لاہور میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

بائیس جولائی کے نیشن کی خبر ہے کہ پچھلے تیس گھنٹے میں لاہور کے مختلف علاقوں سے چھے بچے اغوا کیے جا چکے ہیں اور پولیس ان میں سے کسی کو بھی بازیاب نہیں کرا سکی ہے۔ یہ بچے اقبال ٹاؤن، انارکلی، شاہدرہ، نشتر کالونی، چھاؤنی اور نصیر آباد کے علاقوں سے اغوا کیے گئے تھے۔

پچھلے پندرہ دنوں میں دو سو سے زیادہ بچے اغوا ہوئے ہیں جن میں سے 189 بازیاب کرا لیے گئے جبکہ انیس ابھی تک غائب ہیں۔ شاہدرہ میں بچے اغوا کرنے والا ایک شخص رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اس سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ دس سالہ عمیر کی بوری بند لاش ایک گندے نالے سے ملی ہے۔ اس پر مجرمانہ حملہ کر کے اسے قتل کیا گیا تھا۔

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر امین وینس نے بچے غائب ہونے کا ذمہ دار والدین، اساتذہ اور معاشرے کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اٹھانوے فیصد سے زیادہ بچے والدین کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ کیے جانے کے بعد غائب ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ سکول جانے سے بچنے کے لیے فرار ہوتے ہیں اور کچھ برے دوستوں کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں‘۔ وینس صاحب کا کہنا ہے کہ اس سال کم از کم 187 بچوں کے اغوا کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور کل 208 گمشدہ بچوں میں سے کم از کم 189 گھر واپس آ گئے تھے۔ تقریباً 27 بچے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیے گئے۔ ’پچانوے فیصد گمشدہ بچوں کے معاملے میں ہمیں مجرمانہ عنصر نہیں ملا ہے‘، وینس صاحب نے دعوی کیا۔

\"kidnapped-children\"

پولیس نے عوام کے احتجاج کے بعد ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2015 میں 550 ایسے بچے تھے جن کے بارے میں اغوا یا گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ ان میں سے اکتالیس فیصد نے والدین کے سخت رویے یا دوسرے گھریلو مسائل کی وجہ سے گھر چھوڑا تھا۔ تقریباً 63 فیصد اغوا کے کیس کینسل کر دیے گئے تھے کیونکہ تفتیش کے بعد یہ الزام غلط ثابت ہوا تھا۔ کسی بھی کیس میں تاوان کی کال موصول نہیں ہوئی تھی۔ گھر سے بھاگنے کے کیسوں کے علاوہ تقریباً بائیس فیصد کیس بچے کی گمشدگی اور واپس ملنے کے تھے۔ چھے فیصد کیوں اور بچے کو ان کے اپنے رشتے داروں نے اغوا کیا تھا۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے کیونکہ کسی کیس میں بھی اغوا برائے تاوان کی کال موصول نہیں ہوئی تھی۔

سنہ 2015 کے پولیس رپورٹ کے یہ اعداد و شمار دلچسپ ہیں۔ خاص طور پر یہ امر کہ کسی بھی کیس میں اغوا برائے تاوان کی کال موصول نہیں ہوئی ہے۔ جبکہ ہمارے سامنے دس مارچ 2015 کا اخبار نیوز موجود ہے، جس میں سی آئی اے پولیس کے کارنامے کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایک مقامی تاجر کے ساڑھے چار سالہ بیٹے کو اغوا کر کے تین کروڑ کا تاوان مانگا گیا تھا مگر پولیس نے اس سلسلے میں تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ سی سی پی او لاہور امین وینس نے گلبرگ کے تھانے میں درج ہونے والے کیس کا نوٹس لیا اور سی آئی کے اغوا برائے تاوان کے سیل کو مجرموں کی گرفتاری اور بچے کی بازیابی کا حکم دیا۔ سی آئی اے کو پتہ چلا کہ بچے کو اغوا کر کے بنوں لے جایا گیا ہے جہاں سے اسے برآمد کر لیا گیا۔

لیکن بہرحال ہم سادہ دل لوگ یہی مانتے ہیں کہ پولیس رپورٹ سچی ہے۔ سنہ 2015 میں اغوا برائے تاوان کا کوئی کیس نہیں ہوا اور یہ 2015 والی پولیس کی بہترین کارکردگی کی خبر جھوٹی ہے۔

\"child-beggars-on-road\"

پولیس نے والدین کو نصیحت کی ہے کہ وہ خبردار رہیں اور بچوں کو اکیلے باہر مت جانے دیں۔ کئی اغوا شدہ بچوں کی عمر بارہ برس کے آس پاس ہے۔ کیا پولیس کو اندازہ ہے کہ اس عمر کے کتنے بچے گھر سے اکیلے باہر نکلتے ہیں، حتی کہ اکیلے سکول بھی جاتے ہیں؟ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ سارے اعداد و شمار صرف لاہور کے ہیں۔ پورے پنجاب اور پورے پاکستان کے کیا اعداد و شمار ہوں گے؟

کیا ’گڈ گورننس کی بہترین مثال‘ حکومت پنجاب یہ بتانا پسند کرے گی کہ قصور میں بچوں کے جنسی استحصال کے کیس کے بعد بچوں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی کیا صورت حال ہے؟ کیا جاوید اقبال کے سو بچوں کو قتل کر دینے کے بعد سے داتا دربار اور ایسے دوسرے علاقوں میں بچوں کی حفاظت کے لیے کچھ کیا گیا ہے جہاں گھر سے بھاگے ہوئے بچے روٹی کی آس میں پہنچتے ہیں اور جو جاوید اقبال کی خاص شکار گاہ تھا؟

\"beggarwoman-13\"

ہم حیران ہوتے ہیں کہ کیا پولیس کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ ہر چوراہے پر بھیک مانگتے یہ چھوٹے چھوٹے بچے کہاں سے آتے ہیں؟ ان میں سے کتنے غیر فطری معذوری کا شکار دکھائی دیتے ہیں؟ کیا پولیس اس بات پر حیران نہیں ہوتی کہ بھکارنوں کی گود میں لیٹے بچے ہمیشہ سوئے کیوں رہتے ہیں؟ کیا کبھی کسی پولیس افسر نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایک چوک پر کھڑی بھکارن کے ہاتھوں میں موجود بچہ پانچ دس دن بعد تبدیل کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا ہسپتالوں سے نومولود بچے بھی اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے اپنے پالنے سے فرار ہو جاتے ہیں؟ کیا ان پولیس والوں نے اپنے بچپن میں کبھی بچوں کے ناول ’عالی پر کیا گزری‘ اور ’میرا نام منگو ہے‘ وغیرہ بھی نہیں پڑھے ہیں یا انہیں صرف فینٹاسی فکشن سمجھتے ہیں؟ کیا پاکستان میں بیگار کیمپ نہیں ہوتے ہیں؟ کیا غریب کے بچے کو تاوان کے لیے اغوا کیا جائے گا یا اسے بھکاری یا بیگاری بنانے کے لیے اٹھایا جائے گا؟

ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ حکومت پنجاب یہ کہہ رہی ہے کہ بچوں کی تعلیم اور صحت کے بعد اب ان کی سیکیورٹی کو بھی پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے۔ جس نے اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے، وہ خود ہی کر لے۔ حکومت اس وقت صرف میٹرو اور موٹروے بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور کا ساڑھے چار سالہ بچہ ابراہیم خود ہی گھر سے بھاگ کر ٹرک چلاتا ہوا چند گھنٹوں میں بنوں پہنچ سکتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments