اختر شیرانی کی سلمیٰ اور دیدار سنگھ پردیسی 


اختر شیرانی کی شاعری میں سلمیٰ کا ذکر اہل ادب کے لیئے یقیناً دلچسپی کا باعث رہاہے سلمی ٰ کون تھی جس کے حسن کی تعریف میں اختر شیرانی نے اس قدر خوبصورت  شاعری تخلیق کی کہ اسے ہندوستان کا کیٹس کہا جانے لگا کبھی تو سلمیٰ کے خرام رائیگاں کو کہکشاں سے تشبیہ دی گئی اور کبھی اسے بہار میں کھلنے والے وہ غنچہ قرار دیا گیا جس کی شادابی پہ ابھی باد صرصر کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا

خدائی کہکشاں کہتی ہے جس کو

وہ سلمیٰ کا خرام رایئگاں ہے

بہار حسن کا تو غنچہ شاداب ہے سلمیٰ

ترا  جسم اک سراسر ریشم و کمخواب ہے سلمیٰ

تجھے قدرت نے اپنے دست رنگیں سے سنوارا ہے

شبستان جوانی کا تو اک زندہ ستارا ہے

سلمیٰ کے بارے میں نہ تو کبھی موصوف نے خود زبان کھولی ا ورنہ ہی اس کے کسی دوست یاملنے والے نے اس سے پوچھا کہ وہ جس کے وجود سے تم اپنی شاعری میں رنگ بھرتے ہووہ ہستی زمین کے کون سے خطے میں آباد ہے ،اور اس سے پوچھتا بھی کون اور بتاتا بھی کیا بقول ممتاز مفتی وہ تو ہر وقت سرور و مستی میں ڈوبا رہنے والا شخص تھا۔ اس کا حلقہ احباب چند افراد پہ مشتمل تھا لیکن ممتاز مفتی کی اس بات سے اتفاق کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اختر شیرانی کی شاعری اور اس کی شخصیت پہ لکھنے والے یقیناًموجود ہیں کچھ لوگوں کی ا س کے ساتھ مدتوں رفاقت بھی رہی ہے اور انہوں نے سلمی کی شخصیت کو اپنے اپنے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک گمنام لکھاری نے شعر و سخن کے عنواں سے لکھاہے کہ اختر شیرانی ایک انتہائی پریشان حال انسان تھا اس کا ایک نوجواں بیٹا عین عالم شباب میں انتقال کر گیا تھا۔اس کے ایک عزیز دوست مرزا شجاع نے خود کشی کر لی تھی ،اس کا داماد نذر الدین ڈوب کر مر گیا اور وہ سلمیٰ نام کی جس لڑکی سے محبت کرتا تھا وہ اسے چھوْر کر چلی گئی۔ ان تمام  حالات نے اسے شراب کا عادی بنا دیا اور یہی شراب جوانی میں ہی اس کی موت کا باعث بنی۔ایک اور صاحب اس سے بھی آگے بڑھ گئے انہوں نے لکھا کہ سلمیٰ اختر  شیرانی کی بیوی تھی جواسے چھوڑ کر چلی گئی اور وہ اس کی یاد میں نظمیں لکھتا رہا جناب ایس اختر جعفری ایم اے نے اختر شیرانی کے مجموعہ کلام میں پہ طویل دیباچہ لکھا اور انتہائی منطقی انداز میں اختر شیرانی کی سلمی ٰ پہ روشنی ڈالی ، انہہوں نے لکھا کہ سلمیٰ کانام اختر کی شاعری میں اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ وہ ایک زندہ حقیقت  بن گئی ہے جس سے انحراف ممکن نہیں ہے۔ اختر شیرانی نے اس کے ساتھ ایسے واقعات ،حالات ، جذبات و احساسات پیش کئے ہیں جو عشق مجازی میں ناگزیر ہیں۔ان کے نزدیک سلمی ٰ کسی لڑکی کا نام نہیں تھا وہ محض ایک فرضی نام تھا جو عربی شاعری سے مستعار لیا گیا تھالیکن یہ اختر کا کمال ہے کہ اس نے ایک فرضی نام کو ایسے خوبصورت انداز سے انسانی پیکر میں ڈھالا ہے کہ وہ سچ مچ گوشت پوست کی ایک جیتی جاگتی نوجواں دوشیزہ بن گئی ہے۔ڈاکڑ اختر حسین بٹالوی نے بھی اختر شیرانی پہ ایک کتاب لکھی تھی بقول ان کے ان کی اختر کے ساتھ بیس سال تک رفاقت رہی ہے اور جتنا وہ اختر کو جانتے ہیں اتنا شاید ہی کوئی انہیں جانتا ہو۔ یار لوگوں نے ان کے ساتھ بہت سی حکایتیں اور روایتیں وابستہ کر رکھی ہیں جب کہ کئی لوگوں نے ایسی ایسی غلط بیانی سے کام لیاہے کہ حیرت ہوتی ہے اور بعض ستم ظریف تو یہ بھی کہ گئے ہیں کہ جب اختر سلمی سے ملنے جایا کرتا تھاتو وہ اس کے گھر کے باہر پہرہ دیاکرتے تھے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے بیس سال کی مدت میں اختر کے ہاتھ میں نہ تو کسی خاتون کا لہکتا ہوا آنچل دیکھا ہے اور نہ کسی دروازے پہ کسی کو ملنے کے لیئے دستک دیتے ہوئے دیکھا ہے وہ شراب کے رسیا تھے اور اسن کی ساری دوستیاں اور دشمنیاں شراب کے پیالے میں غرق ہو کر رہ گئی تھیں۔

سلمیٰ کے ساتھ اختر کی شاعری میں کچھ اور نام بھی آتے ہیں جن میں ، ریحانہ اور عذرا بہت مشہور ہیں تاہم اس نے جو مقام سلمیٰ کو دیاتھا اس کی بات ہی الگ تھی ۔ اختر شیرانی کے بارے میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں کہ ،، سلمیٰ نے بیسویں صدی کے شاعر کو عشق و حسن کا جو معیار دیا ہے اختر کا کوئی مقلد عشق کے اس مقام تک نہیں پہنچا۔ جسے شاعر رومان نے اپنے لئے  وضع کیا تھا اور نہ ہی کسی کی سلمیٰ کو دنیا میں محبوبی کا وہ رتبہ حاصل ہوتا ہے جو اختر شیرانی نے سلمیٰ کو دیا تھا۔اس نے سلمیٰ کو ایک ایسے پیکر میں پیش کیاہے جس پہ تمام انسانی صفات صادق آتی ہیں، وہ ایک ایسی باکمال عورت ہے جس کے اندر قدرت نے وہ ساری خوبیاں بھر دی تھیں جو دنیا کی عورت میں ایک ساتھ موجود نہیں ہو سکتیں ،وہ جذبات و احساس میں اپنی ثانی نہیں رکھتی تھی ،اس کا حسن بے مثال تھا ، ،گفتگو میں اس قدر باکمال کہ اس کے منہ سے پھول جھڑتے تھے الغرض کائنات کی ساری خوبیاں اور حسن اس کی ذات میں سمٹ آیا تھا۔ وہ روتی ہے تو ساری کائنات روتی ہے وہ ہنستی ہے تو فطرت مسکرا کر اپنے جلوے بکھیرتی ہے۔

وہ روتی ہے تو ساری کائنات آنسو بہاتی ہے

وہ ہنستی ہے تو فطرت بے خودی سے مسکراتی ہے ۔

وہ سوتی ہے تو ساتوں آسماں کو نیند آتی ہے

وہ اٹھتی ہے تو کل خوابیدہ دنیا کو اٹھاتی ہے

وہ گنگناتی ہوئی ندیوں اور ابر الودہ فضاؤں میں اپنے آپ کو تنہا اور ادھورا محسوس کرتا ہے ہاں اگر سلمی ٰ ساتھ ہو تو یہ نظارے ایک ایسے پیکر میں ڈھل جاتے ہیں جہاں فطرت اپنے سارے رنگ ان پہ نچھاور کر دیتی ہے،

جہاں شام و سحر نیلی گھٹائیں گھر کے آتی ہیں

افق کی گود میں نیلم کی پریاں مسکراتی ہیں

فضاؤں میں بہاریں ہی بہاریں لہلہاتی ہیں

جہاں فطرت مچلتی ہے لہکتے ابر پاروں میں

میری سلمیٰ مجھے لے چل انہیں رنگیں بہاروں میں

اختر شیرانی کی شاعری ایک ایسا سنگ میل ہے جہاں پرانے دور کے شعراء کے کلام کے سامنے ایک دیوار سی کھڑی ہوجاتی ہے اس زمانے میں جس قسم کی شاعری رواج پا رہی تھی وہ موجودہ دور کے مزاج پہ پوری نہیں اتر سکتی تھی۔ جرات ، ناسخ ،امانت ،انشاء خواجہ میر درد ، آتش ،مصحفی اور ذوق کی شاعری کو پڑھنے کے بعد قاری کے سامنے محبوب کا جو تصور ابھرتا ہے اختر شیرانی کی سلمیٰ اس کی ضد تھی۔ایک ایسا محبوب جو سفاک تھا ،بے درد تھا ، ایک سے زیادہ عشاق سے شناشائی رکھتا تھا ،محفل سے جس کو چاہتا اٹھا دیتااور جس کو ناپسند کرتا اس کے قتل کا حکم جاری کر دیتا اور عاشق بے چارہ کہ اپنے قتل پہ بھی خوشی سے پاگل ہوجاتا۔ ایک محبوب کا نقشہ مصحفی صا حب نے کچھ اس طرح سے کھینچا ہے

بھوئیں تنی ہیں ، خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

اور جب عاشق کے قتل کا حکم صادر ہوتا ہے تو فرماتے ہیں

رقص کرتا گنگناتا بھاگتا جاتا ہوں میں

وہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اور عاشق کی قبر کو بھی نیست و نابود کرنے سے باز نہیں آتا

ابھی سے قبر پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں

پھر اس قدر بھی ہمارا نشان رہے رہے نہ رہے

اے مصحفی تربت کا میری نام نہ لینا

گر پوچھے تو کہنا کہ ہے درگاہ کسی کی

حکیم مومن خان مومن اور مرزا غالب اردو کے ممتاز شعراء میں شمار ہوتے ہیں ان کی شاعری کے قدردان ہر دور میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے لیکن انہوں نے بھی کہیں کہیں اپنے ہم عصروں کی روش پہ چلتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم بھی تو اسی دور کے مسافر ہیں کیوں نہ چلتے چلتے ہم بھی اپنے سننے والوں سے داد وصول کر لیں

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

وہ آئے ہیں پشیماں لاش پہ اب

تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے

ایک طرف ظالم محبوب اور دوسری طرف دنیا جہاں سے بے نیا ز عاشق نامدار جو سارا دن محبوب کی گلی کے چکر لگاتا ہے ،اس کی محفل میں بیٹھنے کے للئے دربان کی منتیں کرتا ہے ،رقیبوں کے شکوے کرتے ہوئے آہ زاری کرتا ہے اور بعض اوقات تو کسر نفسی میں اس قدر نیچے چلا جاتا ہے کہ اسے اپنی عزت نفس کا بھی خیال نہیں رہتا

جب تک کہ تیری گالیاں کھانے کے نہیں ہم

اٹھ کر تیرے دروازے سے جانے کے نہیں ہم

تیر ے کوچے میں اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا

کہاں اٹھارویں صدی کے یہ شاعر اور کہاں اختر شیرانی ،کہاں جور وجفا کے تذکرے اور کہاں کا ئنات کی نیرنگیوں میں لپٹی ہوئی حسن و عشق کی رنگین داستانیں ، کہاں خنجر بکف محبوبائیں اور کہاں اطلس و کمخوب کے پیرہن میں ایک شرمیلی اور جان نثار دوشیزہ ،کہاں فراق یار میں لاغر عاشق اور کہاں فطرت کی آغوش میں رنگ اور مستی میں جھومتا ہوا شاعر جو شاعر رومان بھی تھا ور شاعر القلاب بھی تھا۔ اختر شیرانی کی سلمیٰ کا ذکر کرنے کے بعد اگر ایک ایسی ہستی کا نام نہ لیا جائے جس کی خوبصورت آواز نے اس کی نطموں کو چار چاند لگا دئے تھے تو شاید بہت زیادتی ہو گی۔یہ دیدار سنگھ پردیسی تھا جس نے 1970میں اختر کی نظم

،،بہار بیتنے والی ہے تو آبھی جا سلمیٰ،،

گائی تو ہندوستان اور پاکستان کے سامعین نے اسے محمد رفیع کی آواز سمجھ کر آل انڈیا ریڈیو سے بار بار سننے کی فرمائش کی۔اناؤنسر کی بار بار وضاحت کے باوجود بھی لوگ اسے رفیع ہی سمجھتے رہے۔ دیدار سنگھ پردیسی کینیا میں رہائش پذیرتھا اور اسی حوالے سے اسے The Rafi of East Africa کاخطاب دیا گیا۔ راقم الحروف نے 1975 میں جب آل انڈیا ریڈیو کے اردو پروگرام میں پہلی مرتبہ اس کی آواز میں سلمیٰ سنی تو حیر ت زدہ ہو گیا اور اس کے تھوڑا عرصہ بعد جب میں نے اختر شیرانی کی دوسری نظم ،، سلمیٰ سے دل لگا کر،، اسی پروگرام میں سنی تو میں اس کی آواز کا دیوانہ ہوگیا۔دیدار سنگھ کی آواز مدتوں میرے ذہن کی غلام گردشوں میں دستک دیتی رہی۔ آل انڈیا ریڈیو شاید اس کے نغموں کے ریکارڈ کسی کونے کھدرے میں پھینک کر اسے بھول گیا تھا۔ 2008 میں جب youtube کی نئی نئی دھوم مچی تھی تو مجھے ایک دم بیٹھے بیٹھے دیدار سنگھ پردیسی کا خیال آیا میں نے ریسرچ کی تو میرے سامنے اس کی تصویر آگئی جس کے نیچے اختر شیرانی کی نظم کے بول ،، آ بھی جا سلمیٰ ،، لکھے تھے۔ میں نے اس نظم کو بار بار سنا دوستوں کو سننے کی دعوت دیاور 2015تک میرے دوستوں کا ایک ایسا حلقہ وجود میں آگیا جو جب بھی میرے دفتر آتے سلمی ٰ سننے کی فرمائش کرتے۔

میں نے اس دوران دیدار سنگھ کے اور بھی بہت سے نغمے تلاش کئے جن میں سے کچھ اردو اور بہت سے پیجابی میں تھے ان میں سب سے زیادہ منفرد ایک پیجابی گیت تھا ،، دل دے کے بے درداں نوں ،،جب کہ اس کے گیتوں  کا ایک اور البم بھی مل گیا جس میں علامہ اقبال کا کلام بھی شامل تھا ،  دو ماہ قبل فیس بک پہ اچانک میرے سامنے دیدار پردیسی کی تصویر آگئی جو مجھے دوستی کی طرف راغب کر رہی تھی میں نے اسے دعوت دی تو ا س نے اسی دن قبول کر لیاور ساتھ ہی اپنا ٹیلیفون بھی پیش کر دیا میں نے رات کو اسے فون کیا تو میرے کانوں میں ایک بارعب سی آواز سنائی دی جو دیدار سنگھ ہی تھا۔اس نے بتا یا کی اس کی عمر 82 سال ہو چکی ہے وہ زندگی کی آخری سٹیج پہ ہے لیکن وہ آج بھی سلمیٰ کو اسی اندا ز سے گا سکتا ہے سلمیٰ نے اسے موسیقی کی دنیا میں عروج تک پہنچایا اور اسے رفیع ثانی کا خطاب دیا گیا اور بھر ایک دن اسے محمد رفیع نے بمبئی میں بلایا ملاقات کی اور اپنا کوئی گانا ( رفیع کی آواز میں ) سنانے کی فرمائش کی اور جب اس نے فلم چودویں کے چاند کا گانا ،،چودویں کاچاند ہو یا آفتاب ہو،، گایا تو حاضریں پہ سکتہ طاری ہوگیااور خود رفیع صاحب بھی حیرت زدہ ہو گئے آج کل انگلستان میں ہوں زندگی کے دن پورے کر رہا ہوں کبھی کوئی کسی نجی محفل میں مدعو کر لیتا ہے تو خوشی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments