کیا شام میں حیوان گھس آئے ہیں؟


\"mujahid

 بلے، شیر اور اس خاندان سے تعلق رکھنے والے دوسرے نر جانور بلیوں، شیرنیوں اور اس خاندان کی دوسری مادہ جانوروں کے بچوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ ذیلی جبلتی نر بالا دستی کا احساس ہو سکتا ہوگا کیونکہ مشاہدہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ینتھیرین اور فیلین کنبوں کے نر جانور صرف نر بچوں کو ہلاک کرتے ہیں جبکہ مادہ بچوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کہنا کتنا غلط ہے کتنا صحیح یہ تو معلوم نہیں لیکن گذشتہ دنوں جو واقعہ شام کے اس خطے میں ہوا جو حکومت شام کے خلاف لڑنے والی شامی فوج آزادی کے قبضے میں ہے، اس نے درد دل رکھنے والوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے کیونکہ اس واقعے میں ملوث انسان اس خاندان کے نر جانوروں سے بھی بدتر ثابت ہوئے ہیں۔

 شامی فوج آزادی کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں انہوں نے ایک نو دس برس کے بچے کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ انسانوں کے سروں کو جسموں سے جدا کرنے کے ہولناک مناظر شدت پسندوں خاص طور پر داعش والوں کی جانب سے اکثر دکھائے جاتے ہیں جن میں وہ افراد جن کی گردنیں اتاری جانی ہوتی ہیں سرخی مائل نارنجی ملبوس میں ہاتھ کمر کی جانب بندھے ہوئے گھٹنوں کے بل بٹھائے ہوتے ہیں۔ ان کی وڈیو ان کے سامنے سے بنائی جا رہی ہوتی ہے۔ ان کی پشت کی جانب کمبیٹ سوٹ یا سیاہ لباس پہن کر کھڑے ہوئے قاتل جلاد گھیرے کی شکل میں ایستادہ عام لوگوں کو تقریر کے انداز میں قتل کیے جانے کے منتظر فرد یا افراد کا جرم بتاتے ہیں اور پھر بائیں ہاتھ سے مظلوم کی گردن کی پشت پکڑ کر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ اوندھے لٹاتے ہوئے خنجر سے ان کی شہ رگ کاٹ دیتے ہیں۔

 شامی فوج آزادی کے جنگجووں نے کسی غیر ملکی یا کسی مخالف جنگجو یا سرکاری فوج کے سپاہی یا افسر کی گردن نہیں کاٹی بلکہ ایک نو دس برس کے بچے کی گردن کاٹی ہے۔ چونکہ شامی فوج آزادی امریکہ اور مغرب کی پروردہ ہے جسے امریکہ اور مغرب اعتدال پسند جنگجو (دہشت گرد) قرار دیتے ہیں، اس لیے میڈیا نے اس وڈیو اور اس خبر کو زیادہ کوریج نہیں دی۔ چونکہ روس شام میں امریکہ کی پالیسی کی مسلسل مخالفت کرتا چلا آ رہا ہے، اس لیے اس نے امریکہ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہی لوگ امریکہ کی نظر میں اعتدال پسند گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی وحشت کے اطہار کے لیے ایک بچے کو بھی نہیں بخشا؟ جب وائٹ ہاؤس کے ترجمان کی بریفنگ کے دوران یسوسی ایٹڈ پریس کے نامہ نگار نے اس واقعے سے متعلق استفسار کیا تو ترجمان آئیں بائیں شائیں کرنے لگا بس اتنا کہہ سکا کہ ہم نے سنا ہے لیکن ابھی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

 روس کے سرکاری ٹی وی نے اپنے خبرنامے میں شامی فوج آزادی کی جانب سے جاری کردہ اس وڈیو کا کچھ حصہ دکھایا ہے۔ اس میں ایک نو دس سال کے بچے کو جو نحیف و نزار ہونے کے سبب سات برس سے زیادہ کا نہیں لگتا۔ زمین پر بٹھے ہوئے ایک جنگجو نے دبوچا ہوا ہے۔ بچے کی گردن اس کے بازو کی گرفت میں ہے، بچہ پیٹ اور ٹانگوں کے بل نیم دراز ہے۔ بچے کی آنکھیں حیرت اور یقیناً خوف کے باعث زیادہ ہی کھلی ہوئی ہیں۔ بچے کے پیچھے اور بچے سے آگے بیٹھے ہوئے \”جری افراد\” عربی زبان میں غالباً بچے کا ٹھٹھہ اڑا رہے ہیں کیونکہ وہ سب ہنس رہے ہیں۔ بچہ مارے خوف کے رو بھی نہیں رہا۔ اس کے بعد کا حصہ نہیں دکھایا گیا لیکن ظاہر ہے ان وحشی افراد نے اس بچے کا سر تن سے جدا کر دیا تھا۔

 شامی فوج آزادی کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ بچہ \”القدس بریگیڈ\” کی طرف سے ان کے خلاف جنگ میں ملوث تھا۔ بچوں کو جنگوں میں نوعمر سپاہیوں کی حیثیت سے استعمال کیا جانا ایک قابل مذمت مگر عام سرگرمی ہے، خاص طور پر افریقہ میں ایسا اکثر کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اسے ایک جرم قرار دیا گیا ہے مگر جنگوں میں جرم کہاں دیکھے جاتے ہیں۔ تاہم اگر مذکورہ بچہ کسی جانب سے ان کے خلاف لڑ بھی رہا تھا، تب بھی انسانیت کا تقاضہ تھا کہ بچے کو قید کر لیا جاتا۔ اس کی گردن نہ کاٹی جاتی ممکن ہے گولی مار دی جاتی لیکن اس کو ہراساں کرنے اور ٹھٹھہ اڑانے کا کوئی حق نہیں تھا۔

 حق ناحق کی بات کی جائے تو کس سے؟ ان سے جو اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر ہر نوع کی ہیبت آرائی کو درست خیال کرتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال پیشتر اسی شامی فوج آزادی کے ایک جنگجو نے شامی سرکاری فوج کے سپاہی کا سینہ چیر کر دل نکال لیا تھا اور اسے کچا چباتے ہوئے وڈیو بنا کر کے جاری کی تھی۔ مردہ کا گوشت کھانا اور وہ بھی مردہ انسان کا یہ کہاں کی انسانیت ہے؟

 کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں ہر عمل جائز ہوتا ہے۔ یہ محاورہ ان دنوں کا ہو سکتا ہے جب جینیوا کنونشن نہیں طے ہوا تھا مگر آج 2016 میں جس طرح آزادی کا نام استعمال کرنے والی اس تنظیم نے یہ انتہائی مذموم کام کیا ہے وہ شاید داعش نام کے گروہ نے بھی نہہیں کیا ہوگا۔ اسلام تو جنگ کے دوران بچوں، عورتوں، بوڑھوں، فصلوں، درختوں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے یا تلف کرنے کی مناہی کرتا ہے تو کیا یہ آزادی خواہ حیوانوں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں جو ایک چھوٹے بچے کو جس کا شاید یہ گناہ تھا کہ وہ مجبوری کے عالم میں یا ترغیب دیے جانے پر بندوق اٹھانے کا مرتکب ہوا تھا۔ کون جانے یہ بات بھی درست ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments