میں قندیل بلوچ نہیں ہوں


حمنٰہ مہوش

\"humna\"15 جلائی 2016 کو ایک مقامی چینل کی خبر پر میں چونک گئی۔ قندیل بلوچ مردہ حالت میں اپنےگھر پر پائی گئیں۔ مجھے اُن کہ ساتھ اخلاقی اختلاف تھا مگر اُن کے قتل پر مجھے دکھ ہوا۔ اُن کے بھائی نے اُن کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا اِس یقین کہ ساتھ کہ وہ جنت میں جائے گا۔ بے شک وہ نشہ کرتا تھا، فحش فلمیں دیکھتا تھا مگر ایک قتل نے اس کو پارسا بنا دیا۔ کیا یہ اسلام ہے؟ مجھے اختلاف ہے!

میں فحاشی کی حامی نہیں ہوں۔ میں قندیل کو اپنا آئیڈیل نہیں سمجھتی۔ میں ایک عام مسلمان ہوں جو قرآن کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ سمجھنے کی جدوجہد کرتی ہے اور حدیث سے مدد لیتی ہے۔ میں نے اسلام قبول کرنے پر گناہوں کی معافی کا سنا ہے ماورائے عدالت قتل پر جنت کے وعدے کا کبھی نہیں سنا۔ کون سی حدیث قاتلوں سے فردوس کا وعدہ کرتی ہے؟ کوئی ہے تو مجھے بتا دیں؟ البتہ میں نے قرآن میں پڑھا ہے: جس شخص نے کسی دوسرے کو قصاص کے بغیر یا زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔ ۵:۳۲

ساتھ میں میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے موت سے پہلے سچی معافی پر بخشش کا وعدہ کیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بھی گنہاگار معافی مانگے تو گنجائش ہے چاہے وہ فاحشہ ہو یا منافق۔ ایسے میں قتل کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مرحومہ نے معاشرتی اقتدار پامال کیں مگر سزا یا معافی دینے کا حق اسلامی اور قانونی لحاظ سے صرف اللّٰہ اور حکومت کو تھا۔ عام آدمی سزا دینے کا حق نہیں رکھتا، یہی شریت کی مرضی ہے۔ قندیل ٹھیک تھی یا غلط اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا چاہئے تھا نہ کہ ایک نشئی بھائی کو۔ جنون میں آکر اگر سب لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیں تو کوئی ذی روح محفوظ نہ رہے۔ ہم سب کبھی عزت، کبھی دولت، کبھی سیاست، کبھی لسانیت، کبھی فرقے، کبھی مذہب، کبھی قومیت کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کردیں۔

\"Qandeelکچھ لوگ سلطان صلاح الدین کا حوالہ دے کر قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ انُ کہ خیال میں مسلمانوں کے اِس ہیرو نے بدکردار عورتوں کو قتل کروایا۔ جبکہ سچ اِس کے برعکس ہے۔ سلطان کی تلوار کبھی عام مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے اٹھی ہی نہیں۔ ان کا نشانہ نہتی عورتیں کبھی بھی نہیں تھیں۔ جتنی بھی تاریخ میں نے پڑھی ہے وہ عورتوں کو پناہ دیتے تھے، ان کی شادیاں کروا کر ان کو بے حیائی کے دلدل سے نکالتے تھے۔ نہ کہ عورتوں کو غیرت کہ نام پر قتل کرتے تھے۔ جتنی بھی خواتین سلطان کے غضب کا نشانہ بنیں وہ غیر ملکی جاسوس تھیں۔ انُ کے اس عمل کے باوجود انُ کو عزت دار زندگی کا حق دیا گیا۔ تاریخ اسی وجہ سے سلطان کو عزت سے یاد کرتی ہے، جابر کے نام سے نہیں۔ پھر آج سلطان کی یاد میں لوگ ان کی طرح نہ نماز پڑھتے ہیں نہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں پھر بھی خود کو سلطان کا حامی کہتے ہیں۔ اس رویے کو منافقت ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر آپ واقعی سلطان صلاح الدین کو آئیڈیل مانتے ہیں تو ان کی طرح عورتوں کو نکاح کا تحفظ دیں۔ ہے کوئی مرد جو قندیل جیسی عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر ان کو عزت کا مقام دے؟

یہاں آکر مسلمان مردوں کا مذہب سو جاتا ہے۔ وہ عورتوں کو دوبارہ عزت حاصل کرنے کا حق نہیں دینا چاہتے۔ اللّٰہ کی سنت ہے معاف کرنے کی مگر یہ ظاہری مسلمان اس سنت پر بھی راضی نہیں۔ ان کی نظر میں عورت صرف سزا کے لائق ہے معافی کی نہیں۔ یہ سوچ خاص کر ان مردوں کی ہوتی ہے جو رات بھر حوا کی بیٹیوں کی نگاہوں سے عصمت دری کرتے ہیں، عریاں لڑکیوں کو دیکھ کر بیویوں سے ناجائز فرمائشیں کرتے ہیں، اور تفصیل سے عورتوں کو دیکھ کر ان کے لباس پر تبصرہ کرتے ہیں۔ جو رات میں کافر اور دن میں مسلمان بنے پھرتےہیں۔

یہ سب لکھنے کے بعد میں ذہنی طور سے بےہودہ القابات کے لئے تیار ہوں کیونکہ آج کل مردوں کی عزت عورتوں کو گالیاں دے کر یا قتل کر کے بحال ہوتی ہے۔ مجھے سب عورتوں کی بے راہ روی کے لئے کوسیں گے۔ کوئی بھی خاندانی سربراہوں کی غلطیوں کا ذکر نہیں کرے گا کیونکہ وہ مرد ہیں۔

کیا میرا ایک عورت ہونا میرے ناموس کے لئے کافی نہیں؟ کیا صرف مرد عزت کے لائق ہیں؟ میں قندیل بلوچ نہیں ہوں۔ میں ایک عام عورت ہوں جو مسلمان معاشرے سے انصاف کی منتظر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کتنے مسلمان ہیں؟ کتنے لوگ ایک عام عورت کی زبان درازی کو فحاشی میں شمار کرتے ہیں اور کتنے قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر سچ پر گفتگو کرتے ہیں۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ انصاف حاصل کرنے کے لئے عورت میں کیا خوبیاں درکار ہیں؟ کیا قندیل کے قاتل کو سزا ملنی چاہئے؟ ہے کوئی مسلمان جو جواب دے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments