آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج اور جواب آں غزل


\"khawajaدرویش کا حکم ملا کشمیر میں ہو تو کشمیر کے انتخابات پر لکھو۔ حکم کے مطابق جو دیکھا اس کوبیان کر دیا ،لب لباب یہ تھا! ”مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن واضح طو ر پر بیس سے زائد نشستیں حاصل کرتی نظر آرہی ہے اور ممکن ہے وہ سادہ اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے ،دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی پانچ سے دس تک نشستیں حاصل کر کے اپوزیشن کی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔چار پانچ آزاد امیدوار بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو یقینی طور پر اکثریتی جماعت میں شمولیت کو ہی ترجیح دیں گے۔ بچے کچھے میں سے تحریک انصاف ،مسلم کانفرنس اور ایم کیوایم یا جے یو آئی کے حصے میں کیا آئے گا اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں باقی رہے نام اللہ کا۔ جہاں تک آئندہ وزیراعظم کا تعلق ہے میں راجہ فاروق حید ر کو آزاد کشمیر کا آئندہ وزیراعظم دیکھ رہا ہوں “۔

انتخابات سے ایک دن پہلے قارئین کی بڑی تعداد نے اس تجزیے سے اتفاق کیا اور کچھ نے اسے حکومت کی مدح سرائی سے تعبیر کیا ۔میں دونوں طرح کے قارئین کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے میری تحریر کو اس قابل تو سمجھا کہ اس پر رائے زنی کر سکیں ۔اب انتخابات کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مسلم لیگ ن میرے اندازے (سادہ اکثریت )سے بھی پانچ نشستیں زیادہ لے چکی ہے تاہم پیپلزپارٹی کا اس قدر برا حشر ہو گا اس کی توقع خاکسار کو نہ تھی ۔ تحریک انصاف، مسلم کانفرنس،جے یو آئی ،ایم کیوایم اور جماعت اسلامی کومیری توقع کے مطابق بچھے کچھے میں سے جو میسر آنا تھا قریب قریب ویسا ہی ہوا۔ ظاہر ہے ایک صحافی اپنا تجزیہ ہی پیش کرسکتا ہے وہ کوئی نجومی تو ہوتا نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ روایتی طور پر جو جماعت اسلام آباد میں برسر اقتدار ہو وہ مظفرآباد میں بھی جیت جاتی ہے لیکن سابق وزیر راجہ قمر زمان کا ایک نوآموز مشتاق منہاس سے ہارنا اور ڈڈیال سے پیپلزپارٹی کے وزیرراجہ واجد الرحمان کا پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم کی بجائے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینا ایسی علامات ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام پیپلزپارٹی سے مایوس ہو چکے تھے اور خود پیپلزپارٹی کو بھی اس کا احساس تھا۔ بلاول کے جلسوں اور میاں نواز شریف پر تابڑتوڑ لفظی حملوں کے متعلق یہی کہوں گا کہ اگر تقریروں سے سیاست میں کامیابی ملتی تو سید عطا اللہ شاہ بخاری برصغیر کے رہنما ہوتے اور نعوذبااللہ طاہر القادری پاکستان کے حکمران ۔ آزاد کشمیر پر پانچ برس حکمرانی کرنے والوں اور عمران خان کو اب سنجیدگی سے یہ سوچنا ہو گا کہ سیاست میں کامیابی کے لئے پرجوش جلسوں اور دھواں دار تقریروں کے علاوہ بھی کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ باغ سے مشتاق منہاس کی بھاری اکثریت سے کامیابی اس لئے بھی خوش آئند ہے کہ اس سے برادری ازم کی سیاست کو ایک زوردار دھچکا لگا ہے ۔ اکثریتی برادری کے امیدوار اور وہ بھی موجودہ وزیر کو ہرانا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ ایک اور مثبت چیز جس کا مشاہد ہ خاکسار کو ہوا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح بہت اچھی تھی اور نوجوان نسل خاص طور پر خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے میں مردوں کی طرح یکساں جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال عمران خان کی وزیراعظم محمد نواز شریف کو مبارکباد ایک مثبت سیاسی روایت ہے ۔ کاش عمران خان پاکستان میں بھی اسی سنجیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کریں کیونکہ عوام اب الزام تراشی کی سیاست سے اکتا چکے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن جس نے آزاد کشمیر کی حکومت کو جوڑ توڑ کی سیاست سے گرانے کی بجائے ووٹ کے ذریعے گرانے کی اچھی روایت قائم کی ہے اس کوبھی آئندہ پانچ برس اس طرح گزارنے چاہیے کہ آزاد کشمیر کے عوام اسلام آ باد کی طرف دیکھنے کی بجائے ان کی کارکردگی کی بنا پر ان کو ووٹ دیں تاکہ اس بات کو سچ ثابت کیا جا سکے کہ مظفرآباد کے فیصلے مظفرآباد میں ہی ہوتے ہیں ۔

اور اب تھوڑا سا ذکر قارئین کی آرا کا! کسی بھی لکھاری کے لئے یہ بات خوشی کا باعث ہوتی ہے کہ اس کے قارئین اس کی رائے سے اتفاق یا اختلاف کریں۔ ایدھی صاحب کے بارے میں خاکسار کے کالم پر بہت سی آرا موصول ہوئی ہیں تعریف کرنے والوں کابہت شکریہ لیکن ایک بے نام ای میل بھی موصول ہوئی ہے جس میں مجھ پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ میں نے ایدھی صاحب کی تعریف میں بہت مبالغہ آرائی کی ہے ۔ شوکت خان کے نام سے بنائی گئی ای میل آئی ڈی بظاہر فرضی معلوم ہوتی ہے کیونکہ لکھنے والے نے اپنا نام ،شہر یا ٹیلی فون نمبر دینے سے گریز کیا ہے لیکن تنقید بہت سخت کی ہے۔ ای میل میں کہا گیا ہے کہ فیس بک ایک ناقابل اعتبار ذریعہ ہے اور مفتی زرولی کا خطاب چونکہ وہاں سے لیا گیا ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کا اقرار بھی کیا گیا ہے کہ مفتی زرولی کا کچھ خطاب حقائق پر مبنی ہے۔ اب اس بات پر میں ان صاحب کو کیا جواب دوں کہ جس چیز کو ناقابل اعتبار گردان کر وہ مجھ پر اعتراض کر رہے ہیں اسے حقائق کے مطابق بھی قرار دے رہے ہیں۔ ای میل میں ایدھی صاحب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جھولوں کی بجائے ان کو جوانوں کے نکا ح کروانے چاہیے تھے اور انہوں نے زندگی میں کبھی حج یا عمر ہ نہیں کیا۔ اورانہوں نے بڑی عمر میں ایک نوجوان لڑکی سے شادی کی جو زیور چرا کر بھاگ گئی اور یہ کہ وہ سونا ان کے پاس کہاں سے آیا کیونکہ ان کے اکاؤنٹ میں تو کچھ تھا نہیں بلکہ ان کی اہلیہ اور بیٹے کے اکاؤنٹ میں بہت کچھ موجود تھا۔ ای میل میں اید ھی صاحب پر یہ الزام بھی دھرا گیا کہ انہوں نے سینکڑوں مجاہدین کی گرفتاری میں امریکہ کی مدد کی ۔جہاں تک حج یا عمرے کی بات ہے میرے علم کے مطابق وہ ذاتی پیسے سے ہوتا ہے صدقے یا خیرات کے پیسے سے نہیں، ایدھی صاحب نے اگر صدقے کے پیسوں سے حج نہیں کیا تو میں ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔ نوجوان لڑکی سے شادی کرنا نہ توگناہ ہے اور نہ اید ھی صاحب نے لڑکی سے زبردستی کی تھی اور جہاں تک جھولوں کی بات ہے جھولوں پر اعتراض کرنے والے صرف یہ بتا دیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کتنی غریب لڑکیوں کی شادیاں کروائیں۔ باقی رہی مجاہدین کی بات تو یہ وہ انوکھا الزام ہے جس پر میں ان صاحب کو سلام پیش کرتا ہوں اور اس کا فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ اس الزام میں کس قدر سچائی ہے ۔

افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھجوانے سے متعلق کالم پر محترمہ مریم صاحبہ نے استفسار کیا ہے کہ ”زمین تو ساری اللہ کی ہے تو اس پر سرحدیں بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی “ محترمہ مریم کی خدمت میں عرض ہے کہ اللہ کی زمین پر آپ کا جو گھر ہے اس کی بھی کوئی سرحد ہے اور کوئی شخص آپ کی مرضی کے بغیر اگر آپ کے گھر میں داخل ہو گا تو قانون، اخلاق یا معاشرہ کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گااور وہ شخص چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے کا مجرم ہو گا جس کی سزا اسے بھگتنا پڑے گی ۔ اسی طرح پاکستان بھی ہمارا گھر ہے اور ا س کا تقدس مجروح کرنے والا ہمارا دوست کبھی نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments