برہان وانی اور کشمیر ۔۔۔۔ ڈاکٹر نائلہ خان سے گفتگو


\"lubnaحال ہی میں‌ 22 سالہ کشمیری لڑکے برہان وانی کے قتل اور اس کے بعد مظاہروں اور پھر فیس بک کا ایکشن اور پھر لوگوں‌ کی طرف سے اس کا ری ایکشن دیکھنے میں‌ آیا۔ اس سے پہلے میں‌ نے کبھی اس لڑکے کا نام نہیں‌ سنا تھا اور اس کی جوان سال موت نے مجھے غمزدہ کیا۔ اپنے بچوں‌ کا خیال آ گیا۔ بہت سے دیگر نوجوان بھی اس کی فوٹو اپنی پروفائل فوٹو بنانے لگے جن کی وجہ سے یہ سننے میں آیا کہ یہ فیس بک اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دئیے گئے۔

ایک پوسٹ میں برہان وانی کی تصویر کے ساتھ یہ لکھا گیا تھا:۔

’اس شخص کو دیکھو۔ یہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ نہیں ہے۔ یہ کسی ملا سے متاثر پاکستانی فنڈڈ جنگجو نہیں ہے۔ یہ برہان وانی شہید ہے۔ ایک کشمیری جو کہ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں اس وقت شامل ہوا جب اس کے بھائی کو بھارتی فوج نے مار ڈالا۔ اگر کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل نہیں کیا جاتا تو پھر ہمیں اپنے ساتھ ہی ایک نیا فلسطین بنتا دکھائی دے رہا ہے‘۔

میں‌ نے پچھلے ہفتے ڈاکٹر نائلہ خان کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھ سے ویک اینڈ پر مل سکتی ہیں تاکہ میں‌ ان سے اس معاملے کے بارے میں‌ مزید معلومات حاصل کروں‌ تاکہ اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور یہ دیکھا جا سکے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں جس سے اس طرح‌ مزید اموات ہونے سے بچ سکیں اور حالات میں‌ بہتری آئے۔ انہوں‌ نے یونیورسٹی کی لائبریری میں ملنے کی حامی بھری جو ہم دونوں کے گھر کے بالکل بیچ میں‌ ہے اس لئیے ڈرائیونگ کا فاصلہ برابر ہے۔

ڈاکٹر نائلہ خان انگلش لٹریچر میں‌ پی ایچ ڈی ہیں، وہ شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں اور اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگریزی ادب کی پروفیسر ہیں۔ انہوں‌ نے کئی کتابیں‌ لکھی ہیں جن میں‌ \”لائف آف کشمیری وومن\” شامل ہے جو کہ ان کی نانی کی زندگی سے متعلق ہے۔ میں‌ نے اس کتاب کے چار چیپٹر بھی اردو میں‌ ترجمہ کئیے تاکہ جو لوگ انگلش نہیں‌ پڑھ سکتے ہیں ان تک اس کو پہنچایا جاسکے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے مجھے خود بھی کشمیر کی تاریخ کے بارے میں مزید آگہی ہوئی۔ ان باتوں‌ سے متعلق علم ہوا جو پاکستان اسٹڈیز میں‌ شامل نہیں تھیں۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں‌ کہ شیخ‌ محمد عبداللہ کشمیر کے پہلے مسلمان پرائم منسٹر تھے۔ اس کتاب میں‌ نائلہ خان نے ایک اچھا نکتہ اٹھایا وہ یہ کہ لکھی ہوئی تاریخ‌ میں باپوں کے اثر کا ذکر ہوتا ہے لیکن ماؤں‌ کی قربانیوں اور ان کی کہانیوں‌ کو اگلی نسل تک نہیں‌ پہنچایا جاتا۔

\"IMG_4910\"ہماری گفتگو کا کچھ احوال درج ذیل ہے۔

ل م: آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھ سے ملنے کے لئیے وقت نکالا۔ ہم لوگ خبریں‌ ہر روز دیکھتے ہیں، اور پڑھتے بھی ہیں۔ دنیا میں‌ ایک آگ لگی ہوئی ہے۔ ہر طرف جنگ وجدل اور نفرت پھیلی ہوئی ہے۔ میں ایک ماں‌ کی حیثیت سے یہ جاننے میں‌ دلچسپی رکھتی ہوں‌ کہ دنیا میں‌ کیا ہورہا ہے، اس کے اسباب کیا ہیں اور ہم اپنے بچوں‌ کو کیسے بچائیں؟ برائے مہربانی کشمیر کے حالیہ واقعات پر روشنی ڈالئیے۔

نائلہ خان: حالیہ واقعات نہایت افسوس ناک ہیں اور جو مائیں‌ اپنے بچے کھو چکی ہیں‌ ان کا نقصان پورا نہیں‌ کیا جا سکتا۔ ان بچوں‌ کی فوج اور نیم فوجی دستوں‌ کے ہاتھوں‌ پرتشدد ہلاکت سے ایک خلا پیدا ہوا ہے جو کبھی بھی بھرا نہیں جا سکے گا۔

کشمیر کا ہر گھر اور ہر فرد ایک دھمکی آمیز ماحول میں‌ زندگی گذار رہا ہے۔ حالیہ تشدد کے واقعات سے سماجی اور سیاسی تانے بانے کو جو دھچکا لگا ہے اس کو ہم سب کو مل کر بہتر بنانے میں‌ کافی عرصہ لگے گا۔ ایک ماں‌ کے نقطہء نظر سے میں‌ یہ کہہ سکتی ہوں‌ کہ بدقسمتی سے تشدد کو رومانویت کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔ وہ صرف جنوبی ایشیا میں‌ ہی نہیں‌ بلکہ امریکہ میں‌ بھی، چاہے وہ فوج ہو، نیم فوجی دستے، حکومت کے حامی یا پھر بغاوت۔ باغی ہونے کو بھی رومانوی رنگ دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی ایک فائدہ مند کاروبار بن چکی ہے جس سے نہ صرف ملٹری کو بلکہ ان جنگجو عناصر کو بھی مالی فائدہ ہو رہا ہے جو زینے چڑھنے میں‌ کامیاب ہوئے ہیں۔

ل م: مجھے برہان وانی کے بارے میں‌ بتائیے، وہ کون تھا اور کیسے یہاں‌ تک پہنچا تھا؟

نائلہ خان: مجھے ایسے تمام والدین سے دلی ہمدردی ہے جن کے بچے جنگ و جدل میں‌ مارے جاچکے ہیں۔ ایک ماں ہونے کے لحاظ سے ہم تو یہی چاہتے ہیں‌ کہ ہمارے بچے سلامت رہیں، وہ بڑے ہوں‌، ان کو اعلیٰ‌ تعلیم ملے، ان کی بنیادی سماجی ضروریات پوری ہوں اور وہ سوسائٹی کے مفید شہری بنیں۔ ہم چاہتے ہیں‌ کہ ہمارے بچے مضبوط انسان بنیں‌ اور کشمیر کی تعمیر نو میں حصہ لیں اور جمہوری اداروں‌ کو دوبارہ سے زندہ کریں۔

یاد کرو لبنیٰ جب ہم 21 سال کے تھے، ہم لوگ کالج میں‌ تھے اور ہم لوگ آنکھوں‌ سے اوجھل لوگ تھے، ہمیں‌ کوئی نہیں جانتا تھا، ہم بس کسی کی بیٹیاں‌ تھیں، ہماری اپنی کوئی شناخت نہیں‌ تھی، لوگ ہمیں‌ انفرادی سطح پر نہیں‌ جانتے تھے۔ وہ ایسا وقت تھا جس میں‌ ہم کاوش میں‌ تھے، اور دنیا میں‌ اپنی جگہ بنانے کے لئیے جدوجہد کررہے تھے۔ اس وقت میں‌ ہم خود کو بنانے اور بڑھانے میں‌ مصروف تھے اور اس وقت ہماری زندگی نہ تو گلیمرس تھی اور نہ ہی ہم لوگ مشہور تھے۔ اب اوکلاہوما میں‌ ہمیں‌ جو پبلسٹی مل رہی ہے یا توجہ مل رہی ہے اس کو پانے میں‌ کافی وقت لگا۔

ل م: جی ہاں ساری زندگی لگ گئی! اور اب بھی کون سی آسانی ہے؟ زندگی ہر قدم نئی جنگ ہوتی ہے۔

\"nylaنائلہ خان: ہاں‌ ہم نے محنت کی اور اب آکر ہمیں‌ اپنی فیلڈز میں‌ توجہ ملی تو یہ مقام حاصل کرنے میں‌ بہت ساری کوشش اور بہت سارا وقت لگتا ہے۔ پھر ایک مایوس کشمیری نوجوان کے بارے میں‌ سوچو کہ جس کے سامنے نہ کوئی جمہوری راستہ تھا اور نہ ہی انصاف کے اداروں‌ سے کچھ امید۔ جس کو اپنے علاقے میں‌ کچھ بہتری سامنے آتی نظر نہیں آئی۔ حکومت کی طرف سے اس کے سوالات کے جوابات دینے کی یا اس کے سدھار کی کوئی کوشش نہیں‌ کی گئی۔ اپنے بھائی کی موت کے صدمے کے بعد اس نے ہتھیار اٹھا لئیے تھے اور فرار کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد اس کو گلیمرائزڈ کردیا گیا۔ اس نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا جس کو رومانوی رنگ دے دیا گیا۔ ہم اس کی بے وقت موت اور اس کے خاندان کے نقصان کا افسوس بھی کرتے ہیں‌، اور اس کے بعد مزید جن لوگوں‌ کی اموات ہوئیں ان کی مذمت کرتے ہیں۔ میں‌ اس کمیونٹی کا درد محسوس کرسکتی ہوں کیونکہ وہ میری اپنی کمیونٹی ہے۔ لیکن میں اس بار پر زور دینا چاہتی ہوں‌ کہ جتنے بھی مایوس کن حالات کیوں‌ نہ ہوں، کتنی بھی ناامیدی کیوں‌ نہ ہو، ہمیں احتجاج کے دیگر طریقوں پر غور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی حقوق کو حاصل کرنے کے لئیے پرامن راستہ اختیار کرنا ہوگا جس کو انٹرنیشنل کمیونٹی کی سپورٹ حاصل ہو۔

ل م: ستیہ گرہ؟

نائلہ خان: ہاں‌ بالکل! ہمیں سیاسی حل ڈھونڈنا ہوگا۔ اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے احتجاج کے طریقوں‌ کو مذہبی عدم برداشت کا جامہ پہنا کر بدنام نہ کیا جا سکے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، وہ ایک مذہبی یا نسلی مسئلہ نہیں ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو صرف ایک مذہب یا ایک فرقے یا ایک نسل کے لوگوں پر ظلم اور زیادتی بتانا اس پیچیدہ سیاسی مسئلے کی نہایت سادہ تعریف ہوگی۔ ایسا کرنے بین الاقوامی برادری کا اعتماد حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔

\"burhan4\"آپ دنیا کے حالات دیکھ لیں، جہاں‌ بھی حکومتیں‌ ہٹائی گئیں‌ یا پرتشدد حالات پیدا کئے گئے ان ملکوں‌ میں‌ بدامنی اور جنگ پھیل گئی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ اسلام پر دہشت گردی کا دھبہ لگا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے وہ تمام دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔ اس لئیے اگر کشمیری اپنی جدوجہد اسلامی جدوجہد بنا کر پیش کریں‌ گے تو ان کو وہ بین الاقوامی سپورٹ حاصل نہیں‌ ہو سکے گی اور اس مسئلے کو جس طرح‌ توجہ ملنی چاہئیے وہ نہیں‌ مل پائے گی۔

یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی جدوجہد کو سیاسی جدوجہد کے طور پر پیش کریں، ایک انسانی جدوجہد کے طور پر پیش کریں‌ ناکہ مذہبی۔ کشمیر کے مسئلے میں‌ جس طرح‌ انسان پس رہے ہیں، انٹرنیشنل کمیونٹی کی نظر اس پر پڑے۔ دنیا کے تمام لوگ انسانیت کے دھاگے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی نکتے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ دیکھیں جو ملٹری یا پیرا ملٹری لوگوں کا جارحانہ رویہ ہوتا ہے اس کو دکھا کر ہم تبھی دنیا کی ہمدردی حاصل کرسکتے ہیں جب ہمارا اپنا لائحہ عمل سیاسی ہو نہ کہ تشدد آمیز۔ ہمیں‌ دنیا کو واضح الفاظ میں‌ بتانا ہوگا کہ ہمارا مقصد خلافت بنانا نہیں‌ بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہمارے جمہوری ادارے خودمختار اور طاقت ور ہوں۔

ل م: کافی لوگ جمہوریت کو سازش سمجھتے ہیں۔ میں‌ خود کتنی مختلف ریاستوں‌ میں‌ رہی ہوں۔ ہم جہاں بھی گئے وہیں ووٹر رجسٹریشن کرائی اور ہمیشہ الیکشن میں‌ ووٹ ڈالا۔ میں‌ نے اپنے بچوں‌ کو دکھایا کہ ووٹ کیسے ڈالتے ہیں۔ بیلیٹ پر ہماری ریاست کے بارے میں‌ اور اس کے بجٹ کے بارے میں سوال ہوتے ہیں۔ جتنا بھی ہو سکا میں‌ نے ان سوالوں‌ کو پڑھ کر اور سمجھ کر اسی طرح‌ ووٹ ڈالا جس سے ہمارا اپنا بھلا ہو۔ کوئی جمہوریت کو اپنائے یا ٹھکرائے اس سے کسی اور کو کوئی فرق نہیں‌ پڑتا، نقصان ہمارا اپنا ہو گا۔ آپ کے اوپر جو بھی آجائے گا، اپنی مرضی سے فیصلے کرے گا اور ان فیصلوں  میں‌ آپ کی رائے شامل نہیں‌ ہوگی۔ آپ برائے مہربانی اس نقطے پر مزید کچھ کہئیے۔

نائلہ خان: ہمیں یہ باتیں‌ بالکل سوچنی ہوں گی۔ یہ دیکھئیے کہ آج دنیا کے ہر کونے میں مسائل ہیں۔ دیکھئیے پیرس میں‌ کتنے لوگ مرے، پھر میونخ میں‌، حال ہی میں کابل میں‌ دھماکہ ہوگیا۔ اتنے خراب حالات میں‌ ساری دنیا اپنے اپنے مسائل نبٹانے میں‌ لگی ہوئی ہے۔ اس وقت بین الاقوامی برادری کے پاس نہ اتنا وقت ہے اور نہ ہی وسائل کہ وہ کشمیر یا کشمیریوں‌ کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی دکھائیں۔ کشمیر کی سب سے زیادہ اہمیت کشمیریوں‌ کے لئیے ہے۔ اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے لئیے ایسا سماج بنائیں جہاں‌ پر ہماری نئی نسل سانس لے سکے۔

ل م: جی یہ آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ دنیا میں‌ دیگر ممالک کے اپنے مسائل ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کو خود اپنے مسائل حل کرنے ہوں‌ گے تاکہ اس خطے کے مستقبل کو آنے والی نسلوں‌ کے لئیے بہتر بنایا جا سکے۔ پہلے سے کی ہوئی غلطیاں‌ دہرانے سے کیا فائدہ ہے؟

\"Srinagar:

نائلہ خان: انڈیا اور پاکستان میں‌ ایسے بہت سارے سیاستدان ہیں اور ملٹری آفیشلز بھی ہیں جن کے لئیے کشمیر کا تنازعہ جتنی دیر چلے اتنا ہی فائدہ مند ہے۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ کشمیر جلتا رہے تاکہ وہ اس کے مسئلے کو اپنی دکان چمکانے کے لئیے استعمال کریں۔ مثلا\” ابھی حال ہی میں‌ آزاد کشمیر میں‌ الیکشن ہوئے جہاں‌ پی پی پی نے کافی جذباتی تقریریں کیں اور کشمیر کے مسئلے کو لے کر لوگوں‌ کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ ان کا زیادہ کنٹریبیوشن رہا نہیں‌ ہے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں۔

ل م: لگتا ہے کہ کشمیر کے لوگ بھی تنگ آچکے ہیں یہی باتیں‌ سن سن کر اسی لئیے انہوں‌ نے پی پی پی کو ووٹ نہیں ڈالے۔

نائلہ خان: میں‌ اس بات پر بھی زور دینا چاہتی ہوں‌ کہ مسلمان خواتین کو اپنے حقوق کے لئیے کھڑے ہونے کا حق ہے، ان کو نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں‌ فیصلے کرنے کا حق ہے بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی میدان میں‌ آگے بڑھنے کا بھی جس سے وہ اپنے معاشرے کو ایک بہتر انسانی معاشرہ بنا سکیں۔ اس وقت ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ پچھلے 26 سال میں‌ کشمیر نے جن خراب حالات کا سامنا کیا ہے، ان کو بہتر بنانے کے لئیے خواتین سامنے آئیں‌ جو کشمیر کی دوبارہ سے تعمیر کر سکیں۔

ل م: جی ہاں‌ تعمیر میں‌ تو ساری زندگی لگ جاتی ہے۔ اور تباہی میں‌ صرف ایک لمحہ لگتا ہے۔ یہ بتائیں‌ کہ آج کے انڈین، پاکستانی اور کشمیری نوجوان ان حالات کو بہتر بنانے کے لئیے کیا کرسکتے ہیں؟

نائلہ خان: ہمیں‌ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے نوجوان مرد اور خواتین کی ضرورت ہے جو کشمیر کو ایک سیاسی مسئلے کے طور پر اور اس کے سیاسی حل کو بین الاقوامی برادری کے سامنے بیان کر سکیں۔ اس وقت ہماری یہ ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان ان حقائق کو سمجھیں اور زندہ رہیں۔ سلامت رہیں اور ہماری قوم کو زندہ رکھیں۔ ہمارے لئیے جمہوریت،  خود مختاری اور اپنے حقوق کی لڑائی اہم ہے لیکن وہ اب ہمارے بچوں‌ کی زندگیاں لے کر نہیں‌ لڑنی ہوگی بلکہ سیاسی میدان میں آگے بڑھنا ہوگا۔ قلم کی طاقت بندوق کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔

ل م: مجھے یہ بتائیں‌ کہ پیسے کہاں‌ سے آرہے ہیں؟  یہ جو بالکل ینگ لڑکے گھروں‌ سے بھاگ جاتے ہیں، ان کو کون یہ وردیاں‌ خرید کر دیتا ہے؟ بندوقیں کون دلاتا ہے؟ یہ لوگ کہاں سے یہ گاڑیاں لیتے ہیں؟ یہ جنگلوں‌ میں‌ کہاں‌ سے کھاتے ہیں؟ اور ان کے سیل فون کا بل کون دیتا ہے جس سے وہ فیس بک پر تصویریں‌ لگاتے ہیں؟

کیا وجوہات ہیں  کہ یہ بچے اس طرح اسکول سے بھاگ کر، معاشرے سے بھاگ کر ، ہتھیار اٹھا کر یہ سوچتے ہیں کہ وہ انڈیا یا پاکستان کو ہرا دیں گے؟

نائلہ خان: یہ دونوں پاکستانی اور انڈین عوامل ہیں جو ان کو فنڈ کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی ان لڑکوں‌ کی کہانیوں‌ کو لوگوں‌ کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئیے اور ان کے ووٹ لینے کے لئیے استعمال کرتی ہیں۔ برہان وانی کے بھائی کو مار دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس نے انتقام لینے کی قسم کھا لی تھی۔ کشمیر میں‌ سماجی بہبودی اداروں‌ کی کمی ہے، وہاں کاؤنسلر اور سائکالوجسٹ وغیرہ کافی نہیں‌ ہیں‌ اور نہ ہی ماؤں‌ کی بنائی ہوئی تنظیمیں‌ ہیں جو عوام کو ان صدمات سے صحت مندانہ انداز میں‌ نبٹنے میں‌ مدد دیں۔

ل م: انڈیا کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ خواہ مخواہ بچہ ماردے؟ خاص طور پر جبکہ نہ تو اس کے پاس کوئی ملٹری ٹریننگ تھی اور نہ ہی کبھی اس نے کسی کو مارا تھا۔ صرف انٹرنیٹ پر پاپولر تھا۔ علاقے میں نفرت اور شورش پھیلی۔ اس کے بعد بھی بہت لوگ سڑکوں‌ پر نکل آئے اور مزید لوگ مر گئے۔ زندگی قیمتی ہے۔ اس طرح‌ غیر ذمہ داری دکھانے سے ان کو کیا فائدہ ہو گیا؟

نائلہ خان: ہاں‌ دیکھو، ان کو ایسا نہیں‌ کرنا چاہئیے تھا۔ مسلح بغاوت کو موقع شناسی اور ہوشیاری کے بجائے مزید جارحانہ انداز سے ڈیل کرنا بہت غلط ہے۔ اس کا ردعمل نہایت منفی نکلتا ہے۔ جب اتنے برسوں سے مسلح بغاوت چل رہی ہے اور اس کے خلاف جنگ بھی چل رہی ہے، اس وقت کشمیر میں‌ انڈیا کی حکومت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔اگر انڈیا کی حکومت کے پاس کوئی ثبوت تھا کہ یہ لڑکا کسی متشدد حرکت میں‌ شامل تھا تو وہ اس کو گرفتار کرتے اور اس پر مقدمہ چلاتے۔ آخر انڈیا کا ایک منشور ہے اور وہ ایک جمہوری سیکولر ملک ہے۔

(جاری ہے۔ برائے مہربانی اپنے سوالات ہمیں لکھئیے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments