ہماری شناخت کا جھنڈا


\"husnainچھ ماہ پیشتر ایک صاحب کو گرفتار کر کے باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی پھر مقدمے کا اندراج ہوا اور باقاعدہ ان کو جوڈیشل ریمانڈ پر سرکاری مہمان بنایا گیا۔ وجہ یہ سامنے آئی کہ کھیل کھیل میں تھوڑے سے جذباتی ہو گئے تھے اور بھارتی پرچم اپنے مکان کی چھت پر لہرا دیا تھا۔ عمر دراز بچپن سے ہی کرکٹ کے شوقین تھے۔ دوستوں یاروں نے کہہ کہہ کر بانس پر چڑھا دیا کہ تمہاری شکل تو بالکل ویرات کوہلی کی سی ہے۔ یہ ویرات کوہلی ہی بن گئے، ہر وقت اس کے نام والی شرٹ پہنے گھومتے رہتے، کرکٹ اچھی کھیل لیتے تو لوگ بھی انہیں اعزازیہ طور پر کوہلی ہی پکار دیتے۔ گھر میں بھی جگہ جگہ کوہلی کے پوسٹر لگائے ہوئے تھے، ساتھ اپنی تصویریں بھی لگائی ہوئی تھیں، دیکھتے رہتے اور خوش ہوتے رہتے۔ معاملہ وہاں گڑبڑ ہوا جب حالیہ ہونے والے ٹی ٹونٹی میچوں میں بھارت آسٹریلیا سے جیت گیا۔ عمر دراز جذباتی ہو گئے، خوب خوشی منائی، زیادہ موج میں آئے تو گھر کی چھت پر ترنگا لہرا دیا۔

اب کیا تھا، سارے اوکاڑہ شہر کی انتظامیہ حرکت میں آ گئی، دفعہ سولہ ایم پی او لگی، ۱۲۳ اے لگی، ریمانڈ لیا گیا، باقاعدہ ٹی وی چینلوں پر یہ تک کہا گیا کہ ان کو دس سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے، دو تین روز خاصی گرما گرمی رہی۔ پولیس کا تو معاملہ آپ جانتے ہیں، ہرن تک سے کہلوا سکتی ہے کہ وہ ہاتھی ہے، یہی ہمارے عمردراز بھائی کوہلی کے ساتھ ہوا۔ بے چارے غریب آدمی تھے، وکیل تک کا بندوبست پیسے مانگتا ہے، تفتیش ہوئی، بے گناہ ثابت ہوئے اور انہیں چھوڑ دیا گیا مگر رہا ہونے کے بعد بیان کیا دیا کہ ’اب میں کوہلی کا نہیں صرف شاہد آفریدی کا مداح ہوں۔‘ شغل میلے میں صحافیوں نے کہا کہ بھئی کھیل میں تو کسی کی بھی حمایت کی جا سکتی ہے، آپ کوہلی کو پسند کریں، پسند کرنا کوئی جرم تھوڑی ہے، مگر ان کا کہنا تھا کہ کوہلی کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی ہے اور اب وہ صرف اور صرف شاہد آفریدی کے مداح ہیں۔ ادھر کوہلی بے چارے کے فرشتوں تک کو خبر نہیں ہو گی کہ ان کے فین پر کیا گزری، ادھر فین صاحب باقاعدہ ناراض ہو کر اپنا رخ بدل چکے ہیں اور اب وہ صرف شاہد آفریدی کے فین ہیں۔

یہ واقعہ تو چلیے ایک بھولے سے نوجوان کی کہانی تھی جس کی طبیعت ایسے صحیح طریقے سے صاف ہوئی کہ بے چارہ زندگی بھر اب کسی اور ملک کے کھلاڑی کا نام نہیں لے گا، ایسا ہی ایک واقعہ ایک دو روز پیشتر بھارت میں پیش آ گیا۔

بھارتی ریاست بہار کے مضافاتی علاقے میں ایک جوان نے پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا۔ اب پھر وہی معکوس کہانی دہرائی گئی۔ پوری ضلعی حکومت ہل گئی۔ مقامی چینلوں پر دھڑا دھڑ خبر آنی شروع ہو گئی اور آخر کار وہاں کی جامع مسجد کے قریب ایک گھر میں سے انوار الحق کو گرفتار کر لیا گیا۔ انوار صاحب سے پوچھ گچھ ہوئی کہ بھئی ایسا کیوں کیا آپ نے، تو ان کا جواب تھا کہ انہیں ایسا لگا کہ پاکستان کا جھنڈا لہرانے سے ان کے یہاں نرینہ اولاد ہو گی۔

ایک محاورہ تھا کہ نانی نے خصم کیا، برا کیا، کر کے چھوڑ دیا، اور زیادہ برا کیا۔ اب یہاں ابرار صاحب نے بھی جھنڈا لہرا دیا، برا کیا، لہرانے کی جو وجہ دی وہ ماشاللہ اس سے بھی زیادہ بری دی۔ دیکھیے گا، عن قریب اس کارروائی کے پیچھے کوئی پیر جھنڈے شاہ بھی آپ کو نظر آئیں گے اور یوں اولاد کے آنے سے پہلے ابا میاں جیل یاترا کر رہے ہوں گے۔ اس سارے معاملے کی وجہ سے بھارت میں رہنے والے تمام مسلمانوں پر یہ اعتراض بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ان کے دل میں ہمیشہ سے ہی پاکستان کے لیے نرم گوشہ موجود ہے اور وہ چاہیں بھی تو اسے ختم نہیں کر سکتے۔

کسی بھی ملک کی سرزمین پر غیر ملکی جھنڈا لہرانا وہاں کے قانونی دائرے میں آنے والا فعل ہے۔ اور پھر معاملہ جب دو ایسے دشمنوں کا ہو کہ لاکھ چاہنے پر بھی جو پیار بھری دو باتیں تک نہ کر پائیں تو یہ تمام تر قانونی کارروائیاں سمجھ میں آتی ہیں۔ سمجھ میں نہ آنے والی بات ایک اور ہے۔ اپنے ملک میں یا ملک سے باہر ہر کوئی اپنی مخصوص شناخت بنا کر گھومنے پر کیوں مصر ہو گیا ہے؟

اگر آپ کی باریک داڑھی مونچھ ہے اور ہاتھ کی تیسری انگلی میں انگوٹھی ہے، تو آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے، سب جانتے ہیں۔ اگر آپ کی ڈاڑھی لمبی اور مونچھیں نارمل سی ہیں، شلوار کی لمبائی کچھ کم ہے، تو بھی آپ اپنے فرقے کے نمائندے ہیں۔ اگر آپ کی مونچھیں بالکل کم ہیں اور ڈاڑھی ہے اور ایک عمامہ باندھا ہوا ہے تو بھی آپ کی شناخت واضح ہے۔ عمامے کا رنگ یا ڈاڑھی کا مزید لمبا ہونا آپ کو ایک اور مسلک سے جوڑ دیتا ہے۔ شلوار کے پائنچے حسب ضرورت اونچے نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات ہمیں بے شک اچھا انسان بنانے پر زور دیتی ہیں اور ہم ہوتے بھی ہیں لیکن معاملہ حلیے پر آ کر تھوڑا بدل جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی شخص سے ملاقات کے وقت آپ کی شخصیت کا پہلا تاثر آپ کا چہرہ اور آپ کا لباس ہوتا ہے۔ اب فرض کیجیے کہ آپ کا تعلق مسلک الف سے ہے اور ملنے والا مسلک ج سے وابستہ ہے۔ دونوں مسالک کے علما کی آپس میں نہیں بنتی۔ آپ دونوں کے حلیے بھی اپنے اپنے مسلک کے مطابق ہیں تو اس سے ایک نقصان ہو گا، آپ دونوں کبھی اچھی طرح ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں پائیں گے۔ دوست نہیں بن پائیں گے، یا اگر کام کرنے کی جگہ پر ہیں تو کبھی ٹیم ورک نہیں کر سکیں گے۔ اس کی وجہ ہمارے دماغوں میں بیٹھے ہوئے تعصبات ہیں۔ ہو سکتا ہے اگلی ملاقاتوں میں ایک دوسرے کی طبیعت کا بہتر اندازہ ہو جائے لیکن پہلا تاثر بہرحال مناسب نہیں رہے گا۔

گاڑی کے پچھلے شیشے پر اپنے مسلک یا مذہب کا نمائندہ سٹیکر لگا کر، گاڑی کے اندر بیک ویو مرر کے ساتھ کوئی ایسا نشان لٹکا کر، اپنے گھر پر اپنی پارٹی یا فرقے کا جھنڈا لہرا کر، لباس پر کوئی چھوٹا سا بیج ٹانک کر یا اپنی سواری کی نمبر پلیٹ پر ایسے کوئی بھی کلمات لکھوا کر آپ بہرحال کسی دوسرے کو اپنے مسلک میں داخل نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی انسان آپ کے جھنڈے یا شناختی نشان دیکھ کر آپ کے قریب نہیں آتا، صرف اخلاق ہے جو کسی دوسرے کو آپ سے اتنا متاثر کر سکتا ہے کہ وہ آپ کے نقش قدم پر آتا چلا جائے۔ پھر اس مارا ماری کے دور میں کہ جب ہر انسان کی جان اس کے نظریات کی سولی پر ٹنگی ہو، اپنی شناخت گھر کی چھت پر لہرانے یا گاڑی کے آگے پیچھے لکھوانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بات سمجھ میں نہ آنے والی ہے۔

نارمل مذہبی انسان اور شدت پسند طبیعت کے حامل شخص میں فرق انہیں اضافی شناختوں کا ہوتا ہے۔ آپ گاوں دیہات میں جائیں، آپ کو بہت سے ایسے آدمی نظر آئیں گے جن کے چہرے یا لباس دیکھ کر آپ انہیں ایک اچھا مذہبی انسان تو سمجھیں گے مگر شدت پسندی کا عنصر غائب ہو گا، ایسے ہی شہری نوجوانوں کے ساتھ ہے۔ عام سی داڑھی مونچھ، صاف ستھرا معقول لباس اور دھوپ کا چشمہ لگائے آپ ان پر ٹھپہ نہیں لگا سکتے کہ ان کا تعلق کس فرقے یا مذہب سے ہے۔ یہی معاملہ پوری دنیا میں ہے۔ ایک عام گورے کو دیکھ کر آپ شاید قومیت کا اندازہ لگا لیں مگر مسلک آپ نہیں جان پائیں گے۔ ترکی، مصر یا انڈونیشیا ملیشیا کے اکثر مسلمان بھی ہمیں نارمل سے حلیے میں نظر آئیں گے، یہ لوگ دوسرے ملکوں میں بھی جا کر گھل مل جائیں گے اور ایک عام شہری کی سی زندگی بسر کریں گے۔

ہمیں مجموعی طور پر اپنی سوچ پرکھنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ہم ردعمل کی نفسیات کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ کہیں ایسے ظاہری معاملات کو ہم عین عبادت تو نہیں جان رہے؟ کہیں ہماری ساری اچھی تعلیمات ہمارے حلیے پر ہی تو ختم نہیں ہو جاتیں؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments