حکومتیں عوام کو کیسے بے وقوف بناتی ہیں؟


اس کے بعد امریکی خفیہ ادارے سی آئی سے نے بھی فرائیڈ فیملی کی تیار کردہ تکنیکس استعمال کرنے کا وسیع پروگرام شروع کیا اور اس سلسلے میں سب سے پہلا تجربہ دوسری عالمی جنگ کے ان فوجیوں پر کیا گیا، جو شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار تھے۔ یہ امریکا میں نفسیات دانوں یا تحلیل نفسی کے شعبے کے عروج کا آغاز تھا۔

اب بات صرف ماڈل کنزیومرز (صارفیں) کی نہیں بلکہ ماڈل شہری تخلیق کرنے کی جا رہی تھی۔ اس دوران امریکا بڑے بڑے کاروباری ادارے اور صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور جیسے لوگ بیرنیز کے کلائنٹ تھے۔
بیرنیز سب کو قائل کر چکے تھے کہ عوام کو کنٹرول کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کی لاشعوری خواہشات یا پھر خوف سے کھیلا جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کو بیرنیز نے مشورہ دیا کہ روسی کمیونزم کے خوف کو کم کرنے کے بجائے اس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے اور اسے خوف کو سرد جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عقلی دلائل سے عوام کو قائل کرنا مشکل ہے۔
آن بیرنیز اپنے والد کی اس تکنیک سے متعلق کہتی ہیں، ’’ میرے والد سمجھتے تھے کہ عوامی گروپوں کے ذہنوں کی تشکیل خود کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ ان کے اندرونی خوف یا اندرونی خواہشوں سے کھیل سکتے ہیں تو انہیں کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

عوام کے خوف سے کھیلنے کا پہلا کامیاب تجربہ بھی بیرنیز نے کیا۔ بیرنیز کی ایک بہت بڑی کلائینٹ یونائٹیڈ فروٹ کمپنی بھی تھی۔ یہ امریکی کپمنی گوئٹے مالا اور وسطی امریکہ میں کیلوں کے وسیع باغات کی مالک تھی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ کمپنی کیلوں اور ان ملکوں کے آمروں کو کنٹرول کرتی چلی آ رہی تھی۔ اسی وجہ سے انہیں بنانا ری پبلک بھی کہا جاتا تھا۔

1950ء میں ایک نوجوان افسر کرنل ایربینز گوئٹے مالا کا صدر بن گیا۔ اس صدر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک سے یونائٹیڈ فروٹ کا کنٹرول ختم کر دے گا اور 1953ء میں اس نے یونائٹیڈ فروٹ کے زیر کنٹرول زمین قومیانے کا اعلان کر دیا۔ اس اقدام کو گوئٹے مالا میں تو بہت شہرت حاصل ہوئی لیکن یونائٹیڈ فروٹ کے لے یہ تباہ کن فیصلہ تھا۔ یونائٹیڈ فروٹ نے بیرنیز سے رابطہ کیا کہ کسی طرح صدر ایربینز کا تختہ الٹا جائے۔ بوسٹن گلوب کے سابق صحافی لیری ٹائی لکھتے ہیں، ’’بیرنیز اور یونائٹیڈ فروٹ ایک مقبول منتخب حکومت کو ایک خطرے میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اور یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ حکومت جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔‘‘

حقیقت میں ایربینز ڈیموکریٹک سوشلسٹ تھا اور اس کے ماسکو سے رابطے تھے لیکن بیرنیز انہیں ایک کیمونسٹ خطرہ بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے جو امریکا کے لیے کسی بھی طور قابل قبول نہیں تھا۔ بیرنیز نے امریکا کے بااثر صحافیوں کے لیے گوئٹے مالا کے ایک خفیہ دورے کا بندوبست کیا۔ ان صحافیوں کو انتہائی اچھے طریقے سے انٹرٹین کیا گیا اور وہاں کے مخصوص سیاستدانوں سے ان کی ملاقاتیں بھی کروائی گئیں۔ ان سیاستدانوں نے ان بااثر امریکی صحافیوں کو بتایا کہ ان کا صدر ایک کمیونسٹ ہے اور انہیں ماسکو کنٹرول کر رہا ہے۔

امریکی صحافیوں کے دورے کے دوران گوئٹے مالا میں اچانک امریکا مخالف پرتشدد مظاہرے بھی شروع ہو گئے۔ یونائیٹڈ فروٹ کے لیے کام کرنے والے بہت سے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے بیرنیز نے خود کروائے تھے۔ دوسری طرف بیرنیز نے امریکا میں ایک جعلی نیوز ایجنسی قائم کی، جس کا نام ’مڈل امریکا انفارمیشن بیورو‘ رکھا گیا۔ اس نیوز ایجنسی نے ایسی خبروں کی بھرمار کر دی کہ ماسکو گوئٹے مالا کو بیس بنا کر امریکا پر حملہ کرنے والا ہے۔

بوسٹن گلوب کے سابق صحافی لیری ٹائی لکھتے ہیں، ’’ بیرنیز کا مقصد صرف آربینز کی حکومت کو امریکا میں برا ثابت کرنا تھا۔ وہ اس خفیہ منصوبے کا حصہ تھا، جس پر صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور اتفاق کر چکے تھے۔ اس کے بعد وہاں کے باغیوں کو سی آئی اے کے ذریعے تربیت دی گئی اور کرنل ایرماس کو طاقت میں لایا گیا۔‘‘ 1954ء میں گوئٹے مالا میں سی آئی اے آپریشن ہیڈ ہارورڈ ہنٹ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’ہم ایک دہشت پھیلانے والی مہم چاہتے تھے۔ سی آئی اے کو بغاوت میں مدد دینے کی ہدایات مل چکی تھیں۔ سی آئی اے کے پائلٹ خفیہ طور پر گوئٹے مالا پر بم گرا رہے تھے اور بیرنیز نے امریکی پریس میں اپنی پروپیگنڈا مہم جاری رکھی ہوئی تھی۔ وہ امریکی عوام کو گوئٹے مالا کی آزادی اور فریڈم فائٹرز کی جمہوریت کے لیے تیار کرتا رہا۔‘‘

بیرنیز جانتے تھے کہ بغاوت اسی وقت کامیاب ہو گی، جب لوگ اسے ذہنی طور پر قبول کریں گے اور پریس اس کی حمایت میں بولے گی۔ لیری ٹائی کے مطابق اصل میں بیرنیز سچ یا حقیقت کو ری شیپ کر رہے تھے اور عوامی کی سوچ کے ساتھ کھیل رہے تھے، جو کسی بھی طور جمہوری رویہ نہیں ہے۔ 27 جون 1954ء کو کرنل ایربینز ملک سے فرار ہو گیا اور ایرماس کو اقتدار مل گیا۔ اس کے چند ماہ بعد ہی نائب صدر نیسن نے اس ملک کا دورہ کیا۔ اس دوران یونائٹیڈ فروٹ کے پی آر ڈیپارٹمنٹ نے ایک ایسا ایونٹ اسٹیج کیا، جس میں یہ بتایا گیا کہ صدارتی محل سے مارکسی لٹریچر کے ڈھیر ملے ہیں۔ نائب صدر نیکسن کا اس کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک کمیونسٹ حکومت کو مقامی لوگوں نے گرا دیا ہے۔‘‘

بیرنیز امریکی عوام کی ذہن سازی کر چکے تھے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ امریکی بزنس اور امریکا کے مفادات ناقابل تقسیم ہیں۔ برنیز کے مطابق یہ بات اب امریکی عوام کو عقلی بنیادوں پر نہیں سمجھائی جا سکتی تھی لہذا ان کے خوف سے کھیلنا ضروری تھا۔ اس تجربے کے بارے میں بیرنیز کی بیٹی این بیرنیز کہتی ہیں، ’’وہ سمجھتے تھے کہ لوگ واقعی بیوقوف ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جمہوریت کے برعکس ہے۔ لوگوں کو کسی انتخاب پر مجبور کرنا، یہ جمہوریت ہرگز نہیں ہے یہ کچھ اور ہے۔‘‘

اس تجربے کے بعد واشنگٹن میں یہ آئیڈیا قوت پکڑتا گیا کہ سرد جنگ لڑنے کے لیے عوام کو دھوکا دیا جانا ضروری ہے۔ سن 1950 سے 74ء تک سی آئی اے کے چیف ماہر نفسیات ڈاکٹر رہنے والے جان گیٹینگر لکھتے ہیں، ’’اس وقت انسان کے بارے میں یہ سوچا جاتا تھا کہ اسے مکمل طور پر مشین کی طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت لوگ واقعی یہ سوچتے تھے کہ ایسا ممکن ہے۔‘‘

اس دور میں امریکا بھر میں جگہ جگہ نفسیات دانوں کے کلینک کھل چکے تھے اور سی آئی اے بھی اس شعبے میں تجربات کے لیے بھرپور سرمایہ لگا رہی تھی۔ انسانوں کی مخفی خواہشات کو کنٹرول کرنے کے نظریہ کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا، جب وینس پیکارڈ کی بیسٹ سیلر کتاب Hidden Persuaders مارکیٹ میں آئی۔ اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ نفسیات دان امریکی عوام کو ایک ایسی جذباتی پتلی بنانا چاہتے ہیں، جو بڑے اداروں کا سامان خریدتی رہے۔ اس کتاب کے مطابق انسانوں کی خواہشات کو نئے برانڈز کی اشیاء خریدنے کے لیے اپنی مرضی سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments