الف کو میں کیا سمجھاؤں!


الف کچھ عرصے سے بے روزگار تھا، ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد اسے جو پیسے ملے تھے وہ بھی ختم ہونے والے تھے، اِس مہنگائی میں بغیر تنخواہ کے دو دن نکالنے مشکل ہیں اب تو کئی ماہ ہو چلے تھے، اسی پریشانی کے عالم میں ایک روز وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اس کے لیے کسی نوکری کا بندو بست کروں، میں نے مشورہ دیا کہ تم مشاورت شغلی کا کام کیوں نہیں شروع کر دیتے، اِس پر الف نے غصے سے کہا ”صاحب میں غریب ضرور ہوں مگر بے غیرت نہیں“۔

اُس کی بات سن کر میں ہنس پڑا اور اسے بتایا کہ مشاورت شغلی دراصل کیرئیر کاؤنسلنگ کا ترجمہ ہے اور یہ وہ کام ہے جس میں پیسے بھی ہیں اور نیک نامی بھی۔ میری بات سن کر الف الجھن میں پڑ گیا، کہنے لگا کہ مجھے اِس کام کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اِس سے متعلقہ کوئی ڈگری اور پھر میرا تو اپنا کیرئیر خطرے میں ہے، میں کسی کو کیا خاک مشورہ دوں گا! میں نے کہاکہ اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ تم اِس کام کے لیے بالکل موزوں آدمی ہواور پھراسے سمجھایا کہ دیکھو برخوردار یہ کیرئیر کاؤنسلنگ ہے، اِس میں ڈاکٹر کی طرح ایم بی بی ایس کی کوئی ڈگری نہیں چاہیے، بس اپنے نام کے ساتھ کیرئیر کاؤنسلر لکھنے سے ہی کام چل جاتا ہے، رہی بات تجربے کی تو میں ابھی کھڑے کھڑے تمہیں دو چار گُر سکھا دیتا ہوں پھر چل سو چل۔

تھوڑی دیر بحث کے بعد الف میری بات مان گیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ’محنت میں عظمت ہے اور ایمانداری بہترین وصف ہے‘ جیسی فرسودہ اور گھسی پٹی باتوں کا زمانہ نہیں رہا، اب لوگ نئی اور انوکھی باتیں سننا چاہتے ہیں، انہیں شارٹ کٹ چاہیے جس سے وہ راتوں رات امارت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچ سکیں، کتابی باتیں نوجوانوں کو اپیل نہیں کرتیں، انہیں یہ سننا اچھا لگتاہے کہ کالج سے ڈراپ آؤٹ ہونے کے باوجود لوگ ارب پتی بن جاتے ہیں لہذا امتحان میں فیل بھی ہو جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر آپ میں کوئی گُن ہے تو دنیا کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری کی آپ کو ضرورت نہیں، سیلیکون ویلی میں کمپنیاں ٹیلنٹ دیکھتی ہیں ڈگریاں نہیں، وہاں آپ کو ہاتھو ں ہاتھ لیا جائے گا، وغیرہ۔ الف نے میری یہ باتیں نہایت غور سے سنیں اور پلے سے باندھ لیں، میں نے اسے دو چار ٹپس اور بھی دیں، الف نے کہا کہ وہ فوراًیہ کام شروع کر دے گا اور پھر وہ مجھ سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔

چند دن پہلے الف سے میری دوبارہ ملاقات ہو ئی، اِس مرتبہ وہ بہت زیادہ برے حال میں تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، بال کھچڑی بنے ہوئے تھے، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ چکے تھے، کچھ دبلا اور کمزور بھی لگ رہاتھا، میں نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا، پہلے تو وہ مجھے پہچان ہی نہیں سکا، پھر جب اس کے دماغ نے کام کیا تو اسے یا د آیا، مجھے لگا جیسے وہ مجھ سے کچھ ناراض ہے، اس کی ناراضگی بھانپ کر میں اسے قریبی کیفے میں لے گیا اور سینڈ وچ اور کافی کا آرڈر دینے کے بعد پوچھا کہ مشاورت شغلی کا کام کیسا جا رہا ہے؟

الف نے مجھے گھور کر دیکھا اور پھر اپنی داستان ایسے شروع کی جیسے قصہ چہار درویش سنانے لگا ہو۔ ”صاحب، اُس روز آ پ سے ملاقات کرنے کے بعد جب میں گھر واپس آیا تو شیشے میں اپنی شکل دیکھی، ایک سفید بال بھنوؤں میں نظر آیا کہ مانند تار مقیش کے چمک رہا تھا، یہ دیکھ کر میں بھاں بھاں کرکے رونے لگا، اس سے پہلے کہ سب محلے والے اکٹھے ہو جاتے میں نے موچنے سے بال نکالا اور دل میں سوچا کہ اے الف تیری عمر اب ڈھلنے کو ہے، اب بھی اگر تو نے اپنا کیرئیر نہ بنایا تو تُف ہے تیری زندگی پر۔ پس یہی سوچ کر میں نے کمر کس کر باندھی اور دل میں طے کر لیا کہ کیرئیر کاؤنسلنگ میں ایسا نام پیدا کروں گا کہ لوگ مدتوں یاد رکھیں گے، ابھی میں یہ منصوبہ بنا ہی رہا تھا کہ میری کمر میں شدید درد شروع ہو گیا ہو، ہاتھ پھیرا تو پتا چلا کہ کمر کچھ زیادہ ہی کس کے باندھ لی تھی۔

اگلے روز میں نے کیرئیر کاؤنسلنگ کا دفتر کرائے پر لیا او ر کام شروع کر دیا، شروع شروع میں کوئی بھی نہیں آتا تھا لیکن پھر آپ کے مشورے کے مطابق میں نے کچھ نوجوانوں کو شارٹ کٹ والے مفت مشور ے دیے جو انہیں بہت پسند آئے، انہوں نے خوش ہو کر سوشل میڈیا پر میرے چرچے کر دیے جس سے میرا کام چل نکلا، میرے دفتر میں نوجوانوں کا رش لگ گیا، ہر کوئی مجھ سے ملنے کا متمنی ہوتا۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر پھر شیطان نے میرے دل میں لالچ ڈال دی، میں نے سوچا کہ اگر میں اپنے مشوروں میں مزید جدت پیدا کر لوں تو ملک سے باہر بھی میرا نام بن جائے گا، یہی سوچ کر میں نے ایک کریش پروگرام ترتیب دیا جس میں کیرئیربنانے کے کچھ ایسے طریقے متعارف کروائے جنہیں اپنا نے کی صورت میں ناکامی کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا، مثلاً میں نے لوگوں کو بتایا کہ اُن کا رول ماڈل ایک ایسا کھرب پتی شخص ہونا چاہیے جو زمینوں پر قبضے کرتا ہو، سرکاری اداروں کو رشوت کے زور پر چلاتا ہو، میڈیا کو اشتہارات دے کر خریدتا ہواورٹیکس چوری کرتا ہو، مگر ساتھ ہی لوگوں میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے غریبوں کے لیے مفت کھانے کے مراکز بھی کھولتا ہو، بڑی بڑی مساجد تعمیر کرواتا ہو اور اپنی پرہیز گاری کی دلیل یہ دیتا ہو کہ میں اپنی کمائی سے غریبوں کو کھانا کھلاتا ہوں سو اِن غریبوں کی دعاؤں سے میں ترقی کرتا ہوں، ایسے شخص کا کمال یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زمینوں پر اُس کا قبضہ نظر نہیں آتا مگر غریب کے کھانے کے لیے کھولے گئے مرکز شہر میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں، سو یہ ہے ہمارا آج کا رول ماڈل۔

دوسرا مشورہ میں نے یہ دیا کہ اگر کسی وجہ سے آپ دولت کمانے میں کامیاب نہ ہو سکیں تو کوئی بات نہیں، کسی نیک سیاست دان کی منت سماجت کرکے پولیس میں بھرتی ہو جائیں اور اس کے بعد اپنا رول ماڈل ایسے پولیس افسر کو بنا لیں جو جعلی پولیس مقابلوں کا ماہر ہو، اگر آپ اس کے نقش قدم پر چلیں گے تو اس ملک میں کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا، پورے رعب داب سے نوکری کریں گے، عزت سے ریٹائر ہوں گے، اربوں کی جائیداد ہوگی، دریائے سندھ چین ہی چین لکھے گا۔ یہاں تک تو شاید سب ٹھیک تھا مگر پھر ایک دن میں نے کسی کیرئیر کاؤنسلنگ سیشن میں ایسا مشورہ دے دیا جو کچھ زیادہ ہی انقلابی تھا۔

میں نے کہا کہ وہ نوجوان جو دولت بھی نہیں کما سکتے اور کسی کی سفارش انہیں پولیس میں بھی بھرتی نہیں کروا سکتی تو ان کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کے پبلک ریلیشننگ افسر یعنی ترجمان بن جائیں، اِس میں سہولت یہ ہے کہ کسی قسم کی سفارش یا ڈگری کی ضرورت نہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کام بھی کوئی نہیں، بس جب بھی کوئی بم دھماکہ ہو تو ایک بیان جاری کرکے اس کی ذمہ داری قبول کرنی پڑتی ہے، یہ ایسی جاب ہے جس میں کیرئیر ہر طرح سے محفوظ ہے، تنظیم ختم بھی ہو جائے تو ترجمان کو آبرو مندانہ طریقے سے ہی رکھا جاتا ہے بلکہ بعض صورتو ں میں تو اسے post retirement benefits بھی دیے جاتے ہیں۔

اگلے روز میرے دفتر پر چھاپہ پڑا، مجھ پر ایف آئی آردرج ہو گئی اور کئی ہفتوں تک جیل کی ہوا کھانی پڑی، کل ہی ضمانت پر رہا ہوا ہوں اور آج آپ مل گئے، اب خود ہی بتائیں میں نے کون سی غلط بات کی؟“

پوری روداد سننے کے بعد میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری او ر دل میں کہاکہ الف کو میں اب کیا سمجھاؤں کہ اُس نے کیا غلط کہا اور کیا درست!
”ہم سب“ کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments