اس بلّی کا کیا کریں؟


وہ ہماری بلّی نہیں تھی مگر ہم سے میائوں کرنے لگی۔\"asif

اچانک نمودار ہوگئی۔ اس مہمان کی طرح جسے کسی نے بلایا نہ ہو وہ ہمارے گھر کی دہلیز پر موجود تھی۔ منڈیر سے کود کر دیوار پر آئی اور دیوار سے اتر کر پورچ میں جہاں گاڑی کھڑی کی جاتی تھی۔ میں گھر میں ہی تھا۔ اتنے میں باہر گاڑی رُکنے کی آواز آئی اور غزل کے پُرجوش لہجے میں بولنے کی آواز۔ غزل میری بیٹی ہے اور امریکا میں پڑھ رہی ہے جہاں سے وہ ان دنوں آئی ہوئی ہے۔ غزل گاڑی کے دروازے کے ساتھ کھڑی تھی اور نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ باقی سب بھی اسی طرف دیکھ رہے تھے جہاں بلّی تھی__ بلّی ہلکی آواز میں خرخرا رہی تھی اور پنجے پھیلا کر بدن لمبا کرتے ہوئے غزل کی ٹانگوں سے لپٹ رہی تھی۔ یہ محبّت اور اپنائیت کے اظہار کا طریقہ تھا اس بلّی کا۔ مگر یہ بلّی ہمارے گھر آئی کیسے؟

میں اندر آنے لگا تو مجھے یاد آیا ابھی چند دن پہلے میں نے اس بلّی کو دیکھا تھا۔ آج کل کراچی میں شامیں خنک اور خوش گوار ہونے لگی ہیں، تو ایسی ہی شام کے وقت میں چار دیواری کے اندر چہل قدمی کررہا تھا۔ میرے گھر کے ساتھ والا پلاٹ خالی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ محلّے کے کئی گھروں کا کوڑا وہاں پھینک دیا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو اعلا طبقے سمجھنے والے لوگ شہری ذمہ داری کے اس معمولی سے احساس سے عاری ہیں۔ میں نے کوڑا پھینکے جانے کے عمل کو روکنے کی کوشش کی اور پھر ان گھروں کے ملازمین کی جھڑکیاں سُن کر محض جلنے کڑھنے پر اکتفا کر لیا جو آج کل بہت سی باتوں پر میرا معمول بن گیا ہے۔ کوڑے کا ڈھیر کم نہیں ہوا اور دوسری طرف سے ایک اور پڑوسی نے گاڑیاں کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ غالباً گاڑیوں کا کاروبار کرتے ہیں اور اتنی بہت سی گاڑیوں کے لیے اس خالی پلاٹ سے اچھی اور کون سی جگہ مل سکتی ہے؟

کوڑے کے ڈھیر اور گاڑیوں کے درمیان میں نے اسے دیکھا تھا۔ وہ بلّی اس منظر کا حصّہ بالکل معلوم نہیں ہورہی تھی۔ کسی کی پالتو بلّی ہے \"cat\"اور آنکھ بچا کر گھر سے نکل آئی ہے، میں نے دل میں سوچا۔ اب وہاں اس کی ڈُھنڈیا مچی ہو گی۔

شام ڈھلنے لگی۔ میں گھر کے اندر چلا گیا۔ بلّی کہاں گئی، مجھے معلوم ہوا نہ میں نے پتہ کرنے کی کوشش کی۔

ایک بار وہ اور نظر آئی۔ ایسی ہی شام کے وقت دیوار کے سائے سے نکل کر سست قدم بڑھاتی ہوئی وہ وہاں کسی گاڑی کے نیچے غائب ہوگئی۔

اس کے بعد اچانک وہ غزل کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ یہ کس کی بلّی ہے، کہاں سے آئی ہے؟ غزل نے پوچھا تو ہمارے گھر کام کرنے والے ایک شخص نے جس کے دن کا بڑا حصّہ باہر گزرتا ہے، بتایا کہ یہ کئی دن سے اس میدان میں رہ رہی ہے، ایک گاڑی میں کچھ لوگ آئے تھے اور اسے یہاں چھوڑ گئے تھے۔

تو یہ بلّی گھر سے بے گھر ہوگئی ہے۔ میں نے دوبارہ اسی کی طرف غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ کس قدر غیرمعمولی ہے۔ چمکتی ہوئی پیلی آنکھیں، بڑے بڑے بال جن کا رنگ سرمئی رہا ہوگا، دوستانہ انداز اور ہلکی سی میائوں، جیسے کہہ رہی ہو میں یہاں ہوں، مجھے گود میں اٹھا لو۔

یہ تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہ ایرانی بلّی ہے، کم یاب اور قیمتی نسل کی اور یقیناً پالتو، لیکن یہ یہاں کیسے پہنچ گئی۔

بلّی کی خوبصورت سرمئی روئیں والی کھال کیچڑ، مٹّی میں سنی ہوئی تھی۔ وہ بہت گندی اور کم زور لگ رہی تھی۔ اس کے سامنے ایک تشتری میں دودھ رکھ دیا گیا تو اس نے بے تابی سے چاٹنا شروع کر دیا جیسے نہ جانے کب سے پیٹ بھر کر کھایا نہ ہو۔

لیکن کیا یہ بات ٹھیک تھی؟ ہم نے وہ کیا جو ہماری سمجھ میں آیا۔ پھر انوشہ کو خیال آیا کہ بلّی کو دودھ زیادہ موافق نہیں آتا۔ اس نے کینیڈا میں اپنے ماموں کے گھر میں دیکھا تھا جہاں خوب موٹا تندرست بلّا پلا ہوا تھا جس کے لیے خاص کھانا ٹین ڈبوں میں مُہر بند ملتا تھا۔ اس بلّے کا باقاعدہ چیک اپ ہوتا تھا اور ناہید نے انٹرنیٹ پر پوری تحقیق کے بعد اس کی غذا کا چارٹ بنایا ہوا تھا۔ جب کہ اس بلّی کی تو ہڈیاں نظر آرہی تھیں اور ایک ٹانگ پر سے بال نُچے ہوئے تھے بے چاری کے!

اس کے لیے گوشت کا اہتمام کیا گیا جسے اس نے پسند کیا لیکن عجیب بات تھی کہ جتنی دیر کوئی گھر والا وہاں موجود رہتا، اتنی دیر وہ کھاتی۔ اس کے بعد مُنھ تک نہ لگاتی۔ گھر کا دروازہ کُھلتا تو چکّر کاٹنے لگتی، دوڑ کر پیروں میں لپٹنے لگتی جیسے پوچھ رہی ہو مجھے اپنے ساتھ اندر کیوں نہیں لے جاتے جہاں تم رہتے ہو۔ اس بلّی کو آدمیوں کے ساتھ رہنے کی ہُڑک ہورہی ہے، میں نے اندازہ لگایا۔

بلّی ہمارے لیے کھیل تماشا نہیں بن سکی۔ ایک نایاب چیز کی حیرت اور اچنبھے کے ساتھ دکھ بھی شامل ہوگیا اور تشویش بھی کہ بلّی تو یہاں بیٹھی ہوئی ہے، ہم اس کا کیا کریں۔

ایک ان دیکھی حد تھی جسے پار کرکے بلّی گھر کے اندر داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ ’’میں آج رات کو واپس جارہی ہوں۔ ورنہ میں اس کو رکھ لیتی۔۔۔‘‘ غزل نے مضبوط ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ اس کے تیور دیکھ کر میں نے یاد دلانا غیرضروری سمجھا کہ جب وہ چھوٹی تھی تو بچوں کی بیماریوں کے ڈاکٹر نے کہا تھا ’’گھر میں جانور نہ پالیں۔ ان کے روئیں سے اسے سانس کی بیماری کا خطرہ ہے!‘‘

سیمیں کمپیوٹر پر وکی پیڈیا کے ورق الٹ کر دیکھ رہی تھیں کہ ایرانی بلّیوں کی کتنی بہت سی اقسام ہیں اور کیا یہ پھڈی ناک والی Punched قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ غزل بلّی کے لیے مزید رابطے ڈھونڈ رہی تھی۔

تھوڑی سی تلاش کے بعد ہر ایک ’’مقصد‘‘ کے لیے کسی نہ کسی مستعد قسم کا گروپ یا غیرسرکاری تنظیم کا اتہ پتہ مل جاتا ہے اور میرے خیال میں انہی سر پھرے لوگوں کی وجہ سے کراچی اب تک چل رہا ہے ورنہ کب کا ملیا میٹ ہو چکا ہوتا۔ غزل نے یہ رابطے تلاش کرکے بتایا کہ بے سہارا جانوروں کےلیے شفاخانہ بھی ایدھی صاحب نے بنوایا ہے اور اس کے علاوہ چھوٹا سا ادارہ ہے جو ان جانوروں کی دیکھ بھال کرتا ہے، ٹریفک کے حادثوں میں زخمی ہو جانے والے کُتّے اور بار برداری کرتے کرتے ڈھیر ہو جانے والے گدھے۔ ان کے لیے شہر میں کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔ شہر بھر میں کسی جگہ بھی پہنچ کر اس جانور کو دیکھ بھال کے لیے لے جاتے ہیں۔ لیکن پالتو جانور وہاں پہنچ کر بھی مر جاتے ہیں، سیمیں نے بتایا۔ کیونکہ وہ دوسرے جانوروں کے ساتھ نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ گھروں میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔

اس بلّی کی تصویر سیمیں نے فیس بک پر لگا دی۔ ’’لوگوں کو احساس کرنا چاہیے کہ یہ بے جان کھلونے نہیں ہیں کہ جب جی بھر گیا، اٹھا کر پھینک دیا۔ یہ بھی جان دار ہیں۔۔۔‘‘ سیمیں نے لکھا۔

چھٹّی کا دن تھا۔ جو بھی ہمارے گھر آتا بلّی کو دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ دھوپ میں پنجے پھیلائے ہوئے وہ کس قدر خوب صورت لگ رہی تھی۔ کئی لوگوں نے اسے اپنے گھر لے جانے کی پیشکش کی۔ ’’یہ بلّی مسروقہ مال بھی ہوسکتی ہے!‘‘ خلیجی ریاست میں رہنے والی ادھیڑ عمر کی رشتہ دار خاتون کا فیس بک پر میسیج آیا۔ مسروقہ مال اور بلّی، ہم شش و پنچ میں پڑ گئے کہ کریں تو کیا کریں۔ بلّیوں کا کوئی ڈاکٹر تلاش کرکے اس کے پاس لے جائیں (مگر لے کر کیسے جائیں؟) یا پھر ایسے کسی شخص کے ساتھ چلتا کریں جس کے بارے میں اندازہ ہو کہ اس کی دیکھ بھال ہو سکے گی؟ کریں بھی تو کیا؟

ایک دن کوئی دو ان جانے لوگ ہمارے دروازے پر آئے اور کسی آدمی کا نام لے کر اس بلّی کو لے جانے لگے۔ ان کے پاس ایسی ہی ایک بلّی ہے، اس کا جوڑا پورا ہو جائے گا، انھوں نے کہا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ بلّی کو لے جا نہ سکے۔ بعد میں مجھے کسی نے بتایا کہ ایسے لوگ تجارتی مقاصد کے لیے ’’بریڈنگ‘‘ کرتے ہیں اور ان جانوروں کو بچّے پیدا کرنے کی مشین بنا دیتے ہیں۔ میں یہ سُن کر جیسے کانپ گیا۔

بلّی نے ایک عجیب الجھن میں ڈال دیا۔ اتنے دن ہوگئے سوچ رہا ہوں کہ اس بلّی کا میں کیا کروں؟

بلّی خود سے جانے کا نام نہیں لیتی، راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتی ہے۔ کل رات مجھے یاد آیا قرۃ العین حیدر کے نامعلوم کسی افسانے میں پڑھا تھا:’’بلّیاں بوڑھی عورتوں کی طرح رو رہی ہیں۔۔۔‘‘ رات کے سناٹے میں جیسے میرے تن بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔

خدا جانے انہوں نے کیا لکھا تھا، بلّیاں بوڑھی عورتوں کی طرح یا بوڑھی عورتیں بلّیوں کی طرح؟

میرے گھر کی دیواروں پر وہ بلّی بال پھیلائے سو رہی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments