شو کمار بٹالوی کو کاہے کی ٹھیس؟


\"nazishابھی میرے مرنے میں تین سال باقی تھے۔ بی بی سی والا مہندر لندن میں میرا انٹرویو لے رہا تھا۔ وہی پوچھ بیٹھا جو سبھی پوچھتے ہیں۔۔۔ یہی کہ میری کویتا کا جنم کہاں سے ہوا۔ اور میں نے کہا کویتا کسی حادثے سے جنم نہیں لیتی۔ اداسی سے بھی پیدا نہیں ہوتی۔ محبت کا کوئی فرق نہیں لگا مجھے۔ کسی بات کا دکھ نہیں۔ بہت محبت ملی مجھے۔

مہندر پھر پوچھ بیٹھا کوئی ٹھیس لگی ہو۔ کہہ دیا۔ کاہے کی ٹھیس؟

شو کمار بٹالوی کو کاہے کی ٹھیس؟

چاہتے ہوں گے مہندر دا کہ نام لے ڈالوں کسی کا۔ کہانی سنا دوں کسی اجڑی محبت کی۔ کسی وچھوڑے کی۔ کسی پری پیکر کی تصویر بنوانا چاہ رہے تھے مجھ سے اور میں نے کہا تصویر بنی ہی نہیں۔ محبت ہوئی۔ کسی کے بالوں سے، کسی کی انگلیوں سے، کسی کے ہونٹوں سے، کسی کے پاؤں سے۔۔۔
میں مر چکا ہوں۔ لیکن میرے یہ لفظ سنا ہے کہ لوگ آج بھی سنتے ہیں۔ انٹرویو کہیں محفوظ ہے۔ گیت تو خیر یوں بھی مرتے ہی نہیں۔

تو ہاں کہا کہ۔۔۔ کاہے کی ٹھیس؟

مرنے کے بعد بھی یہ تین لفظ یاد آتے ہیں تو ایسا قہقہہ چھوٹ جاتا ہے کہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ لوگ کہتے تھے شو کمار نے انٹرویو دیتے ہوئے پی رکھی تھی۔ خیر اتنے بھی نشے میں نہیں تھا ورنہ ایسا گھڑ کر جھوٹ بول ہی نہیں سکتا تھا۔
میں تخلیق کار پیدا ہوا تھا، تخلیق کار بھی وہ جس کے بدن میں ادراک زہر کی نیلی وریدوں کی صورت دوڑتا ہے۔ ماں کی چھاتی سے ہٹا ہی تھا کہ زندگی نے ڈس ڈس کر موت کی پناہ مانگنے پر مجبور کر دیا۔ اسی لئے تو بیس پچیس برس کی جوانی میں پکار اٹھا۔

قبراں اڈیکدیاں مینوں جیوں پتراں نوں ماواں۔۔

اور موت نے ماں بن کر اچھا کیا جلدی بلا لیا۔ شکر گڑھ کے جنے ہوئے بٹالوی کے لئے پینتیس سال کی زہر خورانی یوں بھی کافی تھی۔
مہندر دا کو ٹھیس کے بارے کیا بتاتا۔ سمجھا نہیں سکتا تھا کہ پیڑاں دا پراگا جو بھٹی والی سے بھنوانا تھا۔۔ آنسوؤں کا بھاڑا دے کر۔۔ اس میں مجھ اکیلے کی ہی پیڑ نہیں تھی۔ اس میں انسان کی پیڑ تھی۔۔ مجھ سے اگلوں کی بھی۔ میرے بعد آنے والوں کی بھی۔ اس میں سماج کی پیڑ بھی تھی جس کو طبقاتی تقسیم کے خنجر نے لہو لہان کر رکھا تھا۔ اور پیار کی پیڑ بھی تھی۔ پیار جس کے بارے میں، میں کہتا تھا۔۔ پیار ایسی تتلی اے جیہڑی صدا سول تی بہوے۔۔ مہندر دا بات بھی تو پنجابی میں نہیں کر رہے تھے۔ شو کمار کو اس زبان کے سوا شاید پیار کی پیڑ سمجھانا بھی نہ آتا تھا۔ آج ملتے تو کہہ دیتا پاکستان کے نصرت فتح علی خان نے میری پیڑ اپنی زبان میں گائی ہے۔

مائے نی مائے والا گیت سن لے کہیں۔ تو شائد سمجھ جائیں ٹھیس لگی تھی یا نہیں۔

ایک پیڑ (درد) مینا تھی۔ مینا جو بچناتھ کے میلے میں مجھے ملی۔ اور پھر خود سے بھی جدا ہوگئی۔ موذی تاپ نے اسے ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا کر دیا اور میرے اندر بھانبڑ بلتے رہے۔ پھر میرے آس پاس عورتوں کا ہجوم رہا۔ ایک جھلک دیکھنے کے لئے۔ ایک آٹو گراف لینے کے لئے۔ ریڈیو پر مجھے سن کر رونے والیاں بھی تھیں۔ کمی نہیں تھی۔ لیکن بخار جوان بدن کو کیسے چاٹ جاتا ہے۔۔ مہندر جی۔ ٹھیس کاہے کی۔۔لیکن اس خیال کی پیڑ میرے تن سے کبھی جدا نہیں ہوئی۔ اور سیما بھی۔ جسے اس کے باپ نے مجھ سے جدا کرنے کے لئے پر دیسن بنا دیا۔ سیما کی تصویر اخبار میں دیکھتا تھا اس کی بیٹی کے ساتھ، اور یہی لگتا سیما کی بیٹی مجھ سے ہی جنی ہے کیونکہ وہ مجھ سے جدا تھی ہی کب۔۔ سیما کی ہر پیڑ بھی میری پیڑ تھی۔ اسی کی یاد میں لکھ بیٹھا تھا۔۔

مائے نی مائے میں اک شکرا یار بنایا

اساں دل دا ماس کھوایا

اک اڈاری ایسی ماری اوہ مڑ وطنیں نئیں آیا

اب البتہ کوئی ٹھیس نہیں ہے۔ مہندرا جی۔ بس آج اپنے جنم دن تئیس جولائی کو آپ سے وہ ملاقات یاد آ گئی۔ اپنے جیتے جی میں نے کہا تھا

جو بن رتے جو بھی مردا،

پھل بنے یا تارا

جوبن رتے عاشق مردے

جا کوئی کرماں والا

میں کرموں والا تھا۔ جوبن رت مر گیا۔۔ جیسے یہاں جوبن رت میں مرنے والے میرے اور بھی سگے ہیں۔ جو مجھے میرے ماں جائے ہی لگتے ہیں۔ ہنستا مسکراتا کیٹس ہے۔۔ جس کی وریدیں بھری جوانی میں ٹی بی نے نیلی کر دی تھیں۔ اپنے ہاتھوں ہر پل ڈستی زندگی کا گلا گھونٹنے والی میری بہن سلویا پلاتھ بھی ہے۔ اب یہاں کسی پھول جیسی ہی مہکتی پھرتی ہے۔ اور بہت رسیلا شیلے، دمکتا رہتا ہے۔

سارے عاشق، سارے کرموں والے، سارے پھول، سارے ستارے، مہندر جی ان سے ان کے جیون میں کوئی پوچھتا تو ہنس کر یہ بھی یہی کہتے تھے۔۔۔ کاہے کی ٹھیس! اب یاد کرتے ہیں تو ہنستے ہنستے رو دیتے ہیں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments