بحیرہ جنوبی چین، باہمی مذاکرات ہی واحد حل ہیں


ضمیر اسدی

\"Zamirچین نے فلپائن کی جانب سے یک طرفہ طور پر 2013 میں ہیگ کے ثالثی ٹربیونل میں دائر کئے جانے والے بحیرہ جنوبی چین کے حوالے سے مقدمہ پر فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ثالثی کونسل کا فیصلہ غیر قانونی ہے اور فلپائن نے ثالثی کونسل میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے چین کے ساتھ کئے جانے والے سفارتی وعدوں سے انحراف کیا۔ فلپائن نے یکطرفہ طور پر ثالثی کونسل میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے بحیرہ جنوبی چین کے حوالے سے متعلقہ فریقین کے مابین موجود معاہدوں کی نفی کی۔ اصل میں اقوام متحدہ کا سمندری قوانین کے حوالے سے کنونشن خودمختاری سے متعلق تنازعات اور علاقائی حدود کے معاملات میں ثالثی کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ فلپائن کی جانب سے یکطرفہ طور پر ثالثی کونسل میں مقدمہ دائر کرنا اقوام متحدہ کے ان قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی تھی۔

بین الاقوامی نظام تین عناصر پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اقدار، اصول اور ادارہ جاتی انتظامات شامل ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی اقدار ہمیں بتاتی ہیں کہ عالمی نظام امن وامان برقرار رکھنے میں کامیاب ہو رہا ہے یا نہیں، بحیرہ جنوبی چین پر امریکی موقف یہ ہے کہ بیجنگ خطے میں ہمارے بین الاقوامی آرڈر کو چیلنج کر رہا ہے جبکہ چین کا موقف یہ ہے کہ بیجنگ نہیں بلکہ واشنگٹن اپنی 60 فیصد سے زائد بحریہ کی پیسفک کے خطے میں تعیناتی سے بین الاقوامی آرڈر کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی نظام کی مختلف تعریفیں عالمی نظام کو درپیش چلینجز کے بارے میں مختلف نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔ تنازعات کے پر امن حل کے لئے ایسی اقدار کی ضرورت ہے جو کہ تمام طاقتوں کو مثبت رویہ اختیار کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کر سکے۔ بدقسمتی سے متعدد بین الاقوامی شعبوں میں اقدار متعارف نہیں کرائی گئیں۔ مثال کے طور پر چین اور امریکہ کے مابین سائبر کے میدان میں جاری جنگ کی بنیادی وجہ سائبر سیکیورٹی میں اقدار کا موجود نہ ہونا ہے۔ اقدار، اصولوں اور ادارہ جاتی انتظامات میں اختلافات کے باعث مختلف خطوں کے لئے علیحدہ سیکیورٹی پیٹرنز متعارف کروایا جانا ضروری ہے۔ مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے تنازعات کو ایک ہی طرح کے سیکیورٹی پیٹرن سے حل کرنے کی کوشش کرنا غیر حقیقی امر ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کے لئے یہ بہت مشکل اور ناممکن ہو گا کہ وہ ایشیا میں ایک دوسری نیٹو کو قائم کرے۔ اگرچہ ایشیا میں ایک کثیر الجہتی فوجی اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے تاہم یہ نیٹو کی طرح کام نہیں کر سکے گا۔

بحیرہ جنوبی چین کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ بحیرہ جنوبی چین اور شمالی کوریا کا جوہری پروگرام خطے میں تنازعات اور کشیدگی کو ہوا ضرور دے گا۔ تاہم مجموعی طور پر مشرقی ایشیا ایک پر امن خطہ ہے۔ چین اور امریکہ کے مابین براہ راست جنگ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ دونوں ممالک میں جنگوں کو روکنے اور تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر دونوں طاقتوں کے مابین شفاف میکنزم تشکیل دیا جائے تو موجودہ تنازعہ کسی بھی جنگ کو جنم نہیں دے گا۔

ثالثی کونسل کے فیصلہ کے بعد چین کی جانب سے اپنی خودمختاری اور میری ٹائم حقوق کے حوالے سے دو تفصیلی بیانات جاری کئے گئے جس میں چین نے ایک بار پھر سے اپنے موقف کو دوہراتے ہوئے ثالثی کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور بحیرہ جنوبی چین کے حوالے سے اپنے قانونی حقوق کو تفصیلی طور پر بیان کیا۔ چین نے نہ تو فیصلے کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی کسی بھی طریقہ سے کسی سماعت کا حصہ بنا تھا بلکہ بیجنگ نے بحیرہ جنوبی چین کے حوالے سے اپنے مؤقف کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی 40 سے زائد ممالک اور بین الاقوا می تنظیموں نے کھل کر حمایت کی ہے۔ تنا زعہ کا حل ثالثی کونسل سے نہیں بلکہ دونوں اطراف سے کئے جانے والے دعوؤں کی جانچ اور اس پر عمل در آ مد سے ممکن ہو گا۔ چین نے ابھی بھی فلپائن کی جا نب سے تنازعہ کے حل کے لئے مذاکرات کی خواہش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ حل نکالنا نا ممکن نہیں ہے تا ہم اگر منیلا ثالثی کونسل کے فیصلہ کو بنیاد بنانا چاہتا ہے تو اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی۔ ایسے فیصلے ردی کے ٹکرے کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ملحقہ پانیوں پر کوئی بھی پیشرفت متعلقہ فریقین کے مابین براہ راست مذاکرات سے ہی ممکن ہے بجائے اس کے کہ کونسل کے فیصلہ پر اکتفا کیا جائے۔ تنازعہ کا پر امن حل اسی صورت میں ممکن ہے کہ فلپائن بھی اس فیصلے سے دوری اختیار کرے۔

بحیرہ جنوبی چین کے حوالے سے ثالثی کونسل کا فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا اگرچہ یہ علاقہ ہمیشہ سے چین کا ناقابل تر دید حصہ رہا ہے ہے لیکن یہ فیصلہ پھر بھی چین کے لئے ایک چیلنج ہے۔ ثالثی کونسل کسی بھی طرح بین الاقوامی قوانین پر پورا نہیں اترتی کیونکہ اسے سیاسی معاملہ بنا دیا گیا ہے اور سیاسی معاملات قانون کے مطابق نہیں بلکہ ہمیشہ سیاسی طریقے سے ہی حل ہوتے ہیں۔ اس فیصلہ پر ایسی کوئی عالمی اتھارٹی نہیں ہے جو اس پر عمل در آمد کروا سکے اور امریکا بھی اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے اقوام متحدہ کے سمندری قوانین کے بارے موجود کنونشنز کی توثیق نہیں کی۔

یہ تنازعہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا بلکہ یہ جغرا فیائی سیاسی نشیب و فراز کا نتیجہ ہے۔ بین الاقوا می امور کے چند ماہرین کے مطابق یہ صورتحال امریکہ اور چین کے مابین تصادم کا با عث بنے گی۔ ایک طرف امریکہ جو کہ موجودہ عالمی طاقت ہے جبکہ دوسری چین ہے جو کہ ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ چین کسی بھی تصادم میں الجھے بغیر پر امن طریقے سے عالمی سطح پر مستقبل کی طاقت بننا چاہتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ عالمی طاقتیں چین کو دامن بچاتے ہوئے اس ماحول سے آگے نکلنے دیں۔ چین کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ پر امن طریقے سے بھی اپنی اڑان جاری رکھنے کے لئے آپ کو بہت سے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کسی کے ساتھ جنگ نہ بھی لڑنا چاہیں تو پ کو چھوٹی موٹی جھڑپوں میں ضرور الجھایا جائے گا۔

یہ ایک اہم وقت ہے اور چین کو موجودہ حالات کے بارے میں ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ امریکہ اور چین ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ اس لئے امریکہ اور چین کے دو طرفہ تعلقات میں باہمی تعاون اور تنازعات دونوں ہی نمایاں طور پر موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین مقابلہ سازی جغرا فیائی اور سیاسی تنازعات میں جھلکتی ہے جیسا کہ بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ مشرقی چین کے تنازعات ہیں۔ تاہم یہ ایسے تنازعات نہیں جن میں اتنی صلاحیت موجود ہو کہ یہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو منجمند کر سکیں۔ امریکا اور چین کے مابین پیچیدہ تعلقات کی وجہ دونوں کا مختلف طریقوں سے تعمیر و ترقی کے عمل کو جاری رکھنا ہے۔ دو نوں میں سے کوئی ایک بھی اس تنازعہ پر اپنے مؤقف سے دستبردار نہیں ہوگا۔ امریکا اس لیے تنازعہ پر اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ اس کا مطلب واشنگٹن کے عالمی اثرو رسوخ میں کمی ہوگا۔ جبکہ چین اس لئے اپنے مؤقف سے دستبردار نہیں ہوگا کیونکہ یہ اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا معاملہ ہے، اس معاملہ کا بہترین حل دونوں کے مابین مسلسل مذاکرات سے ہی ممکن ہوگا۔ دونوں ممالک بحیرہ جنوبی چین کے معاملہ پر بڑ ھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود جنگ نہیں کریں گے دونوں کے لئے ایسے تنازعات کا مطلب بھی مختلف ہے۔ یہ بات عالمی برادری کو ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ چین ایسے تنازعات سے ایک طاقت بن کر ابھرے گا جبکہ امریکہ ایسے تنازعات سے اپنا عالمی اثر ورسوخ کھو دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments