وزیراعظم نہایت شریف اور باغی چراغ الحق


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

یہ سنہ 2030 ہے۔ میاں نہایت شریف صاحب اس وقت بھی پاکستانی وزیراعظم ہیں کیونکہ خالص خوراکیں کھانے کی وجہ سے وہ اس وقت بھی بالکل فٹ ہیں اور تمام مقابل سیاسی جماعتیں بھی اب ڈیڑھ اینٹ والی ہی ہیں اور میاں نہایت شریف کو کوئی سنجیدہ سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے۔

جمعے کی شام ہے اور رات کے نو بجے ہیں۔ شہری اپنے گھر والوں کے ساتھ انجوائے کر رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں ہفتے اور اتوار کی چھٹی ہوتی ہے اس لیے ویک اینڈ شروع ہو چکا ہے۔ کچھ لوگ گھروں سے باہر گھوم پھر رہے ہیں، اور بیشتر اپنے اپنے ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہیں۔

اچانک خبر آتی ہے کہ کچھ فوجیوں نے فیض آباد چوک بند کر دیا ہے۔ مزید کچھ نے شہر کے ائیرپورٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ چند فوجی پی ٹی وی پر قبضہ کر چکے ہیں مگر تمام نجی چینل اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ بھی چل رہا ہے۔ فضا میں ایک ہیلی کاپٹر گھوم رہا ہے۔ چند ٹینک سڑکوں پر نظر آنے لگے ہیں۔ میاں نہایت شریف صاحب انٹرنیٹ پر ایک ٹی وی چینل پر آ کر اعلان کرتے ہیں کہ چند درجن افراد پر مشتمل فوجی دستوں نے ایک بہت بڑی فوجی بغاوت کر دی ہے اور چراغ الحق نامی ایک مبلغ اور اس کی جماعت اس بغاوت کی پشت پر ہے۔ عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کی جاتی ہے تاکہ بغاوت ناکام ہو جائے۔

\"mutiny2\"

عوام اپیل پر لبیک کہتے ہیں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں حکومت کی حمایت کا اعلان کر دیتی ہیں۔ اتنی دیر میں حکومت کی حامی پانچ لاکھ فوج بھی ان چند درجن باغیوں سے نمٹنے کے لیے آن پہنچتی ہے۔ باغیوں کا ہیلی کاپٹر جو کہ شہریوں پر فائرنگ کر رہا ہے، گرا دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر ایک کرنل صاحب اس بغاوت کی سربراہی کر رہے ہیں جو کہ غالباً کرنل قذافی سے متاثر تھے۔ تمام باغی پکڑے جاتے ہیں۔

ہفتے کی صبح وزیراعظم قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اصل میں یہ چراغ الحق کی اسلامی جماعت کے اشارے پر کی جانے والی بغاوت ہے، اس لیے وہ بریگیڈئیر اور اس لیول سے اوپر کے ایک سو فوجی افسران کو حراست میں لے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ چھے ہزار دیگر فوجی افسران اور سپاہی بھی حراست میں لے لیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے بیس میں سے دس جج اور ہائی کورٹوں کے سو کے قریب جج فارغ اور گرفتار کیے جا رہے ہیں۔ بیس ہزار اساتذہ کو نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔ کل ملا کر کوئی پچاس ہزار سرکاری ملازمین کو معطل یا گرفتار کیا جا رہا ہے۔ تمام نجی سکولوں کے اساتذہ سے بچوں کو پڑھانے کا لائسنس واپس لے لیا گیا ہے لیکن وہ اساتذہ دوبارہ اپلائی کر سکتے ہیں اور خوب چھان پھٹک کر ان کو دوبارہ لائسنس ایشو کیا جائے گا۔ میاں نہایت شریف صاحب بتاتے ہیں کہ ان سب اساتذہ، ججوں وغیرہ کا تعلق چراغ الحق صاحب سے ہے۔

گرفتار افراد پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ تمام سرکاری ملازمین، چراغ الحق صاحب کے اسلامی لیکچر سنتے ہیں۔ کچھ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ چراغ الحق صاحب کے جلسے میں جا کر ان کی تقریر سنتے ہوئے دیکھے گئے تھے، کچھ نے ان کی کوئی کتاب خریدی تھی، کچھ پر چراغ الحق صاحب کی انٹرنیٹ پر موجود تقریر سننے کا الزام ہے۔ اور بہت سے ایسے بھی تھے جو کہ دیوار پر لگا ہوا چراغ الحق صاحب کا پوسٹر پڑھنے کا سنگین جرم کرنے کے مجرم ٹھہرے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ خطرناک تو وہ تھے جو ان میں سے کچھ بھی نہیں کرتے تھے بلکہ پبلک میں چراغ الحق صاحب کے خلاف اس طرح بولتے تھے جیسے کہ پورے ملک میں ان سے بڑا چراغ الحق صاحب کا کوئی بھی مخالف ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے وہ میاں نہایت شریف کے خلاف بھی بات کر لیتے تھے۔

ملک میں ایمرجنسی لگ جاتی ہے۔ کسی بھی کاروبار پر حکومت قبضہ کرنے لگتی ہے کیونکہ اس کا کوئی تعلق چراغ الحق صاحب سے متاثر کسی فرد سے ہو سکتا ہے۔ عدالت میں جج موجود نہیں ہیں کیونکہ بیشتر معطل یا گرفتار کیے جا چکے ہیں، اور ملک میں ایمرجنسی کے باعث بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں، اس لیے حکومت کے اقدامات کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔

لاہور میں فنطورہ کی پوری آبادی گرفتار کر لی جاتی ہے جہاں کی مرکزی جامع مسجد میں چراغ الحق صاحب اکثر خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے۔ بیرونی دنیا شروع میں بغاوت کے خلاف میاں نہایت شریف کی جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کر رہی تھی مگر یہ گرفتاریاں اور معطلیاں دیکھ دیکھ کر اب شبہ ظاہر کرنے لگ گئی ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ سب مانتے ہیں کہ بغاوت ہوئی تھی، اور شہری جمہوریت کی خاطر لڑتے ہوئے مرے ہیں۔ مگر بغاوت پر قابو پانے کے بعد کے اقدامات نہایت ہی مشکوک ہیں اور میاں نہایت شریف کی نیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جانے لگتا ہے کہ یہ چند درجن بھر افراد کس برتے پر اتنی احمقانہ بغاوت کرنے نکلے تھے اور ایسی عمارتوں پر قبضہ کرنے گئے تھے جہاں کئی سو مسلح محافظ موجود تھے۔

چراغ الحق صاحب کہتے ہیں کہ ان کے فلسفے میں طاقت کے استعمال سے اقتدار حاصل کرنے کو شدید ناپسند کیا جاتا رہا ہے اور شروع دن سے ہی اس کے خلاف بات کرتے رہے ہیں۔ ویسے بھی 2018 کے انتخابات میں حسب معمول عبرتناک شکست کھانے کے بعد ان کی جماعت سیاست سے مستقل کنارہ کشی اختیار کر کے محض دعوت و تبلیغ تک محدود ہو چکی ہے اور اب صرف قوم کی فکری راہنمائی کرتی ہے تاکہ ایک اچھا مسلمان معاشرہ تشکیل پا جائے۔ اور اگر اس طرح سے آج ان پر بلا ثبوت الزام لگایا گیا تو پھر کل کوئی بھِی محفوظ نہیں رہے گا اور کسی مخالف جماعت یا فرد کو بھی ایسے ہی الزامات لگا کر اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔

\"Blind-Justice\"

مگر ظاہر ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی اور دنیا کے ہر سچے مسلمان کو چراغ الحق صاحب کی اس بغاوت کے خلاف میاں نہایت شریف صاحب کے ہر اقدام کی حمایت کرنی چاہیے اور قانون یا تحقیقات یا ثبوت وغیرہ کو انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ قانون تو اندھا ہوتا ہے ناں؟

یا ایسا نہیں ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments