ہائیڈل برگ کی ڈائری سے چند اوراق (1)


\"nasirزیر نظر اوراق ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی میں میرے چھ ماہ کے قیام کے چند دنوں کی روداد ہیں۔ مجھے اس یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی مرکز میں مئی تا اکتوبر 2011ء میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ ملی۔ میں نے وہاں نو آبادیاتی عہد کے اردو نصابات پر تحقیق کی۔ قرة العین حیدر پر جرمن زبان میں پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھنے والی ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ (Dr. Christina Oesterheld) میری نگران تھیں، جو وہاں جنوبی ایشیا کی جدید زبانوں کے شعبے میں اردو کی استاد ہیں۔ پروفیسر ہانس ہرڈر اس شعبے کے سربراہ تھے، جن سے میں نے دنیا جہان کے موضوعات پر طویل گفتگوئیں کیں۔ میں تقریباً روزانہ وہاں کی مصروفیات، مشاغل اور گفتگوﺅں کی روداد لکھ لیتا تھا۔ وہاں قیام کے دوران میں، راقم نے جو تحقیق کی، وہ ” ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری“ کے عنوان سے سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور سے 2014ء میں شایع ہو گئی، مگر ان اوراق کو چھپوانے کی خواہش نہیں ہوئی۔ ایک دوست نے اصرار کیا تو چند اوراق کمپوز کروائے۔ (ن ع ن)

12مئی 2011ئ

یہاں لیکچر سیمینار اکثر ہوتے ہیں اور ان میں خاصی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ آج بنگلہ دیش کے سفیر کا لیکچر تھا۔ ڈاکٹر کرسٹینا نے\"christina\" مجھے اطلاع دی تو میں فوراً تیار ہو گیا۔ اس کا اہتمام شعبہ جدید ہندوستانی زبانوں کے سربراہ پروفیسر ہانس ہرڈر نے کیا تھا۔ ہرڈر صاحب بنگلہ زبان کے ماہر ہیں۔ یہ لیکچرکمرہ نمبر زیڈ 10 میں تھا، جس میں پچیس تیس لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ یہاں اکثر لیکچر انھی چھوٹے چھوٹے کمروں میں ہوتے ہیں، جن میں صرف وہی اساتذہ اور طالب علم آتے ہیں جنھیں اس موضوع سے واقعی دل چسپی ہوتی ہے۔

 اگرچہ بنگلہ دیشی سفیر مسعود منان کے لیکچر کا موضوع ”بنگلہ کا ریاستی زبان کے طور پرظہور“ تھا، مگر انھوں نے ایک گھنٹے پر محیط اس لیکچر میں بنگلہ زبان کے علاوہ، بنگال کی قدیم زمانے سے موجودہ عہد تک تاریخ کا خاکہ پیش کیا اور ایک خاص تفاخر کا اظہار ابتدا تا آخر کیا؛ تفاخر کا باعث بنگلہ کے مشہور اور ایشیا کے پہلے نوبیل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور (1861ئ۔ 1941ئ)تھے۔ (ٹیگور کو 1913 میں ادب کا نوبیل انعام ملا تھا)۔ بنگلہ دیشی سفیر اس بات سے آگاہ نظر آئے کہ باہر کی دنیا میں کسی قوم کا فخر اس کا کلچر ہوتا ہے۔ مجھےمیتھیوآرنلڈ کی کتاب کلچر اور انارکی میں لکھی گئی ایک بات یاد آ گئی۔ ”اگر کل کلاں انگلستان سمندر میں غرق ہو جائے تو اسے تاریخ میں کوئلے کی صنعت کی وجہ سے یا شیکسپیئر کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا؟“ سفیرصاحب کی گفتگو سے باربار ظاہر ہورہا تھا کہ بنگلہ دیشی اپنی زبان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی تقریر کا ایک بڑا حصہ 11مارچ 1948ء میں ڈھاکہ میں قائداعظم کی اس تقریر کے بعد کے واقعات پر مشتمل تھا، جس میں قائداعظم نے اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبا کی تحریک نے جنم لیا اور اس تحریک کا واحد مطالبہ یہ تھا کہ بنگلہ کو بھی قوی زبان بنایا جائے۔ 1952ء میں اس تحریک نے شدت پکڑی اور پھر کئی دوسرے عوامل نے بالآخر اسلام کے نام پہ قائم ہونے والے ملک کے دو حصے کر دیے۔

\"OLYMPUS

 سفیر صاحب نے بنگلہ دیش کے قیام کو انقلاب کا نام دیا۔ وہ پاکستان کے سلسلے میں ناستلجیا نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ ہمارے یہاں مشرقی پاکستان کے سلسلے میں ناستلجیا پایا جاتاہے۔ مجھے فیض صاحب یاد آ رہے تھے:

 ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

مگر ان کے لیے ”انقلاب“ سے پہلے کا زمانہ ناانصافی کا زمانہ ہے۔ ان کے لیے خون کے دھبوں کا وہ مفہوم نہیں تھا، جو ہمارے ذہنوں میں ہے، اور نہ خون بہانے والوں سے ان کی مراد وہ ہے، جو ہماری ہے۔ وہ پاکستان کا ذکر اسی طرح کر رہے تھے، جس طرح انگریز استعمار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہیں مجھے احساس ہوا کہ آج کے پاکستانی اور بنگلہ دیشی دو اجنبی دنیاﺅں میں رہتے ہیں، جس کا آغاز شاید 1948 ہی میں ہوگیا تھا، اوریہ اجنبیت شاید اس وقت تک رہے گی، جب تک خون کے دھبے دھل نہیں جاتے۔ لیکن جنوبی ایشیائی تاریخ بتاتی ہے کہ خون کے دھبے جب ایک دفعہ لگ جاتے ہیں تو سیاست انھیں مسلسل دہراتی رہتی ہے؛ اگر وہ لوگوں کے حافظے سے محو ہونے لگتے ہیں تو انھیں مزید شدت سے ابھارتی ہے۔

\"13833073_1265833850101928_1452692023_o\" سفیر صاحب نے بنگلہ زبان کے ارتقا پر کم اور اس سے وابستہ قوم پرستی کا ذکر زیادہ کیا۔ شاید اس لیے کہ وہ جرمنوں کو اپنی زبان، قوم اور کلچر کی اہمیت سے روشناس کرانا چاہتے تھے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ اتفاق یہ ہے کہ وہاں ایک زبان ہے۔ جہاں ایک زبان ہو، وہاں کی قومیت پرستانہ آئیڈیالوجی مستحکم ہوتی ہے مگر جہاں ایک سے زیادہ زبانیں موجود ہوں، وہاں قوم پرستی کئی قسم کے تضادات سے مملو ہوتی ہے؛ کثیر لسانی معاشروں میں قومی یک جہتی کے تصور کو ہر لمحہ لسانی فرقہ واریت اور کسی ایک زبان کی استعماریت کا شکار ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔

دوپہر مینزا (ہائیڈل برگ یونیورسٹی کا کیفے ٹیریا) میں کھانے پر ڈاکٹر کرسٹینا سے کئی باتیں ہوئیں۔ میں نے پوچھا کہ یہاں عام لوگ نائن الیون کے واقعے سے متعلق کیا سوچتے ہیں؟ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئیں۔ شاید وہ اس سوال پر گفت گو نہیں کرنا چاہتی تھیں، مگر پھر گویا ہوئیں کہ عام جرمنوں نے اسے ایک اہم خبر سمجھا اور اب بھلا دیا ہے۔ واللہ اعلم! تاہم انھوں نے ایک دوسری بات یہ بتائی کہ جب افغانستان میں جرمن فوجی (نائن الیون کے بعد) بھیجے جا رہے تھے تو عام جرمنوں نے بہت مخالفت کی۔ جرمنی جنگ کے خلاف ہے کہ جنگ میں جب دوسری اقوام کے لوگ مارے جاتے ہیں تووہ بدلہ لیتے ہیں۔ تو کیا جرمن خوف زدہ ہیں؟ یا اس امر کا اچھی طرح احساس رکھتے ہیں کہ جنگ دونوں طرف تباہی لاتی ہے۔ شاید ان کے لاشعور میں کہیں \"HeidelbergTownSquare\"دوسری جنگِ عظیم اٹکی ہوئی ہے۔ آج یہی ٹی وی پر خبر آ رہی تھی کہ یوکرین کے ایک نوے سالہ آدمی نے نازیوں کے محافظ کی حیثیت ہیں 27900 لوگوں کے قتل میں مدد کی۔ اسے آج عدالت نے بری کر دیا کہ وہ کئی برس کے قید کاٹ چکا تھا اور بوڑھا تھا۔ اس طرح کی خبریںجرمنوں کو شرمسار کرتی ہےں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد کے جرمنی نے بہ حیثیت قوم، ہٹلر کا وارث بننے سے سختی سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے خون کے دھبے دھونے کی کوشش کی ہے۔

آج موسم اچھا تھا، مگر میرے لیے، جرمنوں کے لیے بادل اور ٹھنڈ سخت خراب موسم کی نشانیاں ہیں۔ وہ دھوپ چاہتے ہیں، جو زیادہ تیز نہ ہو۔ جوں ہی نرم، مہربان دھوپ نکلتی ہے۔ ہر سمت گلابی جسموں کی بہار امڈی دکھائی دینے لگتی ہے۔ خصوصاً خواتین جسم کے فقط ان حصوں کو نفاست تک کو ڈھانپنے پر اکتفا کرتی ہیں، جنھیں ننگا دیکھنا کراہت پیدا کرتا ہے، وگرنہ باقی سارا بدن دھوپ میں ایک انوکھی لو دینے لگتا ہے۔

شام کو سٹیشن تک پیدل گیا۔ آج میں نے ایک نیاراستہ اختیار کیا۔ مینزا کے مشرق میں سڑک پر مڑا آگے شیل کے پٹرول پمپ کے پاس سے دائیں جانب ہو کر سیدھا چلا گیا۔ چند قدم پردریاے نیکر کا پل تھا۔ یہ نسبتاً اونچا اور چوڑا پل ہے۔ شام ہو رہی تھی، تیز ہوا چل رہی تھی۔ مشرق کی سمت سبزے میں بہار دیتے پہاڑ، اس میں درشن دیتا پرانا کیسل اور مغرب کی سمت آہستگی سے دائیں جانب مڑتا نیکر تھا۔ عجب منظر تھا۔ اگر جنت کا مفہوم، بے پایاں حسن ہے تو اس لمحے مجھے یہ منظر جنت لگا۔

چوہدری شفیق سے، ان کے بسٹرو پر ملاقات ہوئی۔ زبردستی تواضع کی۔ پاکستان، اسلام، جرمنی کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ کئی سال پہلے \"_DSC1281ایک مزدور کے طور پر یہاں آئے، اور اب ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ طبیعت میں حد درجہ انکسار ہے۔ مجھے اصرار کے ساتھ یہاں اپنی گاڑی میں ساﺅتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے گیسٹ ہاﺅس تک چھوڑ گئے۔

رات سونے سے پہلے سکائپ پر بیٹوں اور اباجی کو دیکھا، جی خوش ہوگیا۔ طاہرہ سے ڈھیر ساری باتیں ہوئیں۔

17 مئی 2011ئ

آج پروفیسرہانس ہرڈر سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے میری فرمائش پرمعاصر جرمن تنقید سے متعلق کتب کی فہرست تیار کی تھی، ملتے ہی مجھے تھما دی اور کہنے لگے کہ جرمن تنقید میں ریسپشن تھیوری کے بعد کوئی تھیوری سامنے نہیں آئی۔ میں نے فرینکفرٹ مکتبہ فکر کے ہیبرماس کا ذکر کیا۔ ان کی رائے میں وہ بے حد مشکل لکھتا ہے۔ میں نے کہا کہ اکثر مغربی مصنفین کا طرزِ تحریر ایسا ہی ہے۔ کہنے لگے، نہیں۔ عموماً جرمن آسان زبان میں لکھتے ہیں، صرف فرانسیسیوں کو لمبے، پیچیدہ جملے لکھنے کا شوق ہے۔ میں نے گیاتری چکرور تی سپیوک کا ذکر کیا کہ کل ہی میں نے اس کی کتاب The Critique of Postcolonial Reason لائبریری کو واپس کی ہے، اسے وہی شخص سمجھ سکتا ہے، جس نے جرمن اور فرانسیسی فلسفیوں کے افکار کی تمام تر پیچیدگیوں پر قدرت حاصل کر لی ہو۔

ان سے کئی موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ ما بعد نوآبادیاتی مطالعات کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ وہ انھیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے، ایک حد تک اس \"Gothic-Arc\"کی اہمیت کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں مغرب کی جامعات کے انگریزی کے شعبوں نے اسے زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ وہ ہندوستان کے انگریزی ناول نگاروں کے مابعدنوآبادیاتی مطالعات کرتے رہتے ہیں، جب کہ ہندوستان کا انگریزی ادب صرف اشرافیہ سے متعلق ہے۔ ہندوستان (اور پاکستان) کا اصل ادب اس کی اپنی مقامی زبانوں میں ہے۔ میں نے کہا کہ ایشیائی انگریزی ادیبوں کے مابعدنوآبادیاتی مطالعات کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ادب عالمی انگریزی ادب کی مین سٹریم میں شامل نہیں اور ہمارے انگریزی لکھنے والے اپنے لوگوں کے لیے نہیں، مغرب کے انگریزی لکھنے والوں کے لیے لکھتے ہیں اور ان کی توقعات کے مطابق اپنے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔ پاکستان کی طالبائزیشن دہشت گردی وغیرہ عالمی ادبی منڈی میں خوب طلب رکھتی ہیں۔ ان کی بھی یہی رائے تھی۔ وہ اپنے جرمن پس منظر کی وجہ سے مقامی زبانوں اور ان کے ادب کی اہمیت کے بے حد قائل ہیں۔ انگریزی کو تحقیق کی زبان کے طور پر قبول کرتے ہیں، مگر تخلیقی زبان کے طور پر ہرگز نہیں۔

 ایک دل چسپ بات انھوں نے یہ بتائی کہ اب جرمن زبان میں بھی انگریزی کے الفاظ تیزی سے داخل ہو رہے ہیں۔ چند سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ میں نے مزید کہا کہ آپ اس صورتِ حال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کہنے لگے: ایک یونیورسٹی استاد کے طور پر انھیں یہ سب بہت دل چسپ لگتا ہے۔ وہ بدلتی ہوئی سماجی، ثقافتی صورت حال کو سمجھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اچھا ہے یا برا، اس کا آگے چل کر نتیجہ کیا ہوگا،\"Heidelberger-Schloss_Jan-Becke\" وہ اس بات کا محاکمہ نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے خیال آیا کہ کیا واقعی ایک اکیڈمک پرسن کو اپنے ثقافتی معاملات یا سیاسی حالات کا بس تحقیقی مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کے اچھے برے ہونے پر حکم لگانے سے گریز کرنا چاہیے؟ یعنی اسے محض ناظر ہونا چاہیے۔ اس بات کا فیصلہ آسان نہیں۔ اگر یونیورسٹی کا استاد اور محقق / نقاد محاکمہ بھی کرے توگویا ایک قسم کے ایکٹوازم کو قبول کرے گا۔ کسی بات کو برا کہنے کا مطلب اس کے خلاف فضا تیار کرنا ہے اور خود کو اس صف میں کھڑاکرنا ہے، جو بری بات کو بدلنا چاہتے ہیں، اس صورت میں وہ لازماً ایک آئیڈیالوجی قبول کرے گا اور اس کے یہاں وہ رواداری کم ہو جائے گی یا سر ے سے ختم ہو جائے گی، جو مختلف اور متنوع صورت حالات کی تفہیم کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک اکیڈمک پرسن ایک طرح کے دبدھے میں رہتا ہے۔ تاہم وہ اس وقت اس دبدھے سے نکل آتا ہے، جب صورتِ حال بدل جاتی ہے، یعنی معاملہ محض اپنی زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کے داخل ہونے کا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعلق انسانی مصائب سے ہوتا ہے۔ انسانی مصیبت کے وقت غیر جابنداری جرم بن جاتی ہے۔

ان سے تھوڑی سی بات سیاست حاضرہ پر بھی ہوئی۔ ظاہر ہے اسامہ بن لادن کے واقعے کا ذکر ہوا۔ انھوں نے کھل کر بات نہیں کی۔ میں نے کہا کہ میں سیاسی ماہر نہیں، مگر میرا گمان ہے اور اس گمان کے یقین میں بدلنے کا بھی گمان ہے کہ اسامہ بن لادن کا قتل محض ایک ناٹک ہے جو امریکا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مل کر کھیلا ہے۔ وہ حیران ہوئے۔ میں نے وضاحت کی کہ پاکستان عسکری اسٹیبلشمنٹ اتنی بڑی حماقت کبھی نہیں کر سکتی کہ امریکا کے نمبر ایک دشمن کو عین ناک تلے چھپائے رکھے۔ یہ جانتے ہوئے کہ سی آئی اے ہر وقت ایسی باتوں کی ٹوہ میں رہتی ہے۔ امریکا افغانستان سے واپس جانا چاہتا ہے اور اسی جنگ کے خاتمے کے ایک اہم مرحلے کے طور پر بن لادن کے قتل کا ڈراما از حد ضروری تھا۔ ہرڈر صاحب کہنے لگے کہ یہ ناول کا بہت اچھا موضوع ہے، لکھیے۔

(جاری ہے)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments