مزید حماقت سے باز رہئے!


\"fazleپاکستان میں جمہوریت کو ہمیشہ جمہوری قوتوں کے غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے خطرات پیش آتے رہے ہیں۔ جمہوری حکمرانوں کی بدعنوانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے اور یا جمہوری حکومتیں عوام کو ریلیف دینے اور ملک کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کی وجہ سے بعض ناکام سیاست دانوں کو طالع آزماؤں کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی دعوت دینے کے مواقع ملتے رہے ہیں تاکہ انھیں بھی چور راستے سے اقتدار میں حصہ بقدر جثہ ملنے کا موقع میسر آ سکے۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت نے وطن عزیز میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ہمارے دانش ور، سیاست دان اور صحافی حضرات رونما ہونے والے عالمی حالات کا موازنہ ہمیشہ اپنے ملک کے حالات سے کرتے ہیں۔ سو، ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو کچھ حلقے سیکولر ازم اور مذہب پرستی جیسے دو متضاد زاویۂ فکر سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ کا خیا ل ہے کہ یہ ایک پلانٹڈ بغاوت تھی جس کی ناکامی پہلے سے طے شدہ تھی اور اس کے نتیجے میں طیب اردوان اپنے مخالفوں کو ایک ایک کرکے ختم کرنا چاہتے تھے۔ مغربی میڈیا بھی اسے ایک جعلی بغاوت سے تعبیر کر رہا ہے کیوں کہ جس سرعت سے فتح اللہ گولن کے حامیوں کو مختلف محکموں سے چن چن کر نکالا جا رہا ہے، اس سے اس شُبے کو تقویت مل رہی ہے۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت سے قبل وطن عزیز میں فوج کو دعوت دینے والے پوسٹرز زیر بحث تھے۔ اس پہ بھی ہمارے دانش ور صحافیوں کی آرا تقسیم تھیں۔ بعض سیاست دان بھی کہتے تھے کہ یہ پوسٹرز موجودہ حکومت کے اشارے پر لگائے گئے ہیں جب کہ بعض حلقے اس کا اشارہ فوج کی طرف کرر ہے تھے کہ اس معاملے میں کوئی خفیہ ہاتھ ملوث ہے۔ ہمارے ہاں ہر معاملہ کے تانے بانے جب تک کسی سازش یا خفیہ ہاتھ سے نہ جوڑے جائیں تو سیاست دانوں اور صحافیوں کی گرمئی بازار مدھم پڑ جاتی ہے۔ فکر و دانش کے تخت اور سیاست کے ایوانوں پر قابض ٹولے ہر مثبت معاملے میں فوری طور پر منفی پہلو نکالنے میں ماہر ہیں۔ وہ عوام کی رہنمائی کی بجائے انھیں کنفیوز رکھنے میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ حالاں کہ قوم کی رہنمائی میں یہ دونوں طبقے بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن افسوس وہ اپنا یہ کردار اپنے مخصوص مفادات کے اسیر بن کر ادا کرتے ہیں۔

زیر بحث نکتہ یہ ہے کہ ترکی میں بغاوت کرنے والے فوجیوں کے خلاف عوام محض اس وجہ سے نہیں نکلے تھے کہ انھیں رجب طیب اردوان کی موجودہ پالیسیوں سے صد فی صد اتفاق ہے اور وہ ان کے آمرانہ اقدامات کو پسند کرتے ہیں۔ اصل معاملہ جمہوریت کو بچانے کا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو طیب اردوان کے حق میں مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنما لب کشائی نہ کرتے ورنہ وہ پاکستان کے اپوزیشن رہنماؤں کی طرح فوجی بغاوت کا خیر مقدم کرتے۔ ہمارے ہاں اب بھی عمران خان جیسے سیاست دان پائے جاتے ہیں جو کبھی دھرنوں کے ذریعے تھرڈ ایمپائر کو بلند آہنگی سے صدا دیتے نظر آتے ہیں اور کبھی ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’اگر پاکستان میں فوج آجائے تو کیا ہوگا، مٹھائیاں بانٹی جائیں گی، لوگ خوشیاں منائیں گے، جشن منائیں گے کیوں کہ ایک وہ ہے جس نے اپنے ملک کی دولت بڑھائی، ایک یہاں وزیرا عظم ہے جس نے اپنی ذاتی دولت بڑھائی، ملک کو لوٹا۔‘‘

یہ درست ہے کہ موجودہ وزیراعظم اور اس کی کابینہ پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوج کو دعوت دی جائے کہ وہ آئے اور جمہوریت کی بساط لپیٹے۔ پاکستان میں اب تک چار مرتبہ مارشل لاء لگ چکا ہے لیکن کسی بھی مارشل لاء کے بطن سے خیر کا پہلو نہیں نکلا ہے۔ ہر فوجی آمر نے کسی نہ کسی حوالے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا ہے۔ اب عمران خان نے یہ بھی اعلان فرمایا ہے کہ وہ سات اگست کو حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے والے ہیں۔ موجودہ حکومت کی نا اہلی اور بد عنوانی کے خلاف ضرور بولتے رہنا چاہئے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور اپوزیشن کا کردار بھی یہی ہے لیکن بات بے بات حکومت کو گرانے کے لیے تحریک شروع کرنا اور اس وقت تک دھرنے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرنا کہ جب تک حکومت ختم نہ ہوجائے، دھرنے جاری رہیں گے۔ یہ کسی بھی صورت میں جمہوری طرزِ عمل نہیں ہے۔ آپ اسمبلی کے فلور پر حکومت کی کارکردگی پر نکتہ چینی کیجئے، عوام کو اچھے برے کا شعور دیجئے لیکن کوئی ایسا قدم ہرگز نہ اٹھائیں جس سے جمہوری عمل کے تسلسل میں مشکلات پیش آئیں۔ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کا زیادہ وقت گزار چکی ہے، اسے مزید اقتدار میں رہنے دیں تاکہ آئندہ عام انتخابات میں عوام اس کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لے کر اپنا حق رائے دہی بہتر طور پر استعمال کرسکیں۔ موجودہ حالات میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کا مطلب اسے عوام کے سامنے مظلوم بنانا ہے اور شاید نواز شریف بھی یہی چاہیں گے کہ کسی طرح ان کی حکومت کو غیرجمہوری طریقے سے ختم کیا جائے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں وہ عوام کو یہ کِہ سکیں کہ جب ان کی پالیسیاں ملک و قوم کے لیے ثمر آور ثابت ہونے والی تھیں تو ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس وقت ملک کا بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے اور موجودہ حکومت اپنے وعدوں اور یقین دہانیوں کے برعکس اسے حل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ملک کے کسی دوسرے شعبے میں بھی کوئی غیرمعمولی ترقیاتی کام نہیں ہو سکے ہیں، اس لیے عوام آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دیتے وقت یقیناً یہ سب کچھ مد نظر رکھیں گے۔

عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کی مسند حاصل کرنے کی بڑی جلدی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے خیبرپختون خوا میں اپنی حکومت کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔ زبانی طور پر تو انھوں نے خیبرپختون خوا کو مثالی صوبہ بنا دیا ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور کِہ رہے ہیں۔ ابھی تک صوبے میں عملاً کوئی غیرمعمولی تبدیلی رونما نہ ہو سکی ہے۔ عمران خان کی سیاسی اہلیت کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ جب انھوں نے محض ایک صوبے میں گڈ گورننس قائم نہیں کی اور وہاں کے مسائل عملاً ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی تو اگر انھیں پورے ملک کا اقتدار مل جائے تو وہ قومی سطح پر کون سی بڑی تبدیلی یا انقلاب برپا کرسکیں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں۔ سب کو نااہل سمجھنے اور انھیں ہر وقت تنقید کی زد پہ رکھنے والے عمران خان کی اہلیت تو ان کے دھرنوں اور لب و لہجے سے خوب عیاں ہو رہی ہے۔

جمہوریت کو گالی دینے کی بجائے جمہوری رویے اپنائیں۔ جمہوریت میں کوئی خرابی نہیں ہے، اصل خرابی رویوں میں ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھئے۔ جمہوریت جیسی بھی ہے، اسے چلنے دیجئے۔ اس کے تسلسل سے ہی مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔ آپ اپنی باری پر اچھی جمہوری روایات کو فروغ دیں اور یہ ثابت کریں کہ ہر جمہوری حکمران بدعنوان اور نا اہل نہیں ہوتا۔ اگر فوج نے ایک بار پھر اقتدار سنبھالا تو سمجھ لیجئے کہ ایک بار پھر ملک وقوم کا ایک عشرہ ضائع ہوجائے گا اور اس کے بعد جمہوریت کا آغاز پھر زیرو سے ہوگا۔ بار بار آزمائے ہوئے کو بار بار آزمانا پرلے درجے کی حماقت ہے اور اس حماقت سے اب بچنا ہی بہتر راستا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments