ترکی کی فوجی بغاوت اور ہمارے معاشرتی رویے


\"Wajidاس رات جب سوشل میڈیا پر فوجی بغاوت کی خبر دیکھی تو دل سے ایک آہ نکل گئی۔ خبروں کو فالو کیا تو حالات واضح نہیں تھے۔ خود کو یہ بات ماننے پر تیار ہی نہیں کر پا رہا تھا کہ یہ بغاوت ناکام ہو جائے گی۔ بھلا ہو ترک عوام کا جو ٹینکوں کے آگے کھڑے ہو گئے۔ داد کے مستحق ہیں وہ باغی فوجی جن کے ٹینک نہتے عوام پر نہیں چڑھے۔ وہ F-16 طیارے جنہوں نے باوجود قدرت رکھنے کے اپنے ہی شہریوں کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی نہیں کیا۔ ان کے گھروں کو بموں سے نہیں اڑایا۔ سلام ہو ان اپوزیشن رہنماؤں پر جنہوں نے خاص اس وقت تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر توپ و تفنگ کا مقابلہ کیا۔ اس وقت ان کو یہ فکر دامن گیر نہیں ہوئی کہ اردوان صاحب اور ان کے بیٹے کی کرپشن ملک کو لے ڈوبے گی۔ ان کی مطلق العنانیت مزید بڑھ جائے گی۔ ترکی کی سیکولر شناخت کو نقصان پہنچے گا۔ ان کو صرف اس بات کا احساس اور ادراک تھا کہ اگر سسٹم رہے گا تو اسی میں سب کی خیر و بھلائی اور بچاؤ ہے۔ اردوان لاکھ برا صحیح لیکن جب جمہور نے اسے منتخب کیا ہے تو صرف جمہور اور جمہوری اداروں کو ہی اس کو ہٹانے کا اختیار حاصل ہے۔ اور ان دکانداروں کو بھی سلام جنہوں نے بغاوت کا جشن منانے کے لئے کسی کو مٹھائی فروخت نہیں کی۔ حالانکہ اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو اس دن اچھا خاصا کما لیتے۔

ایک برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے ترکی اور ترک عوام سے پاکستانیوں کی ایک خاص قسم کی عقیدت اور لگاؤ ہے۔ اور میرے خیال میں بغاوت کی ناکامی کی خوشی جتنی پاکستانیوں کو ہوئی ہے اتنی شاید ترکوں کو بھی نہ ہو۔ تاہم ہر پاکستانی اس کو اپنی اپنی نقطہ نظر کے مطابق اس خوشی کو منا رہا تھا۔ یہ ناکام بغاوت ہمارے معاشرے کے مختلف رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔

سب سے پہلے تو پاکستان کے وہ لوگ تھے جن کو جمہوریت کا چمپئین مانا جاتا ہے۔ ان کے مطابق صرف ایک ہی اصول کار فرما ہے اور وہ یہ کہ صرف جمہور کو ہی اختیار ہے کہ وہ کس کو منتخب کرتے ہیں اور کس کو نہیں۔ جمہور اگر بظاہر کسی کے حق میں غلط فیصلہ بھی دے دیتی ہے تب بھی اس کو مانا جائے گا۔ ان کے فیصلے کا احترام کیا جائے گا۔ جمہور کو ہی اختیار ہے کہ وہ کسی کو تخت سے ہٹائے۔ ترکی کے کیس میں ظاہر ہے یہی لوگ جمہور اور جمہوریت ہی کے حق میں تھے۔ لیکن ان پہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہی لوگ اردوان کے زیادہ حامی نہیں۔ الزام بجا ہے، لیکن ان جمہوریت کے پروانوں کا خیال تھا کہ بغاوت کی ناکامی کی صورت میں اردوان صاحب خود کسی جنرل کی وردی پہن لیں گے اور ایک مطلق العنان حکمران کی طرح امور سلطنت چلائیں گے۔ آج اردوان صاحب سب کے سامنے ہے۔

اس نقطہ نظر کے لوگ گو کہ پاکستان میں بہت کم ہیں لیکن جتنے بھی ہیں ہمارہ سرمایا ہیں۔ ان لوگوں کو مطلق العنانیت سے چڑ ہے۔ اور انسانیت، انسان دوستی اور انسانی حقوق پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات صرف ایک ہی اصول پہ کاربند ہیں، جو کہ نسل، قوم اور جغرافیہ کی قید سے آزاد ہے۔ وہ ہے انسانیت کی برابری اور ان کا اپنے آپ پر حکومت کرنے کا حق۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو جمہوریت سے بلا کی چڑ ہے۔ ان کے مطابق سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ سب کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ایک طرح کی نہیں ہوتی۔ صرف اصحاب الرائے حضرات ہی امور سلطنت میں رائے دے سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ جمہوریت ایک کفریہ نظام ہے۔ اس نظام کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اس قسم کے لوگوں نے پاکستان میں ہمیشہ خاکی وردی والوں کو بار بار دعوت دی ہے۔ یہی لوگ جرنیلوں کے دست راست بنے پھرتے ہیں کیونکہ جمہور کی رائے سے وہ کبھی بھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکتے۔ تاہم مجھے حیرانگی تب ہوئی جب انہی لوگوں نے بھی ناکام بغاوت پر ترک عوام کو مبارک باد دی۔ میرے لئے کنفیوژن اس بات میں پیدا ہو گئی ہے کہ اصل اصول ہے کیا؟ اگر تو جمہور سارے بے وقوف ہیں اور جمہوریت کفریہ نظام ہے تو ترک عوام کیسے اور کیوں کر مبارکباد کے مستحق ہیں؟ اگر اصول اس کے برعکس ہے اور جمہور کی حکومت کو ہی قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہے، تو یہ اصول پاکستان کے لئے کیوں قابل قبول نہیں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ یا پھر انہی کی زبان میں، کیا یہ کھلی منافقت نہیں؟

تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو نہ تو جمہور کی حکومت کا کچھ اندازہ ہے اور نا ہی مطلق العنانیت کا۔ وہ تو صرف اردوان صاحب کے فین تھے اور ہیں۔ اردوان صاحب ان کے ہیرو ہیں۔ کیونکہ اس نے انٹرنیشنل اکنامکس فورم پہ اسرائیلی وزیراعظم کو کھری کھری سنائی تھی۔ کیونکہ برما میں مسلمانوں پہ ہونے والے مظالم پر ان کے آنکھوں سے آنسو ٹپکے تھے۔ کیونکہ وہ روس کا ایک طیارہ گرا کر اس کو کرارہ جواب دے چکے تھے۔ کیونکہ اس نے حسینہ واجد سے جماعت کے ممبران کو پھانسی دینے پر احتجاج کیا تھا۔ اور ہاں اعلیٰ حضرت امریکہ بہادر پر بھی کئی بار کھلم کھلا تنقید کر چکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سارے جہاں کے مسلمانوں کا غم اس کے جگر میں ہے اور وہ اس زمانے کے صلاح الدین ایوبی ہیں۔ اگر یہی لوگ ذرا آنکھیں کھول کے دیکھیں تو شاید ان کو کچھ اور نظر آجائے۔ لیکن شاید ان کی آنکھوں پہ پردے ہیں اور کچھ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ایک دوست کہ رہا تھا کہ صلاح الدین ایوبی ایک کرد تھا اور اردوان صاحب ایک کرد کش ہیں۔ انہی کے کچھ لوگ اس قسم کے پوسٹر بھی لگاتے ہیں کہ عالم اسلام کے دو ہیرو….اردوان اور جنرل راحیل۔ شاید میری طرح یہ لوگ بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ کہ جمہوریت اچھی ہے یا جمہوریت کشی۔

چوتھے قسم کے لوگ وہ ہیں جو پاک آرمی سے نالاں ہیں۔ بغض معاویہ میں ان کو ترک آرمی کی شکست پر بھی خوشی ہے۔ وہ صرف اس بات پر مسرور ہیں کہ کہیں پر تو عوام نے آرمی والوں کو بھی بھیچ سڑک پر مرغا بنا دیا۔ ان کے کپڑے اتروا دیے۔ اور ان کو خوب رگڑااورپھینٹیاں لگائی۔ ان کے نزدیک، نواب صاحب کے بقول رگڑنا رگڑنا ہوتا ہے چاہے ترکی کی فوج کا ہو یا کہی اور کی۔

اب سننے میں آیا ہے کہ سینٹ میں اعظم خان سواتی نے ترک عوام کے ساتھ یکجہتی اور جمہوریت کی فتح کے لیے ایک قرارداد جمع کرائی جو اتفاق رائے سے منظور کر دی گئی۔ معزز رکن پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ وہ ترک عوام کو یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان میں کن کن نے کس کس وجہ سے جمہوریت کی فتح اور بغاوت کی ناکامی پر خوشی منائی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments