غیرت – مردانہ انا اور زمین کا مسئلہ


\"mujahidسولہ سالہ حمیدہ صحن میں بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھی، جبکہ اس کی ماں کچھ دور چارپائی پہ لیٹ کر مسلسل برا بھلا کہہ رہی تھی کہ وہ کام میں اتنی دیر کیوں لگاتی ہے۔ مگر اس کی توجہ اپنی ماں کی طرف بالکل نہیں تھی۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے پھول لہرا رہے تھے کیونکہ اگلے دن سب گھر والوں نے ایک شادی پر جانا تھا۔ یہ ایسا موقع تھا جب اسے نہ صرف صاف ستھرے کپڑے پہننے کی اجازت مل جاتی بلکہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گیت بھی گا سکتی تھی۔ وہ انہی خیالوں میں گم مسکرا رہی تھی کہ اچانک زوردار آواز سے گھر کا دروازہ کھلا، اس کا بائیس سالہ بھائی اس طرح اندر داخل ہوا کہ ہاتھ میں کلہاڑی تھی، کپڑے لہو سے تربتر تھے اور آنکھوں میں خون کی پیاس بھری ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں دونوں ماں بیٹی نے سارا معاملہ سمجھ لیا۔ صدیوں سے جاری کریہہ رسوم و رواج نے شائد ان کے جینز میں وجدان کی اضافی صفت پیدا کردی تھی۔ بوڑھی عورت نے زور لگا کرچارپائی سے اترنے کی کوشش کی جبکہ بیٹی نے چیخ ماری اور آٹا چھوڑ کر ماں کی طرف بھاگی ۔

مگر نوجوان مرد کے اندر پھیلی وحشت نے اس کی فطری طاقت کو بڑھا دیا تھا۔ اس نے ماں تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی بہن کو پکڑ لیا اور بالوں سے گھسیٹ کرباہر لے گیا۔ ماں کی ہذیانی چیخیں دونوں کو دیر تک سنائی دیتی رہیں لیکن اس پہاڑی علاقے میں باقی گھر بہت فاصلے پر تھے اور اس بوڑھی آواز میں اتنی توانائی نہیں تھی کہ وہ زیادہ دور سفر کر سکتی۔ حمیدہ کچھ دیر تو مزاحمت کرتی رہی پھر اس پر خاموشی طاری ہو گئی۔ بس وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان کانٹے دار جھاڑیوں اور نوکیلے پتھروں کو تکتی رہی جو آگے بڑھ بڑھ کر اس کے جسم کو نوچ رہے تھے۔

ڈیرہ غازی خان اور بلوچستان کے درمیان طویل پہاڑی سلسلہ ایک بنجر مانگ کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ اسے ہم علاقہ غیر کہتے ہیں کیونکہ وہاں حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کٹے پھٹے خشک پہاڑوں پر مشتمل اس علاقے کے لوگ صدیوں پرانے رسوم و رواج کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ حمیدہ کا واقعہ مجھے اسی علاقے کے ایک فرد نے سنایا تھا۔ اس کے بھائی کا مخالف قبیلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہوا، جوانی کے زعم کو انا کے شیطان نے مہمیز دی اور وہ نوجوان اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ قتل کے فوراً بعد اسے حالات کی سنگینی کا احساس ہو ا۔ وہ جانتا تھا کہ اب مقتول کے ورثا اس سے بدلہ لیں گے یا پھر پنچائیت کے ذریعے صلح ہو گی جس میں نہ صرف اپنی بہنوں کے رشتے دینا پڑیں گے بلکہ زمین کا ایک بڑا ٹکڑا بھی دشمنوں کے حوالے کرنا ہو گا۔ اس نے ان دونوں مہنگے سودوں کی بجائے تیسرے رستے کا انتخاب کیا۔ آٹا گوندھتی اپنی چھوٹی بہن کو پکڑا اور گھسیٹتا ہوا جھگڑے کے مقام پر لے گیا۔ جہاں اس نے خوف سے تھرتھرکانپتی حمیدہ کو کلہاڑی کے وار کر کے کاٹ ڈالا اور مقتول کے ساتھ لٹا کر اسے کاروکاری کا معاملہ بنا دیا۔ اب رواج کے مطابق نہ ہی اس سے بدلہ لیا جا سکتا تھا اور نہ ہی اس کے باپ سے زمین لینے کے لئے کوئی پنچائیت بیٹھ سکتی۔ جس طرح لوگ سارا سال بکریاں پالتے ہیں تاکہ عید قربان پر پیسے بچائے جا سکیں، اسی طرح پاکستان کے بہت سے علاقوں میں لڑکیوں کو پالا جاتا ہے تاکہ ایسے مواقع پر ان کی قربانی دے کر ایک مرد کی انا اور زمین بچائی جا سکے۔

اسی علاقے کی دو بہنیں ایک اور قبیلے کے نوجوانوں کو دل دے بیٹھیں اور گھر سے بھاگ کر ان کے پاس پہنچ گئیں۔ لڑکوں نے چند روز انہیں ایک جگہ چھپائے رکھا تاہم جب دل بھر گیا اور لڑکیوں کے خاندان کا ڈر بھی غالب آ گیا تو دونوں کو ایک گروہ کے حوالے کر دیا جہاں ان کا کام بڑے لوگوں کا دل بہلانا تھا۔ واپسی کے ہر رستے پر اجل کا فرشتہ ان کا منتظر تھا اس لئے یہ کرب انہیں سہنا پڑا۔ چند ماہ کے بعد ایک بار پھر بولی لگی اور اس دفعہ خریداروں نے انہیں ایک ارزاں سے کوٹھے پر بٹھا دیا۔ یہاں کئی ماہ انسانی شکل والی جونکیں ان کا لہو چوستی رہیں۔ ایک چھوٹے سے گھر میں پلنے والی ان کم عمر لڑکیوں کے لئے یہ سب ایک ڈراؤنا خواب بن گیا۔ آخر کار ایک دن موقع ملنے پر انہوں نے ایک جوا کھیلا اور داؤ پر اپنی زندگی لگا دی۔

انہوں نے کسی طرح فون پر گھر والوں سے رابطہ کیا، باپ نے تسلی دی اور ایک دن خاموشی سے خاندان کے مرد انہیں واپس لے گئے۔ تین دن اپنے انجام کے انتظار میں دونوں ایک کمرے میں بند رہیں جبکہ اس دوران مردوں کی مسلسل خفیہ پنچائیت ہوتی رہی۔ چوتھے روز فیصلے کے تحت ماں باپ کسی رشتہ دار کے گھر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد دو بھائ اسلحہ لے کر کمرے میں آئے اور دونوں بہنوں پر فائرنگ کر دی۔ نفرت کے اندھے جذبے نے یہ نہیں دیکھا کہ گولیوں نے انہیں مارنے کی بجائے شدید زخمی کر دیا ہے۔ دونوں بھائی ان کے تڑپتے، خون ابلتے جسموں کو پتھریلی پگڈنڈیوں پر گھسیٹتے گئے اور پہلے سے کھودے ہوئے ایک گڑھے میں ڈال دیا۔ ایک عینی شاہد نے مجھے بتایا تھا کہ جب ان پر پتھریلی مٹی ڈالی جا رہی تھی تو ان کے جسم ہل رہے تھے اور ہونٹوں سے مدھم سی فریادیں نکل رہی تھیں۔

ایسے بے شمار المیے ان علاقوں میں جنم لیتے رہتے ہیں جو قبائیلی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں یا جاگیرداری معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان مظلوم خواتین کے قتل کو پورا علاقہ ایک خاموش معاہدے کے تحت چھپا لیتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے جو اعداد و شمار پیش ہوتے ہیں ان میں یہ شامل نہیں ہوتیں۔ یہ سنگدل معاشرہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہ مظلوم عورتیں ایک ہندسے کی شکل میں بھی باقی نہ رہ پائیں۔

میں نے اتنے دلدوز واقعات سنے ہوئے ہیں کہ جب قندیل بلوچ کے پردے سے فوزیہ عظیم نمودار ہوئی اور اس کا تعلق ہمارے شہر کے ایک نواحی گاؤں سے نکلا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ اسے جلد ہی مار دیا جائے گا۔ اس سماج میں جو لڑکیاں بے زبان جانور کی طرح رہنے کا فن سیکھ لیں وہ زیادہ عرصہ جی لیتی ہیں۔ تاہم قدرت کسی کے دل میں چاہت کی اضافی خواہش ڈال دیتی ہے۔ وہ گھر میں محبتوں کے تمام جھرنے صرف مردوں کی طرف بہتے دیکھتی ہے تو اس کی پیاسی روح باہر کی دنیا میں اپنے لئے چاہت کی سوغات تلاش کرنے لگتی ہے۔

ایک چھوٹے سے گھرانے میں مردوں کی خدمت پر معمور اس لڑکی کو معلوم نہیں ہوتا کہ باہر کی دنیا میں جسموں کی سڑاند سونگھنے والے بھیڑیے گھوم رہے ہیں۔ وہ نہیں جانتی کہ جس طرح عیب زدہ جانور کوئی نہیں خریدتا، اسی طرح گھر سے باہر محبتیں ڈھونڈتی عورت بھی داغی قرار دے دی جاتی ہے۔ وہ دل بہلانے کے کام تو آ سکتی ہے مگر اسے زندگی کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک مضبوط سہارے کی جستجو میں بھٹکتی اس گمشدہ بھیڑ کی زندگی ہمیشہ مختصر ہوتی ہے۔ کچھ خوش نصیب تو پہلے مرحلے میں ہی قتل ہو جاتی ہیں مگر کچھ قندیل بلوچ کی طرح اتنا عرصہ زندہ رہ جاتی ہیں کہ اپنی آنکھوں سے سرابوں کے تمام پردے ہٹ جانے کا تکلیف دہ منظر دیکھ سکیں۔

آگہی ہمیشہ ایک کربناک تجربہ ہوتا ہے جو دل کی دھڑکنوں کو پھوڑے سے ابھرتی ٹیسوں میں بدل دیتا ہے۔ گھر سے نکلنے کے بعد قندیل بلوچ مسلسل کسی ایسے شخص کی تلاش میں فریب کھاتی رہی جو اسے انسان کے طور پر دیکھے لیکن ہر دھوکہ یہ سبق سکھاتا رہا کہ اس کا جسم ہی اس کی واحد پہچان ہے۔ جب یہ آگہی اس کی ذات کے ایک ایک مسام میں زہر بن کر پھیل گئی تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب پورے معاشرے سے اپنے جسم کا خراج وصول کیا جائے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ بے ضمیر لوگ چھپ کر اس کے بدن کو نوچنے کے لئے تو ہر وقت تیار ہوں گے لیکن سر عام یہ سوغات پیش کرنے پر منافق سماج کی اخلاقیات خطرے میں پڑ جائے گی۔ وہ ایک کمزور سی عورت تھی جو پورے معاشرے کو آئینہ دکھانے پر تل گئی تھی۔ اسے ہر صورت مرنا تھا، مجھے حیرت ہے تو صرف اس بات پر کہ اتنے دن اس نے جی کیسے لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments