فروعی مسائل کے بیان میں خدا پر جھوٹ نہ باندھیئے


\"irfan\"چھوٹا منہ بڑی بات۔ گزشتہ انتخابات کے دوران مولانا فضل الرحمن کی زبان سے سننا کو ملا، کہ عمران خان کو ووٹ دینا \”شرعًا حرام\” ہے\’۔ فتوی کی زبان میں فروعی مسائل (یعنی نئے مسائل جن کا ذکر قرآن و حدیث میں نہ ہو) کے احکامات کے لیے شرعًا اور قطعًا جیسے الفاظ کااستعمال اہل افتاء کے ہاں عام دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسا ہی حال دیگر اہل علم کا بھی ہے جو کسی بھی فروعی یا اطلاقی مسئلے کا حکم بیان کرتے ہوئے ایسا لہجہ ، الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو قطعیت کی حامل ہیں، لیکن درحقیت وہ براہِ راست دینی حکم نہیں ہوتا، جیسا کہ عمران خان کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا حکم خدا اور رسول نے نہیں دیا، یہ مولانا مذکور کا اپنا فہم یا دلی آرزو تھی جسے انہیں شریعت کا مسئلہ بنا دیا۔

فروعی مسائل اور مستنبط احکامات کے لیے الفاظ \’ شرعًا حرام یا شرعًا حلال\’ یا \’ قطعی حلال یا قطعی حرام\’ کا استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ \’شرعًا\’ اور \’قطعاً\’ جیسے الفاظ شریعت کے منصوص احکامات (یعنی جو احکامات قرآن و سنت میں بیان کر دیے گئے ہیں) کے بیان کے لیے مخصوص ہونے چاہیے۔ فروعی مسائل کا حکم تو علماء اور فقہاء کا ذاتی و شخصی فہمِ دین و شریعت ہوتا ہے، جو خطا کا احتمال رکھتا ہے۔ اس ذاتی فہم پر شرعًا اور قطعًا جیسے الفاظ کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ فروعی احکامات میں فقہاء کی آراء میں اختلاف ہوتا ہے، نیز، وقت کے ساتھ ان احکامات میں تبدیلی بھی آ جاتی ہے ۔ فتوی جب بدلتا ہے تو پھر وہی \’شرعی\’ اور \’قطعی\’ حرام، حلال بن جاتا ہے اور \’شرعی\’ اور \’قطعی\’ حلال، حرام بن جاتا ہے، لیکن وہ نیا حکم پھر بھی \’شرعی\’ اور\’ قطعی\’ حلال اور حرام بھی رہتا ہے! فتوے کی زبان میں قطعیت کے حامل الفاظ کےاستعمال پر متنبہ ہونے کی ضرورت ہے۔

خدا نے غیر منصوص احکامات میں انسانی عقل کے عمل دخل کو گوارا ہی اس لیے کیا تھا کہ ان فروعی معاملات میں اختلاف آراء کی گنجایش رہے، جس سے انسانوں کے لیے مختلف حالات میں مختلف طرزِ عمل اختیار کرنے کی گنجائش موجود رہے، نیز چونکہ فروعی معاملات مسلسل تبدیلیوں سے گزرتے ہیں، اس لیے کسی ایک دور میں ان کے بارے میں کوئی فقہی حکم یا تعبیر کو ابدی اور مستقل قرار نہ دیا جائے تاکہ بعد والوں کے مختلف حالات میں ان کے لیے تنگی کا سبب نہ بنے۔ تبدیلی قبول نہ کرنا یہ خصوصیت صرف شرعی احکام کی ہے۔ لیکن فروعی مسائل کو بھی شرعی مسائل کی طرح قطعیت سے بیان کرنے سے عام لوگ تو اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہی ہیں کہ بیان کردہ مسئلہ بھی من جانب اللہ ہی ہے، فقہ کے طلباء اور علماء میں بھی ان مسائل کے بارے میں قطعیت کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ان مسائل میں بھی اسی بے لچک پختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو صرف شریعت کے غیر متبدل احکامات کے ساتھ مخصوص ہو سکتی ہے۔ عوام بھی آپس میں ان مسائل کے بارے میں اپنے اپنے مسلک کے فتاوٰی پر ایسی شدت دکھاتے ہیں جو صرف شرعی یعنی منصوص مسائل کے لیے روا ہو سکتی ہے۔

فروعی مسائل کے بیان میں قطعی الفاظ کا استعمال مسلکی تعصب کی وجہ بن جاتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر فروعی مسائل کے بیان میں ایسے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کی جائیں کہ مثلًا، فلاں مسئلے کا حکم یہ ہو سکتا ہے، یا ایسا ممکن ہے یا میرے/ہمارے نزدیک اس کا حکم یوں ہے، یا میری/ہماری فہم اور تحقق کے مطابق اس کا حکم یہ بنتا ہے، تو تعصب اور غیر ضروری پختگی پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ بنیادی شرعی احکامات میں تو کوئی خاص اختلاف ہوتا بھی نہیں جو وجہ نزاع بن سکے، یہ فروعی مسائل ہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر جب قطعیت سے بیان ہونے لگتا ہےتو مسلک کی پہچان بن جاتا ہے اور مسلک سے وابستگی، شناخت کے بارے میں حساسیت پھر تعصب اور عدم برداشت تک لے جاتی ہے۔ علماء اصولی طور پر تو یہ بات جانتے اور مانتے ہیں کہ فروعی مسائل کے احکامات حتمی نہیں ہوتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سماعتیں جب ان کو حتمی لہجے اور قطعی الفاظ کے ساتھ سنتی رہتی ہیں تو ان کے ساتھ بھی ویسا ہی تاثر بن جاتا ہے جو شرعی احکامات کے لیے ہو سکتا ہے، اور یہ امرِ واقعہ ہے۔

مثلًا حرمتِ تصویر کا فتوی اور اس کے ساتھ علماء کا بدلتا رویہ ہم نے اپنے دور میں خود مشاہدہ کیا۔ ماضی قریب کی بات ہے کہ تصویر اور ویڈیو بنوانا عملی طور پر ایسا حرامِ قطعی تصور کیا جاتا تھا کہ تصویر بنوانے والا عالِم درجہ ثقاہت سے گرا دیا جاتا تھا۔ مساجد میں کیمرہ لے جانا نہایت مکروہ سمجھاجاتا تھا، مولانا طارق جمیل صاحب کی تصویر یا ویڈیو خفیہ طور پر بنانے کی کوشش ہوتی تھی، اور پکٹرے جانے پر کیمرہ سلامت رہتا تھا نہ کیمرہ والے کی عزت۔ لیکن مولانا نے اب سارے حجاب اٹھا دیئے ہیں اور ٹی وی پر آ کر انہوں نے اپنے فیض کا دائرہ وسیع فرما لیا ہے۔ کیمرہ اب بھی خطیب صاحب کے لیے کچھ ایسا ہی لازم ہوگیا ہے جیسے لاوڈ سپیکر، جو خود بھی تصویر سے پہلے حرمت سے حلت کا سفرطے کر چکا ہے ۔

شریعت اور فقہ دو الگ ڈومین ہیں۔ دونوں کے احکامات کے بیان کے لیے ایک جیسے الفاظ کا استعمال نہ صرف خلط مبحث اور کنفیوژن کا باعث ہے بلکہ یہ خدا پر جھوٹ باندھنے کے زمرے میں آتا ہے۔ شرعًا اور قطعاً کہ کر آپ درحقیقت حِلت و حُرمت کو خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ جب کہ یہ حلت و حرمت براہ راست خدا کی طرف سے ہوتی ہی نہیں۔ اس رویے پر قرآن مجید نے بہت سخت وعید سنائی ہے، ارشاد ہوتا ہے:

\”اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے (سورہ النحل آیت، 116)

عام طور پر علماء حضرات ایسے الفاظ کا استعمال اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے کرتے ہیں، لیکن ایسا کرنے سے تاثر یہ ملتا ہے کہ ان کی بات گویا خدا کا یا دین کا قطعی اور لازمی تقاضا ہے۔ لیکن درحقیقت ان قطعی الفاظ کا ایسا استعمال قلت تفقہ یا بے احتیاطی کا مظہر ہے۔فروع میں اپنے نقطہ نظر کو ایسے الفاظ اور اصطلاحات میں بیان کرنا کہ وہ خدا کی طرف سے معلوم ہوں، دراصل یہود کے علماء، احبار اور ربّیوں کا رویہ تھا، جس پرقرآن نے سخت نکیر کی ہے:

\”اُن میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو ۔ (سورہ آل عمران، آیت 78)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments