پی ٹی آئی کو شکست – آخر کیوں؟
پاکستانی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد پی ٹی آئی سے وابستہ ہے اور ان کے مخلص ہونے میں ذرہ برابر شک نہیں ہے یہ لوگ ملک کو بہتر بنانے کا جذبہ لیے اس جماعت میں شامل ہوئے ہیں ان کے جذبات کی قدر کرنا فرض ہے مگر کیا ساری چیزیں فقط جذبات سے حاصل کی جا سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں بہت کم چیزیں ہی فقط جذبات سے حاصل کی جا سکتی ہیں اگر درست حکمت عملی اختیار نہ کی جائے تو اکثر جذبات کا خون ہوتا ہے ۔
ایک شخص جذبات تو ڈاکٹر بننے کے رکھے اور ہر وقت مخلص ہو کر کرکٹ کھیلتا رہے کہ میں اچھا ڈاکٹر بن جاؤں گا تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا بلکہ لوگ اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیں گے اور کچھ عرصہ بعد جب زندگی کے حقائق کھلیں گے تو وہ خود پر ہنسے گا۔ پی ٹی آئی کی یہی صورت حال ہے ان لوگون کا میدان سیاست ہے مگر حکمت عملی ایک کامیاب کنسرٹ کرانے والی ہے جس میں لوگ آتے ہیں لطف اندوز ہوتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی اگر تبدیلی چاہتی ہے اور اس نظام میں داخل ہو کر اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی بنانا پڑے گی امریکہ، برطانیہ اور ترکی میں اختیار کی گئی کامیاب ترین حکمت عملی بھی یہاں ناکامی کا لائسنس ہے یہاں پاکستانی حکمت عملی کی ضرورت ہے پچھلے قومی انتخابات میں مسلم لیگ سے ایک غلطی ہوئی کہ انہوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال نہ کیا اب وہ اپنی اس خامی کو دور کر چکے ہیں آپ بھی اپنی خامیوں کی نشاندہی کریں اور انہیں دور کریں۔
میں ایک دو مثالیں عرض کروں گا۔ راوالپنڈی میں میٹرو بس پر کام کا آغاز ہوا جس کے ساتھ ہی عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ کیوں بن رہی ہے۔ شیخ رشید صاحب کو اپنی سیاسی شکست نظر آ رہی تھی اس لیے انہوں اس کی شدید مخالفت شروع کر دی۔ اب اس کا نقصان کیا ہوا ؟یقین جانئے آپ کے پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد جن کا تعلق پنڈی سے تھا وہ آپ کے خلاف ہو گئی کہ ہمارے شہر میں ایک منصوبہ بن رہا ہے اور آپ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ آپ اس میں شفافیت کو چیلنج کرتے اس کے اخراجات کو کم کرانے کی کوشش کرتے اس سے لوگ آپ کا ساتھ دیتے مگر جب آپ نے سرے سے منصوبے کی مخالفت کر دی اور وہ منصوبہ انتہائی کامیاب اور عوام کے لیے ایک نعمت ثابت ہوا تو آپ نے بلدیاتی الیکشن میں اس کا نتیجہ دیکھ لیا کہ آپ کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔
آپ کا یہی رویہ لاہور اورنج لائن اور فیصل آباد کراچی موٹر وے کے لیے بھی ہے۔ اس سے آپ کو شدید نقصان ہوگا کیونکہ یہ عوامی نوعیت کے منصوبے ہیں جن کے تقدم تاخ ر پر تو بات ہو سکتی ہے مگر اس پر کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ یہ منصوبے نہیں ہونے چاہیں۔
آپ نے خیبر پختوںخواہ میں نوجوانوں کے لیے کوئی ایسا منصوبہ پیش نہیں کیا کہ جس سے پنجاب کا نوجوان حسرت سے خیبر پختوںخواہ کے نوجوانوں کی طرف دیکھ رہا ہو مگر پنجاب میں ایسے کئی منصوبے شروع کیے گئے جس سے خیبر پختوںخواہ کے کا نوجوان پنجاب کے نوجوانوں کی طرف دیکھتا ہے۔
آپ کی ناکامی کی ایک وجہ مسلسل ملک و معاشرے کو اضطراب میں مبتلا رکھنا ہے۔ لوگ اب اذیت کا شکار ہو گئے جس سے ان میں آپ کے طریقہ کار کے خلاف جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ لوگ ہر دو ماہ بعد کسی بھی جماعت کے لیے سڑکوں پر نہیں نکل سکتے۔ دوسرا پاکستانی سوسائٹی ایک حد سے زیادہ تنقید کو بھی برا خیال کرتی ہے۔ آپ کی حد سے بڑھی ہوئی تنقیدی یلغار نے عام آدمی پر منفی اثر ڈالا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام میں کامیاب ہونا ہے تو کچھ ایسا کر کے دکھانا پڑے گا جس سے لوگ کہیں کہ ہاں یہ کام خان صاحب نے کیا ہے۔ آپ اسے برا سمجھیں، آپ نظریاتی طور پر اس کے خلاف ہوں کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر عوام یہی چاہتے ہیں۔ ہر شہر والے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں کوئی بڑا پروجیکٹ لگے جو منفرد ہو۔ اس پر ضرور غور کریں جب 2018ء کے الیکشن میں لاہور میں میٹرو ٹرین کو دکھایا جا رہا ہو گا تو پشاور کا شہری آپ کو کوس رہا ہو گا کہ ہم نے پانچ سال ضائع کر دیے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا کوئی ملتان آئے گا تو واپس جا کر پورے گاؤں کو آپ کے خلاف کر دے گا۔ یہ زمینی حقیقت ہے اسے قبول کر کے دو سال میں کچھ ایسا کریں کہ لوگوں کو محسوس ہو کہ آپ نے کچھ کیا ہے۔ تھانے اور پٹواری والے بات اب پرانی ہو گئی ہے اور اس میں بھی کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی جس کے خلاف آپ بنوں کے عوام کے جذبات سن چکے ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے کی حالت بھی مثالی نہیں۔ روالپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں آدھے مریض خیبر پختونخوا کے سے آتے ہیں ۔
نواز شریف کو شہباز شریف نے وزیراعظم بنایا ہے۔ اس نے پنجاب میں اتنا کام کیا کہ پنجاب کے عوام نے مرکزی اور صوبائی دونوں سطحوں میں ان کو بھرپور کامیابی دلا دی۔ آپ خیبر پختونخوا کو رول ماڈل بنا دیں تا کہ لوگ وہاں جائیں تو انہیں یہ احساس ہو کہ واقعی تبدیلی آ گئی ہے اور پی ٹی آئی نے اتنا کام کیا ہے کہ ہم ان کو مرکز میں آزما سکتے ہیں۔ اگر آپ نے مجموعی طور پر کشمیر کے الیکشن سے کچھ نہ سیکھا تو یقین جائیے 2018ء کے انتخابات میں خیبر پختونخوا بھی آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔
- ”ہمیں کھسرا کہہ کر مسجد سے نکال دیتے ہیں“ - 17/12/2022
- اہل وطن، کم سن ماؤں کے مسائل سنو - 26/09/2022
- مدرسے میں گیتا دیکھی - 17/07/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).