آﺅ جنگ کریں


\"ahmad ” کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے کے جواب میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کشمیر کو پاکستان بناتے بناتے پاکستان خود کشمیر بن چکا ہے۔ دوسری طرف بھارت کشمیر کو پاکستان سے بچاتے بچاتے ادھ مؤا ہوچکا ہے ۔ اب تک کا جمع حاصل ہے غربت۔

بیچارے کشمیریوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ نہ تو بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ بلکہ وہ ایک علیحدہ ملک چاہتے ہیں جو ان دونوں ممالک کے جھگڑوں سے پاک ہو۔ شاید یہی اس مسئلے  کا حل بھی ہے۔

کشمیر کے دعوے دار وں نے کشمیر کے معاملے پر اپنے اپنے سخت ’اصولی موقف‘ والے گہرے رنگ کے چشمے پہن رکھے ہیں جنہیں وہ اندھیرے میں بھی اتارنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دونوں بار بار کھائی میں گرتے ہیں، لیکن پھر بھی سمجھ میں نہیں آ رہ کہ دوبارہ گرنے سے بچنے کے لئے انہیں یہ چشمے اتارنے ہوں گے۔

 1971 کی جنگ کے علاوہ دونوں ممالک کشمیر کو بنیاد بنا کر تین چھوٹی بڑی جنگیں کر چکے ہیں اور پانچویں جنگ کے لئے اپنے دانت تیز کئے بیٹھے ہیں۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان نے ’آپریشن جبرالٹر‘ کر کے غلطی کی تھی، یا جواباً پاکستان پر حملہ کر نا بھارت کی بھول تھی۔ تمام جنگوں میں قصو ر جس کا بھی تھا دونوں ملکوں نے آپس میں جنگیں کر کے جو حاصل کیا ہے وہ ہے غربت اورانتہا درجے کی غربت۔

69  سال ہوگئے یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہو رہا ہے؟

یہ بنیادی طور پر ایک رویے کا مسئلہ ہے۔ بھارت کو یہ غرور ہے کہ وہ بہت بڑا ہے اور پاکستان کو یہ خوف ہے کہ وہ بہت چھوٹا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کے گھن چکر میں کوئی چھوٹایا بڑا نہیں ہے۔ دنیا میں کسی چھوٹے سے ملک کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کسی بڑے ملک کی ہو سکتی ہے۔ روس کی افغانستان میں اور امریکہ کی ویت نام میں پسپائی حالیہ دور کی واضح مثالیں ہیں۔ تاریخ اس جیسی دیگر مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

بھارتی ریاست اور اس ریاست کے اندر پائی جانے والی ریاست یعنی بھارتی فوج کو چاہیئے کہ وہ پاکستان کو ایزی لینا چھوڑ دے۔ برائے مہربانی اسے چھوٹا نہ سمھیں۔ ورنہ پاکستان آپ کی ناک میں اسی طرح سے دم کئے رکھے گا، اور آپ اپنی ساری توانائی پاکستان کو سبق سکھانے کے چکر میں ضائع کر دیں گے۔ بڑے کو چھوٹا ہونا پڑتا ہے، چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ہے۔ دل بڑا کریں۔ ورنہ لوگ آپ کو چھوٹے دل والی بڑی جمہوریت کہنے سے باز نہیں آئیں گے۔

کچھ اسی طرح کی سوچ پاکستانی ریاست اور ریاست کے اندر موجود ریاست یعنی پاکستانی فوج کی بھی ہونی چاہئیے کہ وہ بھارت کے خوف سے باہر نکلیں۔ اس سے پہلے کہ مائیکل آپ پر حملہ کرے ، آپ مائیکل پر حملہ کر دیں والی پالیسی اب پرانی ہو چکی ہے۔ تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے اس روش کو ترک کرنا ہوگا۔ اعتماد سازی کرنا پڑے گی۔

یا پھردونوں ہمسائے یہ فیصلہ کرلیں کہ آپ نے جنگ کر کے تباہ ہی ہونا ہے ۔ اگر تو آپ کو جنگ کرکے ہی سکون ملتا ہے تو جنگ کر کے دیکھ لیں۔ چھوڑیں ایک دوسرے پر ایٹم بم۔ مٹا دیں انسانوں سمیت ہر جاندار اور بے جان چیز کو صفحہ ہستی سے۔ جو زندہ رہ جائیں گے وہ مر جانے والوں پر رشک کریں گے۔ اس جنگ سے آنے والی نسلوں کو سبق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ نسل بچے گی ہی نہیں۔

 اگر کوئی بچ گیا تو وہ آپ کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھے گا۔ بچ جانے والے لوگ آپ کی عقلمندی اور دوراندیشی کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ کر لیں یہ شوق بھی پورا۔ نکال لیں اپنے اپنے دل کی بھڑاس۔ بد قسمتی سے دونوں ممالک اپنی اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے اسی راستے پر چل رہے ہیں جو کہ سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے۔

بھارت اپنی جنگی حکمت عملی ’کولڈ سٹارٹ‘ پر عمل پیرا ہے جس کے تحت وہ اپنی فوجوں کو پاکستانی سرحدوں کے پاس جمع کر رہا ہے تاکہ اس پر بیک وقت کئی محاذوں سے حملہ کر سکے۔ دوسری طرف پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج نہیں ہے کہ وہ اتنے بڑے حملے کا دفاع کر سکے لہذا پاکستان آگے بڑھتی ہوئی بھارتی فوجوں کا راستہ روکنے کے لئے چھوٹے ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرمستقبل میں جنگ ہوئی تو بات ٹینکوں اور جہازوں تک نہیں رکے گی۔ یہ جنگ ایک ایٹمی جنگ کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں یہ آگ پورے جنوبی ایشیا میں پھیل سکتی ہے اور پھر پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ کچھ بعید نہیں ہے کہ ایسا ہوجائے۔ مثال کے طور پر پہلی جنگ عظیم ایک چھوٹے سے ملک سربیا سے شروع ہوئی اور پھر ایک عالمی جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ پہلی جنگ عظیم میں ایٹم بم نہیں تھا، لیکن دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان پر ایٹمی حملہ کیا۔

تخفیف اسلحہ کے لیے کام کرنے والی تنظیم سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI)نے ایک تازہ رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ اس وقت دنیا کی نو اٰیٹمی طاقتوں امریکہ، روس، چین ،برطانیہ، فرانس، پاکستان، اسرائیل، بھارت اور شمالی کوریا کے پاس 15,395 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ جن میں سے 4,120 ہتھیار مختصر وقت کے نوٹس پر فائر کئے جانے کے لئے نصب کئے گئے ہیں۔

پاکستان اور بھارت اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اپنے بلیسٹک جوہری میزائل کے نظام کو آگے بڑھا رہا ہے اور پلوٹونیم کی پیداوار میں تیزی لا رہا ہے، جبکہ پاکستان چھوٹے جنگی ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے تا کہ بھارت کے روایتی ہتھیاروں کا مقابلہ کر سکے۔

دونوں ریاستوں کی مثال ایک ایسی مسافر بس کے ڈرائیور جیسی ہے جس نے شراب پی رکھی ہو۔ ایسا ڈرائیور جو حادثے کی صورت میں شاید خود تو بس سے چھلانگ لگا کر بچ جائے لیکن مسافروں کو لے ڈوبے۔ دونوں ممالک کے عوام ڈرائیو حضرات کے رحم و کرم پر ہے اور اللہ ہی حافظ ہے۔

بہتر ہوگا کہ پاکستان اور بھارت کی ریاستیں اور ان کے اندر پائی جانے والی ریاستیں ٹھہراو سے کام لیں۔ جذبات کی جگہ اپنے دماغ سے کام لیں یعنی ملکی مفادات یعنی صرف معیشت کی بہتری کو سامنے رکھنے کی کوشش کریں ۔ کھیل اورفن و ثقافت کا سہارا لیں۔ چھوٹی موٹی تجارت چل رہی ہے اسے اور بڑھائیں۔ چین کی مثال لیں جو دشمنوں سے بھی کاروبار کرتا ہے۔ اعتماد سازی کریں۔ گورے کے ہاتھوں میں کھیل کرپاگلوں کی طرح اپنا حلیہ مت بگاڑیں۔ یہ 1965 نہیں 2016 ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments