لبرل فاشسٹ نہیں ہو سکتا


ہمارے دانشورانہ مکالمہ میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دور جدید کی سوشل سائنس کے تین بڑے رجحانات (لبرل ازم، سوشل ازم، اور فاشزم ) کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں لبرل فاشزم کی اصطلاح یہاں کا صف اول کا کالم نویس استعمال کرتا ہے اور پھر اس کے دیکھا دیکھی یہ اصطلاح معروف بھی ہو جاتی ہے اس تحقیق و جستجو میں پڑے بغیر کہ اصل میں فاشزم ہے کیا؟ فاشسٹ ہونا کیونکر گالی ہے؟ گزشتہ صدی کے ابتدائی عشروں میں مغربی لبرل ازم نے جس فاشزم سے جنگ لڑی دونوں کے درمیان کس بات کا نظریاتی اختلاف تھا ؟ اور یہ کہ مغرب میں جس فاشزم کی لہر دوبارہ سے اٹھ رہی ہے اس کا جنم کہاں سے ہے اور وہ مغربی لبرل ازم کے لئے کیونکر اور کن بنیادوں پر خطرہ بن رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن پر غوروفکر ہمارے اہل علم و فکر ضروری ہے تب جا کر دانشورانہ مکالمہ سطحیت سے سنجیدگی کی طرف رجوع کرے گا۔

آئیے پہلے اس یہ بات کرتے ہیں کہ لبرل ازم اور فاشزم سے کیا مراد ہے اور ان میں باہم اختلاف کیا ہے اس کے بعد بقیہ پہلوؤں کو زیر بحث لانا ممکن ہو جائے گا۔

فاشزم ایک ایسا سیاسی فلسفہ، تحریک یا عہد (regime) ہے جس میں قوم یا نسل یا وطن یا ملک یا وفاق کو فرد یعنی شہری سے بالاتر سمجھا جاتا ہے اور جس میں centralized (مرکزی، وفاقی ) اور جابرانہ (autocratic ) سیاسی سماجی اور معاشی نظم پایا جاتا ہے۔

لبرل ازم اس سے مختلف ہے۔ اس میں فرد ہر سماجی اکائی سے بالاتر ہے، قوم نسل وطن اور ملک فرد سے بالاتر نہیں۔ اس میں طاقت و اختیار decentralized ہوتے ہیں اور سیاسی سماجی و معاشی نظام فرد کی آزادی پر قائم ہوتا ہے۔ ریاست کے تمام ادارے شہریت کے حضور جوابدہ ہیں۔ سماجی و معاشی زندگی میں ہر فرد آزاد ہے کہ اپنے پرامن مقاصد کی جستجو کرسکے۔

مسولینی لبرل ازم کو فاشزم کا انٹی تھیسز سمجھتا تھا اس نے اپنی کتاب Fascism: Doctrine and Institutions میں ریاست کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور فرد کی اہمیت کو صرف اتنا تسلیم کیا ہے کہ فرد ریاست کے مفادات کا تابع ہے۔

مسولینی کہتا ہے کہ یہ غیر فطری ہے کہ ریاست شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس کے الفاظ ہیں۔

The maxim that society exist only for the well being and freedom of the people composing it does not seem to be in conformity with nature’s plan. If classical liberalism spells individualism, Fascism spells Government

.(یہ اصول کہ سوسائٹی جو لوگوں سے وجود آتی ہے، صرف ان لوگوں کی فلاح اور ان کی آزادی کے لئے ہی قائم کی جاتی ہے، فطرت کے منصوبہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر کلاسیکل لبرل ازم سے مراد انفرادیت پسندی ہے تو فاشزم سے مراد صرف گورنمنٹ ہے )
( Book : Fascism: Doctrine and Institutions )

ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال جن کا شاہین آزاد پرواز پرندہ ہے جو پہاڑوں کی چٹانوں پہ اپنی انفرادیت پسندی کا تحفظ کرتا ہے، انہوں نے مسولینی کی جو تعریف کی سو کی۔ ذرا برطانوی سوشلسٹ شاعر و ادیب برنارڈ شا کی بھی سن لیجئے جنہوں نے 1927 میں لکھا-

“سوشلسٹ یہ جان کر مسرور ہوں گے کہ آخر کار انہیں ایک سوشلسٹ (مسولینی ) کو پا لیا ہے جو ویسے بولتا اور سوچتا ہے جیسے ایک ذمہ دار حکمران کو ہونا چاہئے ”
(Cited in Richard Griffiths, Fellow Travellers of the Right: British Enthusiasts for Nazi Germany, 1933-39 (London: Trinity Press, 1980), p. 259. )

جرمن فاشزم کا بانی Paul Lensch ہے جو اپنی کتاب Three Years of world revolution میں لکھتا ہے

Socialism must present a conscious and determined opposition to Individualism
(سوشلزم کے لئے ضروری ہے کہ وہ انفرادیت پسندی یعنی لبرل ازم کے خلاف ایک شعوری اور پرعزم اپوزیشن کا کردار ادا کرے ” )

حقیقت یہ ہے کہ فاشزم سماج میں اخلاقی جبر کا قائل ہے۔ وہ فرد کو اپنی مفروضہ اخلاقیات کے حضور سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے جرمن فاشزم کا سلوگن بھی یہی تھا کہ Gemeinmutz geht vor Eigennutz ( سماجی اخلاقیات انفرادی اخلاقیات سے بالاتر ہیں )

ہٹلر اپنی کتاب Mein Kampf میں لکھتا ہے “آرینز اپنی ذاتی صلاحیتوں سے عظیم نہیں تھے بلکہ ان کی آمادگی تھی جس کے باعث وہ اپنی ذات کو سماج سے کمتر سمجھتے تھے اور اگر اس کے لئے وقت ان سے تقاضا کرتا تو وہ قربانیوں سے نہیں گھبراتے تھے۔

فاشزم فرد کا انکار کرتا ہے اس کے حقوق کا بھی، اس کی ذات کا بھی، اس کی آزادی مساوات اور انصاف کا بھی۔ وہ ایک مفروضہ تصور نظریہ یا عقیدہ کی آمریت کا نام ہے جو افراد سے اپنی پرستش اور خدمت گزاری کرواتا ہے۔ اسی بات کو ہٹلر اپنی کتاب میں ان الفاظ میں لکھتا ہے۔

“فرد کے حقوق ہوتے ہی نہیں، اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں ” (Book: Mein Kampf )

فاشزم اپنی آمریت کا جواز سماجی بہبود کو قرار دیتا ہے اور سماجی بہبود کے نام پر شخصی آزادی کو نفرت سے دیکھتا ہے۔ شہری کے مفادات کو سماج دشمن قیاس کرتا ہے۔ اس کے نزدیک وہ تمام لوگ جو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے محنت مشقت کرتے ہیں وہ سماج دشمن ہیں، وہ ریاست کے دشمن ہیں- ہٹلر لکھتا ہے۔

“ہماری قوم صرف ایک سادہ اصول سے صحت یاب ہو سکتی ہے۔ “سماجی مفادات کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی جائے ”
(Norman H. Baynes, The Speeches of Adolph Hitler )

فاشسٹ فلسفہ و نظام حکومت یہ نہیں کہ ریاست آپ کے لئے کیا کر سکتی ہے بلکہ حقیقتا یہ ہے کہ آپ ریاست کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments