میں کھڑوس بڈھا بننا چاہتا تھا
کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ میں کچھ عرصہ قبل ایک سیمنار ہوا جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس سے پہلے سر طاہر مسعود صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سر محمود غزنوی کو سلام کیا۔ سر اسامہ شفیق اور سر نعمان انصاری سے اچھی گفتگو رہی۔ طلبہ و طالبات سے سوال جواب کرکے بہت خوشی ہوئی۔ مجھے تقریر کرنی نہیں آتی۔ چنانچہ میں نے سیمنار میں گفتگو کا آغاز اپنے مخصوص بے ڈھنگے انداز میں کیا۔ وہ اوٹ پٹانگ ابتدائیہ کچھ یوں تھا:
جب میں چھوٹا تھا، میں نے اسی وقت طے کرلیا تھا کہ بڑا ہوکر صحافی بنوں گا، یہ الگ بات ہے کہ میں کبھی بڑا نہیں ہوسکا، اور اب مجھے بڑا ہونے سے ڈر لگتا ہے، لیکن جب میں چھوٹا تھا تو مجھے یہ سوچ سوچ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ایک دن میں کھڑوس بڈھا بن جاؤں گا۔
میں کسی گنجے گدھ کی طرح کھڑوس بڈھا بننا چاہتا تھا۔ ایسا غصیلہ بزرگ، کوئی جس کے قریب نہیں آنا چاہتا۔ خاندان والے جس کے گھر جانا پسند نہیں کرتے۔ محلے کے لڑکے بالے کنی کتراتے ہیں۔ جس کی تیز زبان لڑاکا عورتوں کو ہرا دیتی ہے۔ جس کے مزاج کی سختی سے قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے اس کے ہم عمر بھی گھبراتے ہیں۔
میں یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ ایک دن آئے گا کہ میں کھڑوس بڈھا بن جاؤں گا۔ رپورٹروں کی غلط املا کو درست کر کر کے، سب ایڈیٹروں کی خبروں پر سرخیاں جما جما کے اور تصویروں کے کیپشن سجا سجا کے جب میری بینائی جواب دے جائے گی تو مجھ سے نیوز ایڈیٹری چھین لی جائے گی۔ لیکن مجھے ریٹائر نہیں کیا جائے گا کیونکہ صحافی کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ مجھے ایڈیٹر بنانے کے بجائے کالم نویس کے عہدے پر ترقی دے دی جائے گی۔ پھر میں سارا غصہ، ساری نفرت، منافق معاشرے سے انتقام لینے کے لیے سارا زہر کاغذ پر بکھیرا کروں گا۔ دوسرے چوتھے دن میرا کالم اخبار میں چھپنا شروع ہوجائے گا۔ تب وہ لڑکیاں، جو اسکول اور کالج اور یونورسٹی میں مجھے لفٹ نہیں کرائیں گی، اپنے پوتوں اور نواسوں سے چھپ چھپ کر میرے کالم پڑھیں گی۔
ابھی میں چھوٹا ہی تھا کہ میں نے کسی کھڑوس بڈھے کی طرح لکھنا شروع کردیا۔ یہ 1983 کی بات ہے کہ میری پہلی تحریر بچوں کے ایک رسالے میں شائع ہوئی۔ میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ تینتیس سال ہو گئے۔ ایک تہائی صدی۔ اس عرصے میں دنیا بدل جاتی ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔
وہ لڑکیاں، جنھوں نے پوتوں اور نواسوں سے چھپ چھپ کر میرے کالم پڑھنے تھے، کلاس روم میں بیٹھ کر میری نظمیں اور کہانیاں پڑھنے لگیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ مجھ سے میری تحریروں پر بات کرنا چاہتی تھیں، لیکن میں ان دنوں لکھنے میں اتنا مصروف تھا کہ بات کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں خوب صورت اور ذہین اور بہادر لڑکیوں کو جھڑک دیا کرتا تھا۔
ان میں سے ایک بہت خوب صورت اور ذہین اور بہادر لڑکی نے، جس کے اب تین بچے ہیں، تین دہائیوں بعد، چند دن پہلے مجھ سے فیس بک پر رابطہ کیا ہے۔ اس نے گفتگو کا آغاز اس جملے سے کیا، مبشر! تم ہماری کلاس کے سب سے کھڑوس بچے تھے۔
- بابائے امریکہ کو سلام - 04/07/2022
- آصف فرخی: انھیں تنہائی نے مار ڈالا - 03/06/2022
- امروہے کے ماموں اچھن - 19/12/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).