باسودے کی مریم اور مفتی منیب الرحمان


اردو ادب میں “باسودے کی مریم” جیسا ہیرے کی کاٹ افسانہ کم لکھا گیا ہو گا۔ اسد محمد خان اردو نثر کے جملہ قرینوں پر عبور رکھتے ہیں اور اردو فکشن کی بہت سی طرزیں تو اسد محمد خان ہی سے منسوب ہو گئیں۔ روز مرہ بول چال میں ایسا کسے ہوئے طبلے جیسا باج اردو افسانے میں بہت کم ملتا ہے۔ “باسودے کی مریم” میں ایک خوبی بے حد منفرد ہے۔ اردو افسانے میں مذہبی احساس کی پاکیزگی، نفاست، شدت اور خوبصورتی اس توازن کے ساتھ شاید ہی کہیں پڑھنے میں آئی ہو۔ “باسودے کی مریم” کا خلاصہ لکھنا بد ذوقی ہو گی۔ سچ مچ کی مختصر کہانی ہے، دس منٹ میں پڑھی جا سکتی ہے۔ آخری چند سطریں البتہ یہاں پڑھ لیجئے، کچھ اندازہ ہوسکے گا کہ جذبے کی تقدیس ادب میں کس رنگ سے ظاہر ہوتی ہے۔

“65 ء میں ابا اماں نے فریضہ حج ادا کیا۔ اماں حج کر کے لوٹیں تو بہت خوش تھیں، کہنے لگی “منجھلے میاں, الله نے اپنے حبیب کے صدقے میں حج کرا دیا، مدینے طیبہ کی زیارت کرا دی اور تمہاری انا بوا کی دوسری وصیت بھی پوری کرائی۔ عذاب ثواب جائے بڑی بی کے سر، میاں ہم نے تو ہرے بھرے گنبد کی طرف منہ کر کے کئی دیا کہ یا رسول اللهؐ باسودے والی مریم فوت ہو گئیں۔ مرتے وخت کہہ رئی تھیں کہ نبیؐ جی سرکار! میں آتی ضرور مگر میرا ممدو بڑا حرامی نکلا۔ میرے سب پیسے خرچ کرا دیے۔”

باسودے کی مریم آج کیوں یاد آئی۔ صبح اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر پر نظر پڑی، اطلاع تھی کہ “حکومت نے رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔” یہ خبر پڑھ کر ایک بے نام سی کیفیت ہوئی۔ پھر کچھ رک کر سوچا کہ اس میں رنج یا مسرت کی کوئی پہلو نہیں۔ مفتی منیب الرحمن کا تقرر سیاسی اونچ نیچ سوچ کر کیا گیا تھا، رویت ہلال کمیٹی کوئی آئینی تقاضا نہیں۔ قمری مہینے کے تعین کے لئے ایک سرکاری مجلس قائم کر دی گئی ہے جس میں کچھ مذہبی پیشواؤں کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔ سال میں بارہ قمری مہینے ہوتے ہیں۔ صرف یکم رمضان اور عیدین کے تین مواقع پر مذہبی وضع قطع رکھنے والی کچھ افراد کو رونمائی کا موقع ملتا ہے۔ ٹیلی وژن کی اسکرین پر نورانی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ نہایت اطمینان کے ساتھ تقدیس میں دھلی زبان میں ایک صبر آزما وقفے کے بعد چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جو مولوی اس مجلس میں شریک نہیں ہو پاتے وہ اپنی خود نمائی کے لئے اختلاف کا اعلان کر دیتے ہیں۔ انہیں سرکاری مولویوں سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد چاند نظر آتا ہے۔ سالانہ مذہبی تہوار کےموقع پر عام مسلمانوں پر اپنی معاشرتی، فکری اور سیاسی بالا دستی، معاشرتی برتری اور اخلاقی بڑائی جتانے کا اچھا موقع ہاتھ آتا ہے۔ اگر رویت ہلال  کمیٹی سے مقصد تہوار کے دن پر اتفاق رائے تھا تو یہ اتفاق رائے ساٹھ برس میں کبھی حاصل نہیں ہوا اور آئندہ کبھی نہیں ہو گا۔ اس کا تعلق چاند نظر آنے سے نہیں، مولوی کی پیشہ وارنہ مجبوریوں سے ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن کا انتخاب کسی اصولی بنیاد پہ نہیں ہوا تھا۔ اور ان کے جانشین پر بھی کبھی اتفاق رائے نہیں ہوسکے گا۔ مفتی صاحب رسمی علوم سے بہرہ ور ہیں۔ مخصوص لباس اور دیگر ظواہر کے ادب آداب جانتے ہیں۔ ان کی جگہ آنے والا بھی ایسا ہی ایک فرد ہو گا۔ چاند کا نظر آنا ملک کی معیشت سے تعلق نہیں رکھتا، اس کا آئین کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر تہوار  منانے کے لئے انتظامی ہم آہنگی مقصود تھی تو مختلف صوبوں کے وزیر اعلیٰ ایک عید مولوی کے اعلان کے مطابق آبائی گاؤں میں پڑھتے ہیں اور ایک عید سرکاری کیمرے کے سامنے صوبائی دارالحکومت میں۔ گاؤں میں ووٹ دینے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہم آپ ہی کی طرح مولوی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور سرکاری ایوان میں یہ اعلان مقصود ہوتا ہے کہ ہم ریاست کے وفادار ہیں۔

مفتی منیب الرحمٰن کے رخصت ہونے کی افواہ میں کوئی اصول کارفرما ہے اور نہ ان کے جانشین کی صورت میں کوئی نیا چاند فلک پر جھلک دے گا۔ بات یہ ہے کہ مفتی منیب مذہب کے بارے میں ایک خاص رویہ کی علامت ہیں۔ اس رویہ کے لئے اردو میں ایک ہی مناسب لفظ ہے، ریاکاری، جو کہ ہمارے معاشرے میں ہر جگہ حلول کر چکی ہے۔ مگر کچھ دوست مذہبی پیشواؤں کے ضمن میں اس لفظ سے استعمال چنداں خوش نہیں ہوتے۔ ایک واقعہ مجھ سے سن لیجئے، ہم لوگ اپنے قصبے میں انگریزی کی کتاب لغت رکھ کرپڑھتے تھے۔ جاننے والوں میں ایک لڑکی اور دو لڑکے بی اے پاس تھے۔ بی اے پاس کا بڑا رعاب شعاب تھا۔ برساتی کے نیچے کرسی ڈال کر کتاب پڑھتی کنیز فاطمہ سے تو کبھی کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ اس کی اماں نے ڈرا رکھا تھا کہ بے بی کی پڑھائی میں حرج ہوتا ہے۔ نثار بی اے اور منور تمنا سے لجاجت بھرا استفسار کیا جاتا تھا۔ جہاں نثار بی اے کا الجبرا اور منور تمنا کی انگریزی تمام ہوجاتی تو بے بسی آ لیتی تھی۔ کسی نے بتایا کہ انگریزی کے استاد رفیق صدیقی صاحب گوبند گڑھ میں رہتے ہیں۔ ان سے رہنمائی لے لیا کرو۔ انگریزی (اختیاری) کی کتاب میں جملہ تھا۔

Those who prostitute their column in a newspaper

اب لغت نے prostitute کا مطلب طوائف، رنڈی اور گشتی بتایا۔ اگرچہ مدت العمر میں کبھی اس مخلوق کے درشن نہیں ہوئے تھے تاہم معلوم تھا کہ اخبار کے کالم کا ذکر ہے اور اس میں اس لفظ کا لغوی ترجمہ ٹھیک نہیں بیٹھ رہا نیز یہ کہ نثار بی اے اور منور تمنا سے یہ لفظ پوچھنا خطرے سے خالی نہیں۔ حیثیت عرفی مجروح ہونے کا امکان تھا۔

گرما کی ایک دوپہر میں رفیق صدیقی صاحب کے دروازے پر دستک دی۔ بوٹا سا قد تھا، لب و لہجے میں سادگی اور شفقت۔ انہیں بھی مطلب سمجھانے میں کچھ جھجھک ہوئی۔ تاہم یہ بتا دیا کہ جملے کا مطلب یہ ہے کہ “کچھ لوگ اخبار کے کالم کو ناجائز مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔” بہت بعد میں معلوم ہوا کہ prostitute کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ درست چیز کو غلط مقصد کے لئے استعمال کرنا۔ جسم فروشی پر اخلاقی اعتراض یہی ہے کہ جو سرگرمی خلوص کے زیر اثر ہونی چاہئے، اسے کسی لالچ، ترغیب، خوف اور دھمکی سے آلودہ کرنا۔ کچھ پہلو اس بحث کے بعد ازاں واضح ہو گئے تھے مگر تب رفیق صدیقی صاحب نہیں بتا پائے اور اب درویش کے لئے بھی مشکل ہے کہ معاشرے میں عصمت فروشی کی ممکنہ صورتوں پر بحث کر سکے۔ ایک بات البتہ واضح ہے۔ ایمان، عقیدے سے محبت کی سچی کیفیت تو وہی ہے جو باسودے کی مریم میں تھی۔ جہاں شوق کا جذب دل میں وسعت پیدا کرتا ہے اور درون سینہ روشنی پیدا ہوتی ہے۔ کسی نوجوان دل میں پہلی بار محبت جاگتی ہے تو اسے طہارت کا احساس ہوتا ہے۔ چھوٹے بچے کی ماں کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرو تو وہ مارنے کو لپکتا ہے۔ جہاں محبت کرنے والوں میں جذب اور کشش کی جگہ حساب کتاب اور سود و زیاں کی سوچ چلی آتی ہے، جہاں عبادت میں داخل کی تسکین کی بجائے یہ جذبہ چلا آتا ہے کہ عقیدے کی نمائش سے معاشرتی اثر و نفوذ حاصل کیا جائے، اخلاقی برتری جتائی جائے۔ سیاسی جوڑ توڑ میں وزن پیدا کیا جائے، دوسروں پر حکم لگانے کی حیثیت مانگی جائے۔ دوسروں کے ایمان پر فتویٰ لگانے کا اختیار حاصل کیا جائے۔ وہاں ایمان باسودے کی مریم والی پاکیزگی سے عاری ہوجاتا ہے۔ اس میں خاص طرح کی وضع قطع اہم ہوجاتی ہے۔ بول چال کا ایک خاص انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ نیکی کی قابل قبول لغت اپنائی جاتی ہے۔ خود کو نیک اور دوسروں کو گناہ گار سمجھا جاتا ہے وہاں عقیدے کی تقدیس مجروح ہوتی ہے۔ ہمارے بہت سے تعلیم یافتہ دوست آج کل ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ ہم اپنے عقائد کو دنیا بھر کی مذہبی تاریخ سے خلط ملط نہیں کریں کیوں کہ ان کے خیال میں ہمارے ہاں مذہبی پیشوا کا واسطہ موجود نہیں ہے۔ اس رائے پر تحمل سے غور کرنا چاہیے۔

دربار میں پادری بھی رہا ہے اور ملا بھی۔ راجا کے بھون میں پنڈت کی جگہ ہمیشہ رہی ہے۔ سیاسی اقتدار کا ایک پایہ معیشت سے بندھا ہوتا ہے، ایک کونہ عسکری قوت کو سونپا جاتے، ایک غلام گردش حرم سرا تک جاتی ہے اور ایک دروازہ عبادت گاہ کی طرف کھلتا ہے۔ یورپ میں جہاں پرانے قلعے کا نشان ملے گا، وہیں عبادت گاہ کے آثار نظر آئیں گے اور جسم فروشی کے کھنڈر بھی وہیں کہیں موجود ہوتے ہیں۔ یورپ کی مثال اس لئے دے دی کہ اسے سننا آسان ہے۔ اگر آپ لاہوراور دہلی کے جغرافیے سے آشنا ہیں تو آپ کو قلعہ اور اس کے گرد و نواح کے گلی کوچوں کی خبر بھی ہو گی۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔۔۔ اصول کا خاکہ بیان کر دیا جائے تو اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے سے درست نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ ایک ترکیب پر دوبارہ توجہ کی درخواست ہے۔ صحیح چیز کو غلط مقصد کے لئے استعمال کرنا۔

ہم پاکستان میں رہتے ہیں۔ ہماری معاشرت، سیاست اور معیشت کی سب طنابیں اس زمین میں گڑی ہیں۔ دل آزاری سے کوئی جائز مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور دل آزاری درست اخلاقی رویہ نہیں۔ دل آزاری سے گریز کرنا چاہئے۔ تاہم دل آزاری صرف طاقتور گروہ کی نہیں ہوتی۔ کیا وجہ ہے کہ بھارت میں ہندو سیاست دان اپنے عقیدے کے تعصب سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہندو ہیں۔ پاکستان میں کوئی ہندو سیاسی رہنما یا کارکن ہندو مت کے ظواہر کو سیاسی مفاد کے لئے  استعمال نہیں کرتا جب کہ بھارت میں سربرآوردہ مسلمان راسخ عقائد کی بجائے رواداری کی شہرت پانا پسند کرتے ہیں۔

ہمارے ملک میں سیاست صحافت اور معاشرت میں مذہب پسندی نے بہت اثر و رسوخ حاصل کیا ہے۔ عام لوگ خوش عقیدہ ہوتے ہیں۔ پچھلے ایک دو برس میں ہمارے ہاں مختلف طبقات اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں نے اخلاق کے کچھ ایسے نمونے دکھائے ہیں جن پر غور و فکر کرنا ہمارے لئے مفید ہوسکتا ہے۔ چند مثالیں سامنے رکھئے۔ اس برس فروری میں پنجاب حکومت نے تحفظ حقوق نسواں بل منظور کیا۔ محترم سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے ملک کے مختلف صوبوں میں اس معاملے پر جو لب و لہجہ اختیار کیا، کیا وہ ایک بڑے مذہبی رہنما کو زیب دیتا تھا؟ مارچ کے آخری ہفتے میں اسلام آباد دھرنا دینے کے لئے پہنچنے والے رہنماؤں نے جو زبان استعمال کی ، کیا اس سے ان کے اخلاقی قد میں اضافہ ہوا؟ سینیٹر حمد الله نے ٹیلی وژن کے کیمرے کی موجودگی میں ایک خاتون کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا، کیا وہ ان کی اخلاقی قامت کی دلیل تھا؟ ایبٹ آباد، کراچی لاہور اور گوجرانوالہ میں اہل خانہ کی طرف سے اپنی ہی بچیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے جو واقعات سامنے آئے ان پر کسی مذہبی رہنما نے احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پورے ملک میں ایک مقتول بچی کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ مرحومہ کے شانہ بشانہ اخلاقی پست کرداری کا مظاہرہ کرنے والے تقدیس کے تنبو میں جا بیٹھے ہیں۔ مفتی عبد القوی کے زخم خوردہ لہجے کی رعونت قابل فہم ہے لیکن مفتی صاحب کے کردار کی استواری تو ہم میں سے بہت سے لوگوں پر آشکار ہے۔ گزشتہ عید کا چاند دیکھنے کے موقع پر مفتی منیب نے اپنے عملے کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ نورانی وضع قطع کے ساتھ انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کرنے والے الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار افضل خان قذافی نے ابھی عدالت میں غیر مشروط معافی مانگی ہے ۔ طاہر القادری نے گزشتہ دو برس میں قول و فعل میں ہم آہنگی کا جو نمونہ پیش کیا ہے ان کے مخالفین اسے زیادہ بلیغ طور پر بیان کرتے ہیں۔ اکوڑہ خٹک کے مدرسے کو تیس کروڑ روپے کی سرکاری امداد کا معاملہ سامنے آیا تو محترم عمران خان نے عذر خواہی کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا سمیع الحق نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں گراں قدر خدمات سرانجام دی تھیں۔ عمران خان کا حافظہ درست کام نہیں کر رہا۔ پولیو کے قطرے پلانے کے حق میں مولانا کا بیان دہرانے پر مولانا نے طالبان سے خوف زدہ ہو کر الزام لگایا تھا کہ میڈیا سازش کے تحت ان کا بیان اچھال رہا ہے۔ مولاناسمیع الحق تو پولیو کے قطرے پلانے کی عوامی حمایت پرقائم رہنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے تھے۔

کہنا صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کروڑوں دیانتدار، محنتی اور صاف دل شہری موجود ہیں۔ باسودے کی مریم ان کی نیک دلی کا استعارہ ہے۔ دوسری طرف ریاکاری کے بہت سے نمونے ہیں جو حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں، صحافیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں، نیک لوگوں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں، ٹیلی وژن کی سکرین پر اپنی پارسائی کا دھول پیٹتے ہیں۔ اخبار کے صفحے پر اپنی نیکی کا نقارہ بجاتے ہیں۔ مجھے انگریزی کتاب میں لکھا ہوا جملہ دھرانے دیجئے:

Those who prostitute their newspaper column

35 برس پہلے استاد محترم رفیق صدیقی اس جملے کا مفہوم سمجھانے میں ناکام رہے تھے۔ اس کا پورا مطلب میں بھی بیان نہیں کرسکتا۔ صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ باسودے کی مریم کے دل میں بہت سی جگہ اور بہت سی روشنی تھی۔ وسعت اور نور کی یہ کیفیت داخل کے خلوص سے پیدا ہوتی ہے۔ اسے پارسائی کی نمائش سے تعلق نہیں ہوتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments