی حاصل ہوئی تھی اور جس کی بنیاد پر بننے والی قانون ساز اسمبلی کو بائی پاس کرکے ریفرنڈم کا انعقاد ہی محل نظر تھا لیکن اس بحث میں جانا شاید فاضل تحریر نگار کا منشا نہ رہا ہو نہ ان کی گوگل ریسرچ اور ٹویٹر نیز فیس بک تجزیہ نگاری اس صلاحیت کے اظہار پر مائل ہو۔ورنہ ان کو باچا خان کے حلف وفا داری سے شناسائی ہوتی۔

اتنا عرض کردوں کہ پاکستان کی اسکیم کی مخالفت تو سید مودودی بھی اسی شدومد سے کرتے تھے بلکہ وہ تو اس کے خلاف سیاسی مخالفت کی بجائے مذہبی انشا پردازی کے محاذ پر سرگرم رہے۔ پھر پختون قبائلیوں کی کشمیر پر چڑھائی کے اولین مخالف بھی سید مودودی تھے۔( اگر موصوف کی نظر سے ’رسائل و مسائل‘ کے جماعت اسلامی کی بدلتی افتاد طبع کے تحت ترمیم سے گزرنے والے ایڈیشنز کے بجائے مودودی صاحب کا اصل فتوٰی گزرا ہو)۔

پختونوں نے باچا خان کو رد کیا یا نہیں، اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ مودودی صاحب کے اپنے فرزند اور ان کے زمانہ اول کے کم و بیش تمام رفقا وقتاً فوقتاً مودودی صاحب کی فکری قلابازیوں سے اظہار برا¿ت کرتے آرہے ہیں جن میں امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمد، ارشاد احمد حقانی، وحیدالدین، منظور احمد نعمانی، نعیم صدیقی اور تحریر نگار کی چوٹ کا ہدف جاوید غامدی صاحب شامل ہیں۔

اے این پی نے پختونوں کے خون کی جتنی بھی قیمت وصول کی اور اس کی سند جو بھی ہو ،چلو بغض اے این پی سے سہی، آپ نے باچا خان کی بہو کو ماں تو مانا، جہاں تک خون کی قیمت کا تعلق ہے، سید مودودی کی زندگی میں میاں طفیل نے پاکستان کی سیاست کے ایک ناپسندیدہ کردار یحییٰ خاں کی محبت و الفت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لینے کی قیمت کا کوئی حساب لگایا ہے۔

البدر اور الشمس کے نام پر بنگالی و بہاری نوجوانوں کی اپنے ہم وطنوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا کوئی حساب ہے کسی کے پاس۔

تحریر نگار جس ڈیورنڈ لائن کو نہ ماننے کا طعنہ باچا خان کو دے رہے ہیں اسے پاکستان سے منظور شدہ طالبان امارت نے بھی کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمارے ممدوح صاحب تحریر ہذا خود بھی اسے بین الاقوامی سرحد نہ ماننے اور افغانستان کو پاکستان کا حصہ مانتے ہوئے بغیر سفری دستاویزات کے افغانستان میں قلمی جہاد کی کوششوں کا حصہ بننے کی خواہش لے کر داخل ہوئے تھے اور وہاں دھر لئے گئے تھے۔ بھلا ہو ملالہ بیٹی اورہمارے مہربان ضیا الدین یوسف زئی کا ، جن کی کوشش کے باعث انہیں ڈیورنڈ کے اس پار بخیریت آنا نصیب ہوا…. لیکن یہاں شاید وہ اقبال کے الفاظ میں طارق بن زیاد کے نعرے ہر ملک ملک مااست کا نعرہ مستانہ بلند کرنا مناسب سمجھتے ہوں یا سید مودودی کے فکری ہم زلف حسن البنااور سید قطب کے اتباع میں لاشرقیہ لاغربیہ کا راگ الاپیں…. ارے …. یہ لفظ راگ بھی تو ہندوستانی لغت ہے …. پتا نہیں صاحب تحریر اس کا استعمال پسند فرماتے بھی ہیں یا نہیں ….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments