وادی سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنا


\"Picture_Zubairایک ایسے ملک میں جہاں اٹھارہ سالوں سے مردم شماری نہیں کی گئی ہو بڑا مشکل ہے کہ کونے میں پڑے کسی علاقے کی آبادی کو صحیح طور پر معلوم کیا جاسکے۔ تاہم چند آزاد ذرائع کے مطابق پاکستان کی آبادی دو سو ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ آبادی میں بڑھاؤ کی یہ شرح وادی سوات (ضلع سوات) میں عموماً زیادہ رہی ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے وقت سوات میں آبادی میں نمو کی شرح 3.37 فی صد تھی جب سوات کی کل آبادی ساڑھے بارہ لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ لاہور میں مقیم ایک غیر سرکاری تنظیم \’پنجاب لوک سجّاگ \’ کی کتاب \’سوات \’، جو 2013 ء میں چھپی تھی، کے مطابق سوات کی کل آبادی ساڑھے سترہ لاکھ تھی۔ ایک آن لائن معلوماتی ذریعے (Wikipedia) نے 2014ء کو سوات کی کل آبادی بائیس لاکھ تک بتائی ہے۔

اس اندازے کے مطابق سوات صوبہ خیبر پختونخوا میں آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ضلع ہے۔ ضلع مردان کی آبادی سوات سے بس تھوڑی ہی زیادہ ہیں۔

سوات میں دہشت کے راج اور 2010ء کے بد ترین سیلاب کے بعد اس وقت کی حکومت نے ضلع سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی تھی تاہم تاحال اس پر عمل نہیں ہوسکا۔

سوات کی آبادی اگر بائیس لاکھ ہے تو اس کا رقبہ 5,337  مربع کلومیٹر بنتا ہے جو کہ ایک بڑی مرکزی وادی اور دسیوں دوسری وادیوں میں بٹا ہوا ہے۔ اتنے بڑے ضلعے کو موجودہ انتظامی انتظام میں مؤثر طریقے سے نہیں چلایا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کے ضلعے کے بالا افسران دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچتے اور ان کو ان علاقوں میں دیکھا بھی نہیں جاسکتا۔ ایسے میں کئی وجوہ کی بنا پر سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دانشمندانہ لگتی ہے۔

سارے ضلعی دفاتر کا مینگورہ میں ہونا لوگوں کو بڑے مسائل سے دوچار کرتا ہے۔ اس سے اس شہر کا حلیہ بھی بری طرح بگڑ چکا ہے۔ سوات کے لوگوں کے زمین اور جنگلات سے متعلق کئی مسائل ریاست سوات سے ورثے میں ملے ہیں اور پاکستانی حکومت نے ان مسائل میں مختلف قوانین کے ذریعے اضافہ ہی کیا ہے۔ یہاں زمین، جنگلات اور شاملات سے متعلق عدالتی مقدمات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ان ہی مقدمات کی پیروی کے لئے ہزاروں لوگوں کو دور دراز علاقوں سے مینگورہ جانا پڑتا ہےجس سے ایک طرف ان لوگوں کو کئی مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو دوسری طرف مینگورہ شہر پر ٹریفک کا بہت دباؤ پڑتا ہے۔ اسی طرح دوسرے اداروں کے مرکزی دفاتر بھی مینگورہ اور اس کے اطراف میں ہیں جہاں لوگوں کو جانا پڑتا ہے۔ ان کے علاوہ سرکاری و غیر سرکاری اسپتال بھی مینگورہ میں ہی واقع ہیں جہاں لوگوں کی کثیر تعداد روزانہ جاتی ہے۔

سوات کوہستان کے علاقوں اتروڑ، کالام اور مانکیال وغیرہ سے اگر کوئی کسی دفتری یا صحت کے مسئلے کی صورت میں مینگورہ جانا چاہے تو اسے وہاں رات کو ٹھہرنا پڑے گا۔ اس سے ایک طرف ان بے چاروں پر معاشی بوجھ کئی گنا ہو جاتا ہے تو دوسری طرف مینگورہ شہر میں ٹریفک اور آلودگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سوات پورے مالاکنڈ ڈویژن کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ اس سے اس پر ایک لحاظ سے پورے سات ضلعوں کا دباؤ ہے۔ اس شہر میں سڑکوں کی وسعت اور حالت 1950 ء کی ہے جب سوات کی آبادی چار لاکھ سے بھی کم تھی۔ اب وہی انفراسٹرکچر اس پورے مالاکنڈ ڈویژن کا بوجھ اٹھاتا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ پورے ڈویژن میں غیر کسٹم شدّہ گاڑیوں کی بھر مار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مینگورہ شہر میں رکشوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اب تو چنگچی رکشے بھی ہزاروں میں ہیں۔

مینگورہ شہر پورے خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ آلودہ اور غیر منظم لگتا ہے۔ یہاں کی مرکزی بازاروں اور شاہراہوں مثلاً نیو روڈ، وتکی روڈ، سیدو روڈ یا کانجو روڈ سے گزرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ کانجو پل سے کچہری تک کا دو کلومیٹر سے کم فاصلہ تین گھنٹوں میں طے نہیں ہوسکتا۔

ہزارہ ڈویژن میں اباسین کوہستان کے ضلعے کی کل آبادی سوات کی آبادی کے نصف سے بھی کم ہے۔ موجودہ حکومت نے حال ہی میں اباسین کوہستان کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا جسے عدالت نے کوہستان کے لوگوں کے بیچ ضلعی ہیڈ کوارٹر پر تنازعے کی وجہ سے منسوخ کردیا۔

گزشتہ سالوں میں سوات بد ترین آفات کا نشانہ رہا۔ دہشت گردی اور اس کے روک تھام نے سوات کی ترقی، کلچر اور معیشت کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا۔ ابھی اس دہشت گردی سے نمٹا جاری تھا کہ سوات میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس نے سواتیوں کے دکھوں میں مزید اضافہ کیا۔

دہشت گردی اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اب بھی پوری طرح مکمل نہیں ہوئی۔ بالائی سوات کے لوگوں کو اب بھی شکایت ہے کہ بحالی کے اس عمل کا مرکز زیادہ تر مرکزی سوات رہا اور بالائی علاقے اس سے محروم رہے۔ اس کی اہم مثال سیّاحتی جنّت کالام کی سڑک کی حالت ہے جو چھ سال گزرنے کے باوجود ہنوز ایک خشک نالا ہی لگتی ہے۔ کالام، بحرین اور مدین کے علاقوں میں کئی ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولز اب بھی بغیر سٹاف کے ہیں۔ ہائیر سیکنڈری سکول کالام میں گیارہ آسامیوں کی جگہ صرف تین اساتذہ تعینات ہیں۔ یہی حالت دوسرے سکولوں کی بھی ہے۔ کالام میں سول اسپتال فعال نہیں ہے اور نہ ہی تحصیل اسپتال مدین جو سیلاب میں بہ گیا تھا۔ ان علاقوں میں نہ تو \’تعلیمی ایمرجنسی \’ دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ادھر \’صحت کے انصاف \’ نے کبھی رخ کیا۔

بالائی علاقوں کے لوگوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ ان کے علاقوں کو قومی میڈیا خصوصاً ٹی وی پر وہ حصّہ نہیں ملتا جو ملنا چاہئے۔ مثلاً اس عید کے فوراً بعد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کالام، بحرین اور مدین میں ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں آئیں اور پانچ لاکھ کے قریب سیّاحوں نے ان علاقوں کی سیر کی لیکن کسی بھی پرائیویٹ یا سرکاری ٹی وی نے اس کی ایک خبر تک نہیں دی۔ ان ٹی و چینلوں کے ہر بلٹین میں البتہ مری جسے \’ملکہ کوہسار \’ کہ کر اس کا ذکر خوب کیا جاتا ہے۔ مگر مجال ہے یہ میڈیا \’شاہ کوہسار \’ کالام کا ذکر کبھی کرے۔ [پورے سوات وادی بشمول دیر، ملاکنڈ ایجنسی، شانگلہ اور بونیر کو یوسفزئیوں کی یہاں امد کے وقت کوہسار کا نام دیا جاتا جبکہ وادی چارسدہ اور مردان کو سمہ کہتے تھے۔ اس حساب سے کالام کے لئے شاہ کوہسار کا استعارہ موزوں لگتا ہے]۔ ہاں جب عید کے چند دن بعد مانکیال کے قریب ایک پولیس موبائل پر مشکوک مگر مبینہ بم حملہ کیا گیا تو سارے ٹی وی چینلز نے اس کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کیا۔ اس میڈیا نے قسم کھائی ہے کہ سوات اور خیبر پختونخوا میں بم دھماکوں کی خبریں کے علاوہ کوئی خبر نہیں چلائیں گے۔

بالائی سوات کے علاقوں خوازہ خیلہ، مٹہ یا سوات کوہستان کی مثبت خبریں میڈیا میں کم ہی آتی ہیں۔

ان وجوہات کی بنا پر سوات کی دو ضلعوں میں تقسیم ناگزیر ہوجاتی ہے۔

وادی سوات کو روایتی اور طبعی لحاظ سے دو خطوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: سوات خاص اور سوات کوہستان۔

سوات کوہستان وادی سوات کا خوبصورت پہاڑی علاقہ ہے جو مینگورہ سے کوئی پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر پڑتا ہے۔ سوات کوہستان موجودہ انتظامی لحاظ سے ضلع سوات کا سب سے بڑا سب ڈویژن بنتا ہے جو مدین کے قریب پیا خوڑ سے شروع ہوتا ہے اور اپر دیر، انڈس کوہستان، گلگت اور چترال سے ملتا ہے۔ سوات کوہستان آبادی کے لحاظ سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہوگا جبکہ رقبے کے لحاظ سے یہ پورے ضلع سوات کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلات، پانی اور تباتاتی و ثقافتی تنوع کا گہوارہ ہے۔

سوات کوہستان میں سوات کے آبائی لوگ توروالی اور گاؤری کے علاوہ گوجر اور پشتون رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ قشقاری (کھو) اور اشوجو لوگ بھی رہتے ہیں جن کی تعداد صرف سینکڑوں میں ہے۔ یہ ساری قومیتیں صدیوں سے یہاں باہمی امن کے ساتھ رہتی ہیں۔

اس مثالی امن، قدرتی حسن اور قدرتی وسائل کے باوجود سوات کوہستان ترقی میں مجموعی طور پر باقی سوات اور مرکزی خیبرپختونخوا سے بہت پیچھے رہ چکا ہے۔ مدین سے اوپر پورے علاقے میں صرف بحرین کے قریب ہی لڑکیوں کے لئے ایک ہائی سکول ہے۔ یہ علاقہ حکومتی سردمہری کا شکار ہے۔ یہاں کوئی مؤثر سیاسی قیادت موجود نہیں اور نہ ہی اپنے حقوق کے لئے لڑنے کے لئے کوئی باہمت سول سوسائیٹی موجود ہے۔

سوات کوہستان کا پہاڑی سلسلہ قراقرم اور ہندوکش کے بیچ پڑتا ہے۔ تاہم اسے اکثر ہندوکش پہاڑی سلسلے میں شمار کیا جاتا ہے۔

یہاں کے لوگوں کو اکثر حکومت سے امتیازی سلوک کا گلہ رہتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا علاقہ اپنے قدرتی و ثقافتی حسن اور قدرتی وسائل کی وجہ سے حکومتوں کی توجہ کا مرکز ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور مقامی لوگ اس سلوک کی وجہ سے آہستہ آہستہ غربت، جہالت اور پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے گئے۔

سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرکے بالائی ضلعے کو \’اپر سوات \’ کی بجائے سوات کوہستان کا نام دیا جائے اور اس میں تحصیل بحرین کے ساتھ مٹہ اور خوازہ خیلہ کی تحصیلوں کو شامل کر کے مدین، مٹہ یا خوازہ خیلے کے قریب اس کا ہیڈکوارٹر بنایا جائے۔

اس نام سے سوات کوہستان کے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور وہ اپنے وسائل اور ثقافت پر فخر کرسکیں گے۔ اس سے شائد یہ علاقہ حکومتوں کی توجہ میں بھی آجائے۔

ایک دوسرا نام اس ضلعے کا کالام ہوسکتا ہے۔ کالام کی ایک انوکھی تاریخ ہے۔ کالام سوات کوہستان کا ایک اہم حصّہ ہے لیکن یہ ریاست سوات میں کبھی شامل نہ رہا۔ کالام کا پورا علاقہ ریاستی دور میں براہ راست برطانوی حکومت کے تحت رہا۔ اس کی حیثیت اس وقت ایک وفاقی ایجنسی جیسی تھی۔ کالام کی یہ حیثیت اس پر اس وقت کے دیر، چترال اور سوات کی ریاستوں کے ملکیتی دعوؤں کی وجہ سے رہی۔ کالام کو 15 اگست 1947 کی رات کو والی سوات نے چند برطانوی افسروں کی ایما پر قبضہ کیا لیکن اس قبضے کو نئی پاکستانی حکومت نے کبھی نہیں مانا اور 1954ء کو کالام کو ریاست سوات سے واپس لے کر والی سوات کو ایک معاہدے کے ذریعے کالام کا منتظم مقرر کیا گیا۔

اسی منفرد تاریخ کی وجہ سے اس دوسرے ضلعے کا نام کالام بھی رکھا جاسکتا ہے اور اسے اس ضلعے کا گرمائی ہیڈکوارٹر بھی بنایا جاسکتا ہے۔

موجودہ سوات میں کل سات سب ڈیویژن ہیں۔ ان میں بالائی تین یعنی بحرین، خوازہ خیلہ اور مٹہ کو ملا کر یہ دوسرا ضلع بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ پوری وادی سوات میں قومی اسمبلی کی موجودہ دو سیٹوں کو دو گنا کیا جائے اور سوات میں صوبائی اسمبلی کی سات سیٹوں کو بڑھا کر بارہ کیا جائے۔

شائد ایسا کرنے سے سوات میں موجود ترقیاتی و معاشی تفاوت کو کم کیا جاسکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments