پاکستان میں بہادر عورتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں


اگر آپ اس بیان سے متفق ہیں تو ادھر دستخط کریں۔\"Qandeel4\"

ہم فیمنسٹ کولیکٹو قندیل بلوچ  کے اپنے بھائی وسیم بلوچ کے ہاتھوں قتل کی مذمت کرتے ہیں اورمطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت مبینہ قاتل کو عدالت میں پیش کرے۔

 قندیل، جن کا پیدائشی نام فوزیہ عظیم تھا،  ایک باغی، ایک فنکارہ (آرٹیسٹ) اور حقوقِ نسواں پر بے باک گفتگو کرنے والی ایک دلیرعورت تھی۔ سوشل میڈیا پر اپنی بولڈ ویڈیوز میں وہ کبھی مرد سیاست دانوں، مشہور کھلاڑیوں اور مذہبی پیشواؤں کو بہلاتی پھسلاتی تو کبھی ہلکے طنز سے ان کا مذاق اڑا کر اس پدرسری سماج کی منافقتوں کو بے نقاب کرتی رہی جس میں تنگ نظر، خود کو متقی اور پرہیزگار کہنے والوں کا راج ہے۔

قندیل کی موت سے ایک مہینہ قبل سوشل میڈیا پر مولانا مفتی عبد القوی کے ساتھ لی گئی سیلفیز وایٗرل ہوئیں تو پاکستانی میڈیا نے ان پر دھاوا بول دیا۔ مفتی قوی اس سے قبل ٹیلی ویژن پر پروگرام کے دوران اداکارہ وینہ ملک پر بےحیائی کا الزام لگا چکے تھے۔ عبد القوی کے ہوٹل کے کمرے میں لی گئی ان تصاویر میں قندیل بلوچ نے مفتی کی ٹوپی مزاحیہ انداز میں پہن رکھی ہے۔ اب عبدالقوی اپنی نیک نامی کو بچانے کے لئے دوسروں پر الزام دھرنے لگے تو قندیل بلوچ نے اپنے مخصوص انداز میں جوابی حملہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عبد القوی ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ کہ وہ مولویوں کے قندیل بلوچ ہیں۔ اس طنز آمیز تبصرہ نے مولوی اور ان سے  منسوب مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی منافقت کو کھول کر رکھ دیا۔ قندیل بلوچ کی موت کے بعد عبد القوی نے دھمکاتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ قتل ان سب عورتوں کے لئے سبق ہے جو مولویوں کی تحقیر کی کوشش کرتی ہیں۔

آج ہم پاکستانی میڈیا کو قندیل بلوچ کے قتل کے جرم میں شریک ٹھہراتے ہیں۔ ہم ان صحافیوں، مدیروں، ہدایت کاروں اور مالکان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ جنہوں نے ان کی نجی زندگی کی تفصیلات شایع کی۔ ملک میں سنگین جنسی تعصب کی صورتِ حال سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود، ان کی شادی اور بچے کو خبر بنا ڈالا۔ ان کی لعنت ملامت کی اور اس طرح ان کے قتل کی راہ ہموار کی۔

ہم ان سیاست دانوں اور سیکیورٹی اداروں کا احتساب چاہتے ہیں جو قندیل بلوچ کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے — باوجود اس کے کہ قندیل نے ان سے تحفظ کی کھلے عام التجا بھی کی۔ انہوں نے وزارتِ داخلہ، ایف آئی اے (FIA) اور اسلام آباد کے سینئر سپرِنٹینڈنٹ آف پولیس (SSP) سے درخواست کی تھی مگران درخواستوں کا کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا۔

ہم احتساب چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ریاست اور عدلیہ اس  بات کو یقینی بنائیں کہ قاتل کہیں خون بہا قوانین کے ذریعے معافی نہ پا لے، کیونکہ یہ قوانین اکثر اس ملک میں کمزوروں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں ہم دو باتوں کی وضاحت کرنا چاہیں گے:

قندیل کِم کارڈیشان نہیں تھی، جیسا کہ کچھ میڈیا کے ذرائع میں بیان کیا گیا ہے۔ وہ ہماری قندیل تھی: ایک مزدور طبقہ کی عورت، تیسری دنیا میں حقوقِ نسواں کی حامی، بہاؤ کے خلاف چلنے والی ایک سرگرم انقلابی کارکن جس نے قتل کی دھمکیوں کے باوجود اپنی مرضی کرنے کی جرات کی۔

قندیل کو ’غیرت‘ کے نام پر نہیں مارا گیا۔ بلکہ اس کو ہماری کمزور مردانہ انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے جو قندیل کی باغیانہ سوچ کے شعلوں کو برداشت نہ کر پائی۔ اس کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ یہ زن بیزار معاشرہ ایک زہریلی مردانیت کو پہلے تو پروان چڑھاتا ہے اور پھر اس کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ قندیل کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ پدرسری سماجی ڈھانچے مرد و عورت کے درمیان غیر مساوی تعلقات  کو برقرار رکھتے ہیں — یہ سمجھتے ہوئے کہ خواتین کے خلاف ظلم و تشدد معمولی اور عام سی بات ہے، یہاں تک کہ وہ اسی کے لائق ہیں۔

اس حوالے سے، خواتین کو اقتصادی مفاد، انا یا دیگر کئی وجوہات کے لئے مارا جاسکتا ہے، اور یہ سب جائز سمجھا جاتا ہے — حتمی طور پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد سے شاید کسی کو سروکار نہیں ہے۔

ہم قندیل بلوچ کو 16 سالہ عنبرین کے ساتھ دفناتے ہیں جسے ایبٹ آاباد میں اِس لئے زندہ جلا دیا گیا کہ اس نے ایک سہیلی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے میں مدد کی؛ امریکی ریاست فلوریڈا میں 31 سالہ ماریہ نیمیتھ کے ساتھ جِس کے اپنے محبوب نے ہی اس کی آنتیں نکال دیں؛ 27 سالہ فرخندہ کے ساتھ جسے کابل میں ایک ہجوم نے پِیٹ پِیٹ کر مار دیا؛ 37 سالہ مِریم نیازیما کے ساتھ جن کے سابق عاشق، سپاہی جوزف موتکِدزا، نے انہیں 26 دفعہ خنجر گھونپ کر مارا؛ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایلیٹ روجر نامی زن دشمن قاتل کی ہدف بننے والی متعدد خواتین کے ساتھ۔

ہم اپنی بہن، اپنی ساتھی قندیل بلوچ کو اپنی ان ہزاروں بہنوں کے ساتھ دفناتے ہیں جنہیں زن دشمنی، پِدرسری سماجی نظام اور مردانہ عدم تحفظ کی پشت پناہی کیلئے مارا گیا ہے۔

اپنے قتل سے صرف تین دن پہلے، قندیل نے لکھا:–

عورت ہونے کے ناتے ہمیں (اپنے حقوق کیلئے) خود کھڑا ہونا ہو گا۔ عورت کی حیثیت میں ہمیں ایک دوسرے کے لئے کھڑا ہونا چاہئے۔۔۔ عورت ہوتے ہوئے ہمیں عدل کے لئے کھڑا ہونا چاہئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں نئے دور کی فیمِنسٹ ہوں۔ میں برابری میں یقین رکھتی ہوں۔ مجھے ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ میں اس کا فیصلہ کروں کہ میں کیسی عورت ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ محض سماج کی خاطر اپنے آپ پر لیبل لگانے کی  کوئی ضرورت ہے۔ میں صرف ایک عورت ہوں، جس کے خیالات آزاد ہیں، ذہنیت آزاد ہے اور میں اپنے آپ کو اسی حالت میں پسند کرتی ہوں۔\":)\"

قندیل، ہمیں بھی تم ایسی ہی پسند ہو۔

قندیل، اپنے عظم و حوصلے کے ساتھ آسودہ رہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments