قندیل بلوچ….چنا چاٹ کی پلیٹ!


\"bushraقندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر اس کے ”غیرت مند“ بھائی نے قتل کردیا۔ اس لئے کہ وہ ایک ”بُری “ عورت تھی۔ اتنی ”بُری“ عورت کہ چادر چار دیواری کی آبرو کہلانے والی تمام نیک بیبیاں اسے دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتی تھیں۔ استغفار پڑھتی تھیں۔ ٹی وی سکرین پر جب وہ اپنی پوری بے باکی کے ساتھ دکھائی دیتی تھی، تو اسے دیکھ کر نفرت سے نگاہیں پھیر لیتی تھیں۔ مجھے بھی وہ زہر لگتی تھی، جب سے اس نے ایک معصوم عالمِ دین کو اپنے ”مکر“ کے جال میں پھنسا کر، ان کی پگڑی اچھالی تھی، اس کے بعد تو مجھے باقاعدہ بری لگنے لگی تھی وہ۔ اور میں نیک اور معصوم مفتی صاحب کی رائے سے دو سو فیصد متفق تھی ، کہ ایسی عورتیں فتنہ و فساد کی جڑہیں، پورے معاشرے کی عورتوں کے نام پر دھبہ ہیں، گالی ہیں، ان کا وجود اک خطرئہ عظیم ہے، ”ایمان والوں کے لئے“ جس سے اس معاشرے کو پاک کرنا، عین غیرت مندی کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اس کے غیرت مند بھائی (جس کی غیرت پہلے لمبی تان کر سوئی رہی تھی) نے اسے قتل کرکے، اس معاشرے کا غیرت مند اور ذمہ دار فرد ہونے کا ثبوت فراہم کردیا۔ جس کے بعد گوناگوں امراض کی وجہ سے پکے ہوئے پھوڑے جیسا بدبودار معاشرہ، کم از کم ایک ”بدبو“ سے تو پاک ہوگیا۔

اللہ تیرا شکر ہے۔ شکر کا یہی بے پایاں اظہار قندیل کے قتل پر شرفاءکی بہنوں، بیٹیوں نے کیا، یاد رہے یہ وہی نیک اور عالی گھرانوں کی بیبیاں ہیں، جنہیں ہم پیج تھری پر آدھے ادھورے لباس میں مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھتے ہیں، اور اپنے گھٹن زدہ معاشرے کے اس ”پھول اور باوقار“ چہرے پر ناز کرتے ہیں۔ بڑے گھرانوں کی یہ بہو بیٹیاں، جن کے حلیے قندیل بلوچ کے حلیے کو مات دیتے ہیں، ہمیں بڑے ہوٹلوں، ریستورانوں، فیشن شوز اور شرفاءکی نائٹ پارٹیوں میں جابجا دکھائی دیتی ہیں، جنہیں دیکھ کر ہمارے سر فخر سے بلند ہونے لگتے ہیں کہ کم از کم ہماری سوسائٹی کا ایک حصہ تو ایسا ہے، جس کا موازنہ ہم مغرب سے کرسکتے ہیں۔ گرچہ قندیل بلوچ، ان میں سے نہیں تھی، مگر ان جیسا بننا چاہتی تھی۔ مہنگے پرس، جوتے، برانڈڈ کپڑے اور ہائی فائی پارٹیاں، ملتان کے ایک غریب گھر کی لڑکی کا مہنگا خواب تھیں۔ جسے تعبیر کرنے کے لئے، اس نے شوبز کا راستہ چنا(کہ ہزاروں لڑکیاں یہی راستہ چنتی ہیں آگے بڑھنے کے لئے) اور شہرت کے لئے ہر حربہ اور گُر، نہایت بے باکی سے استعمال کیا۔ بہت جلد وہ چناچاٹ کی ایسی چٹخارے دار پلیٹ بن گئی، جسے دیکھ کر بڑے بڑے نیک ناموں کی رال ٹپکنے لگتی تھی۔ میڈیا تو ویسے ہی چٹخارے کا اڈا بن چکا ہے۔ ریٹنگ کا خون اس کے منہ کو لگ چکا ہے، چنانچہ وہ بے باک لڑکی میڈیا کے کندھوں پر سوار ہو کر اتنا اونچا اڑنے لگی، کہ نیچے کھڑے ہوئے اسے سراٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔ مگر اس دوران وہ ملتان کی ایک بستی میں رہنے والے اپنے عسرت زدہ خاندان اور غیرت مند بھائی کو ہرگز نہ بھولی( یہ بری لڑکیاں اپنے گھر والوں کے لئے اتنی ہی اچھی بیٹیاں ہوتی ہیں) بھائی کو موبائل کی دکان بنا کردی۔ گھر والوں کو باقاعدگی سے خرچہ بھیجتی رہی اور اس مرد معاشرے کے دوہرے معیاروں کو چینج کرتی رہی۔

یہ وہ کام تھا، جو اسے ہرگز نہ کرنا چاہیے تھا، کہ یہ سفید لباس والا اجلامعاشرہ کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جس کے ریڈ لائٹ ایریاز کی رونق، چناچاٹ کی پلیٹ پر رال ٹپکانے والوں کے دم قدم سے ہوتی ہے جو رات کی تاریکی میں ان علاقوں کی فاحشاﺅں، اور کسبیوں کے فن کی داد دیتے ہیں، اور صبحدم وہاں سے لوٹتے ہیں تو یوں جیسے وہاں کبھی گئے ہی نہ تھے۔ اپنے اجلے لباسوں پر ایک دھبہ نہ برداشت کرنے والوں کی سہولت کے لئے، بدلتے زمانے میں، یہ ریڈ لائٹ ایریاز کی ”مخلوق“ ان علاقوں کی زینت بن چکی ہے، جو کبھی شرفاءکے لئے مختص تھے۔ چنانچہ موجودہ دور میں اپنی پوری نیک نامی کے ساتھ، گناہ کی پوٹلیوں سے معاملات بھی چلائے جاتے ہیں، اور انہیں گالی بھی دی جاتی ہے۔ یہ ”کاروبار“ازل سے جاری ہے ، اور جاری رہے گا، اس کی بنیادی شرط رازداری تھی۔ قندیل بہت تیزی میں تھی، اسے جلدی آگے جانا تھا، مزاجاً وہ منافق تھی، نہ دوغلی۔ ایک کھلی کتاب تھی، چنانچہ رازداری کے معاملات نہ رکھ سکی۔ اور شہتیر بن کر، جبہ و دستار والوں کی نگاہ میں کھٹکنے لگی۔ اس کی ویڈیوز، سیلفیاں، اور کھلے بیانات، جیسے اس گالی کا جواب تھے، جو یہ منافق اور دوہرے معیاروں والا معاشرہ، بری عورتوں کو دینے کا عادی ہے۔ یہ بری عورتیں، گالی کھانے کی ازل سے عادی تھیں، اور ان کی اسی ”عادت“ نے ننگے معاشرے کو اجلا لباس فراہم کر رکھا تھا۔ قندیل نے غلطی سے اس لباس پر ہاتھ ڈال دیا۔ چنانچہ وہ مار دی گئی۔ آج اس کا قتل، جسے غیرت کے نام پر قتل کے کھاتے میں ڈال کر، چناچاٹ پر رالیں ٹپکانے والے، دوبارہ اجلے اور معزز ہو گئے ہیں۔ ہم سے سوال کرتا ہے، کیا وہ واقعی غیرت کے نام پر ماری گئی ہے؟یا پھر اس کے قاتل کے اندر، غیرت کی ہوا بھر کر، اسے غبارے کی طرح پھلایا گیا ہے؟تاکہ قندیل جیسی دوسری ”بری“ لڑکیوں کو کان ہو جائیں، اور وہ ”شرفائ“ کی پگڑیاں اچھالنے سے پہلے، سو بار سوچ لیں۔ ایسی تمام عورتیں، جنہیں ہم کوڑا دان سمجھ کر، اپنی گندگی ان میں پھینکنے کے عادی ہیں۔ تاکہ ہمارے گھر گندگی سے پاک رہیں۔ قندیل ان میں اس لحاظ سے الگ تھی، کہ اس نے کوڑا پھینکنے والوں کی نشاندہی کردی تھی۔ اس نے انگلی اٹھا دی تھی، ان دوہرے معیاروں ، اور غلیط رویوں کے خلاف، جن کے ہم عادی ہیں۔ ہم چادر، چاردیواری کی عورتیں، ایسی عورتوں کے سائے سے بھی خود کو بچاتی ہیں، اور انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کہ یہ بری عورتیں ہمارے شریف مردوں کو ورغلاتی ہیں۔ مگر یہ ”شریف مرد“ اتنے شریف ہیں، کہ جہاں جاتے ہیں وہیں اپنی عیش و عشرت کے سامان ڈھونڈ لیتے ہیں۔

خواجہ احمد عباس کا آنندی ایسی ہی ایک مثال ہے جس میں جسم بیچنے والیوں کو شہر بدر کرکے، دور ایک ویران جگہ بھیج دیا جاتا ہے، جہاں ان کے پیچھے شہر چل کر خود پہنچ جاتا ہے، موجودہ دور میں ایسا کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی، یہ بری عورتیں، شہر میں کچھ یوں گھل مل گئی ہیں، کہ دور سے انہیں شناخت کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ یعنی گناہ تو وہی رہا ہے، مگر گناہگاری کے انداز بدل گئے ہیں۔ ریڈ لائٹ ایریاز میں کبھی چھپ کر جانے والے، اب اس تردد سے بھی بچ گئے ہیں۔ چنانچہ یہ قندیلیں اس معاشرے کے کردار میں دور تک سرایت کر گئی ہیں۔ بری عورت کو پتھر مارنے والا یہ معاشرہ، برے مرد کو آج تک کچھ نہیں کہہ سکا، جو گناہ میں عورت کے ساتھ برابر کا شریک ہے، ایدھی صاحب کو زندیق کہنے والا یہ پاک باز معاشرہ، ایدھی اور اس کے جھولے کو برا کہتا ہے جبکہ جھولے میں ڈالنے کے بجائے بچے کو کوڑے کے ڈھیر پرپھینک کر اسے پتھروں سے سنگسار کرنے کو عین ثواب قرار دیتا ہے۔ مرد کے گناہ کو اپنے بطن میں چھپانے والی عورت نے ، ہمیشہ پتھر کھائے ہیں، وہ ہمیشہ غیرت کے نام پر قتل ہوئی ہے۔ پتا نہیں یہ غیرت کا کیسا خود ساختہ تصور رائج ہے ہمارے ہاں، جس کا اسلام سے تعلق ہے ، نہ انسانیت سے۔ حالانکہ اسلام میں گناہ کی سزا، عورت اور مرد کے لئے برابر ہے۔ مگر ہمارے ہاں اسلام بھی وہی، جو ہمیں سوٹ کرتا ہے۔ قاضی، ملا اور پیر کا یہ اسلام، جس کی اقبال جیسے عالی دماغ نے ہمیشہ مذمت کی ہے، اس کے نام پر فتوے داغنے، اور سادہ لوگوں کے دماغوں میں غیرت کا خود ساختہ تصور بھرنے والوں کا تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کہ ہر ایک کو اپنی جان اور عزت عزیز ہے۔ البتہ قندیل جیسی باغی لڑکیوں سے یہ استدعا ضرور کی جاسکتی ہے، کہ چھپ کر جتنی مرضی ”برائی“ کرلو، پردہ نہ اٹھانا، ورنہ کوئی مجہول سا بے غیرت بھائی، یکایک ابھر آنے والی غیرت کے کند آلے سے تمہیں قتل کر دے گا، اور اس کی پیٹھ ٹھونکنے والوں میں وہ سبھی شامل ہوں گے، جو چناچاٹ کی پلیٹ پر رالیں ٹپکایا کرتے تھے…. اسے لذیز اور اشتہا انگیز بنا کر میڈیا پر پیش کرتے تھے، اور ریٹنگ حاصل کیا کرتے تھے، جس کا خون ان کے منہ کو لگ چکا ہے!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments