ترکی، اردگان اور بغاوت ۔۔۔۔۔ رقص ابھی جاری ہے


\"naseer رقصِ ابھی جاری ہے
لیکن یہ وہ رقص نہیں جو قونیہ میں گڑی میخ کے گردا گرد
حلقہ بنائے قدموں، سفید لبادوں میں ملبوس، بالٹی نما لمبی ٹوپیوں میں چھپے سروں والے
درویشوں کی بے آواز چاپوں کے ساتھ ہر دَم جاری ہے
یہ وہ کٹھ پتلی درویش ہیں
جن کی ڈوریاں عالمی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں میں ہیں
جن کے لبادے خون کے چھینٹوں سے رنگین ہیں
جن کے قدموں کی دھمک بارود کے دھماکوں جیسی ہے
اور جو بے گناہ جمہوریت پسند شہریوں کی لاشوں پر ناچتے ہیں

ترکی کی حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان تازہ ترین حالات و واقعات  کا پس منظر کیا ہے۔ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے جب ترکی نے روس کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا تھا جس پر روس اور ترکی کے درمیان کشیدگی انتہائی حدوں کو چھونے لگی تھی۔ اس دوران روس اور ترکی میں معاشی ربط بھی منقطع رہا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان روس کے معاملے میں کافی سخت پالیسی رکھے ہوئے تھے۔ اور شام میں روس کی فوجی مداخلت کو بھی وہ تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مگر وقت اور تاریخ کے تقاضے کچھ اور تھے۔

بالآخر جب ترکی نی یہ دیکھ لیا کہ اسے یورپی یونین میں اتنی آسانی سے جگہ نہیں ملے گی اور دوسری طرف شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دوغلا اور گھناؤنا چہرہ بھی واضح ہو گیا تو ترکی نے پینترا بدلا اور روسی کلب کی طرف جھکاؤ کا عندیہ دیا۔ روس سے اس کا جنگی طیارہ گرائے جانے پر باقاعدہ معافی مانگی گئی۔ روس نے بھی جواباً علاقائی سالمیت اور خیر سگالی کے جذبہ کے تحت ترکی سے ہاتھ ملایا اور مشترکہ معاشی پالیسیوں پر اتفاق کیا گیا۔ روس اور ترکی کا قریب آنا خطہ میں نیٹو کے مشن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گویا یہ نیٹو کے تابوت میں ایک کیل کی طرح لگا۔ لیکن اردگان کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ مشرقی یورپ اور عرب ممالک میں نیٹو کا اصل گیم پلان کیا ہے۔ وہ دیکھ چکا تھا کہ نیٹو کس طرح آہستہ آہستہ ترکی سے ملحقہ قریبی علاقوں میں اپنا حصار قائم کر رہا تھا۔ کہنے کو تو ترکی نیٹو کا حصہ ہے لیکن ترکی کے عوام اور لیڈر قومی جذبے سے سرشار، قومی خود مختاری کے حامی اور قوم پرست پہلے ہیں۔ اس صورت میں اردگان کا روس کے قریب آنا، روس سے اچھے تعلقات اور فلسطین کے مسلمانوں کی کھلم کھلا حمایت نیٹو میں رہتے ہوئے نیٹو کی پالیسیوں سے انحراف اور اختلافات  کا غماز ہے۔ اس موقع پر اگر ترکی اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی نہ کرتا تو عوام اردگان کو قبول نہ کرتے۔ ترکی کی خارجہ پالیسی میں یہ ایک واضح یو ٹرن تھا۔ کہنے کو تو یہ آسان ہے لیکن سب سے پہلی اور بڑی رکاوٹ ترکی کی افواج تھیں جن کی ترکیب و تربیت ابھی تک مغرب کی بنائی ہوئی سیکولر ہے۔ فوج کو یہ قبول نہ تھا کہ ترکی نیٹو سے دور ہو کر ایسی پالیسی بنائے جو عوام الناس کی سوچ اور خواہشات کی عکاس ہو اور جس سے نیٹو کے مشن می کوئی خلل پڑتا ہو۔ اس لیے بیرونی قوتوں کے اشارے پر فوج نے اردگان کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔

ترکی کی جغرافیائی حد بندی ایسی ہے کہ جغرافیائی تسلط قائم کیے بغیر مغرب کے عزائم پورے نہیں ہو سکتے۔ ترکی کی پچھلی نو (9) دہائیوں کی پالیسیاں قابلِ غور ہیں جو ہمیشہ دو طرفہ رہی ہیں۔ یعنی مسلم ملک ہونے کے ناطے ایک طرف مسلم ممالک سے اور دوسری طرف مغربی دنیا سے  باہمی تعلقات۔ کہنے کو تو ترکی ایک مسلم ملک ہے جہاں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ وہاں کی افوج کی اکثریت سیکولر کیوں ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے ہمیں بہت پیچھے جانا پڑے گا اور مصطفیٰ کمال کی باکمال شخصیت کو دیکھنا پڑے گا۔ خلافت ٹوٹنے کے بعد مغرب کے لیے ترکی کے جغرافیہ پر غیر مسلط موجودگی برقرار رکھنا ضروری تھا تا کہ مستقبل میں بوقتِ ضرورت روس جیسی بڑی طاقت کے خلاف مہم جوئی کی جا سکے۔ یہی وجہ ہے وہاں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت سیکولر ازم پھیلایا گیا۔ مغرب نے یہ کام ینگ ٹرکس کے سپرد کیا اور تزویراتی طور پر اس علاقے کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے ترکی کی فوج کو مکمل طور پر ایک سیکولر مائینڈ سیٹ کے ساتھ تربیت دی گئی۔ یہاں تک کہ کمال نے اقتدار سنبھالنے کے بعد قسطنطنیہ کا نام تک بدل کر استنبول رکھ دیا اور ملکی سطح پر قسطنطنیہ کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔ فوج کے اسی سیکولر مائینڈ سیٹ کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی جمہوری لیڈر ملک کی خارجہ پالیسی اور معیشت کسی درست سمت لے جانے کی کوشش کرتا ہے یا ذرا سا بھی اسلامی اقدار کی بحالی کا کام کرتا ہے تو فوج اس کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اردگان کے حالیہ اقدامات چاہے وہ اسرائیلی عزائم کے خلاف ہوں یا فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں ہوں، روس کی طرف بڑھتے ہوئے دوستی کے ہاتھ ہوں یا شام میں روس کی موجودگی کے متعلق ہوں،  یہ سب ترک فوج کی اکثریت اور نیٹو کی منشا کے متضاد اور مغرب کے مفادات سے متصادم ہیں۔ اردگان کے خلاف بغاوت کی بڑی وجہ یہی ہے۔

بظاہر لگتا ہے کہ باغی قوتیں دم توڑ چکی ہیں لیکن درحقیقت یہ ترکی میں خانہ جنگی کا نقطہ آغاز ہے۔ بغاوت ختم نہیں بلکہ شروع ہوئی ہے۔ عالمی ہدایت کار اسٹیج کا جائزہ لیتے ہوئے خاموش ہیں اور بچ جانے والے کردار، اداکار اور گماشتے نئے اشاروں کے منتظر ہیں۔ اردگان کے چند احمقانہ فیصلوں سے یہ تماشہ طویل دورانیہ کے خطرناک کھیل میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ تماشا گاہ اور تماشائی اپنی اپنی جگہوں پہ موجود ہیں اور تماشا گر ایک اور اسکرپٹ کا منتظر ہے۔

رقص ابھی جاری ہے
لیکن یہ وہ رقص نہیں جو قونیہ میں گڑی میخ کے گردا گرد
حلقہ بنائے قدموں، سفید لبادوں میں ملبوس، بالٹی نما لمبی ٹوپیوں میں چھپے سروں والے
درویشوں کی بے آواز چاپوں کے ساتھ ہر دَم جاری ہے
یہ وہ کٹھ پتلی درویش ہیں
جن کی ڈوریاں عالمی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں میں ہیں
جن کے لبادے خون کے چھینٹوں سے رنگین ہیں
جن کے قدموں کی دھمک بارود کے دھماکوں جیسی ہے
اور جو بے گناہ جمہوریت پسند شہریوں کی لاشوں پر ناچتے ہیں۔
رقص ابھی جاری ہے!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments