انسانی آزادی کا مادر پدر آزادی سے کوئی تعلق نہیں


\"ramishجب کسی معاشرے میں فرد کا اپنی زندگی پہ اختیار نہ تسلیم کیا جائے اور اسے فیصلے کی آزادی نہ دی جائے تو تیزاب گردی اور غیرت گردی جیسے واقعات معمول بن جاتے ہیں۔ جب بھی یہ آزادی کا لفظ استعمال کیا آپ نے فیصلہ سنا دیا کہ تم لوگ مادر پدر آزاد معاشرہ بنانا چاہتے ہو۔ شاید کہنے والوں کو بھی اندازہ نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا بحث کر رہے ہیں۔ ہم تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ آزادی کا مطلب تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنا، اس راہ میں درپیش مسائل کے حل کی خاطر ساتھ دینا، اپنے ذوق کے مطابق لباس کے انتخاب کا اختیار ، زندگی کے باقی فیصلے کرنے میں ہر فرد خودمختار ہو، اس پہ کوئی فیصلہ مسلط نہ کیا جائے۔ ایسا تو مناسب نہیں کہ ایک شخص آپ کے منتخب کردہ راستے پہ چلنے سے انکار کر دے تو آپ اسے اپنے ذاتی معیار پہ پرکھنا شروع کر دیں اور پھر فرمائیں کہ فلاں فلاں مقتولہ نے معاشرتی اقدار و روایات کو پامال کیا مگر انہیں قتل کرنا ٹھیک نہیں۔ آپ ہی فرمائیں جب معاشرے میں ریاکاری، منافقت اور تضادات کی بھرمار ہو تو اس معاشرے کی روایات پہ کسی انسان کو پرکھنا مناسب ہے کہ نہیں؟

قندیل بلوچ یا فوزیہ عظیم کے قتل کے بعد مختلف جگہوں پہ ہوئی بحث میں کچھ باتیں بہت دلچسپ تھیں ، جہاں ویڈیو کو دیکھ کر ٹھرک پوری کرنے والوں نے ایک ایک ویڈیو کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قندیل کو فاحشہ کہا وہاں بہت ایسی خواتین بھی تھیں جن کا واسطہ کبھی بھوک یا غربت سے نہیں پڑا، جنہیں اندازہ تک نہیں کہ ڈیری غازی خان کس جگہ واقع ہے اور وہاں کے زمینی حقائق کیا ہیں یا ایک پسماندہ علاقے اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنی والی لڑکی زندگی کے کن حقائق کا سامنا کرتی ہے۔جن کی کفالت کا ذمہ باپ اور شوہر نے اٹھانا ہے ان خواتین کی اکثریت نے قندیل کو ہی مجرم ٹھہرایا۔ کچھ تو ایسی بھی تھیں جو خود کسی نہ کسی بندھن سے آزاد نہ ہو سکنے کے سبب باقی کسی کی آزادی پہ بھی معترض تھیں ۔یعنی یہ کچھ ایسا معاملہ تھا کہ جیسے کسی خاتون کو کبھی جنسی طور پہ ہراساں نہ کیا گیا ہو تو وہ اس حقیقت کو ہی تسلیم نہ کرے کہ یہ سب ہوتا رہتا ہے۔

غیرت کے نام پہ قتل کے خلاف آواز اٹھائی جائے لوگ معاشرتی روایات کا ڈھنڈورا پیٹتے آ جاتے ہیں کہ صاحب کیا کریں، گھر کے مرد معاشرتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ایسے میں ان کے پاس ماسوائے قتل اور کوئی حل نہیں بچتا۔ کیا آپ لوگوں کو اندازہ ہے اس موقف سے آپ ایک قتل کو جواز فراہم کر رہے ہیں اور مزید کسی قتل کی راہ ہموار کر رہے ہیں؟ اگر آپ کا لہجہ ایسا بھی ہوتا کہ ایک غلط معاشرتی رویے کی نشاندہی کر کے درست کیا جائے تب بھی ہم آپ کی عظمت کو تسلیم کر لیتے مگر آپ تو الٹا ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ قاتل برا شخص نہیں تھا مگر یہ کام اس نے معاشرتی دباؤ کے تحت کیا۔ یہی تو ہم سب کہتے ہیں کہ معاشرے میں خرابیاں موجود ہیں۔ ہم نے آپ کا نقطہ نظر سن لیا لیکن آپ بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر معاشرتی اقدار و روایات کسی قتل کی راہ ہموار کر رہی ہیں تو اب انہیں بدلنا ہو گا۔ مرحلہ مشکل ہے، راہ دشوار ہے مگر ناممکن نہیں۔

مقدمے میں قتل کی وجہ جب غیرت ہو تو تفتیش انتہائی سطحی انداز میں کی جاتی ہے، پھر قصاص کے قانون کے تحت یہی ہوتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیا جاتا ہے کیونکہ معاف کرنے والا اور قتل کرنے والا اکثر سگے رشتے دار ہوتے ہیں یا پھر کسی دباؤ کا شکار۔ پارلیمنٹ سے منظور شدہ ایک قانون کو اسلامی قانون کہہ دیں تو پھر اس میں لاکھ خامیاں ہوں ان کی نشاندہی کرنا خطرناک ہے کیونکہ اسے قانون کی خامی کے بجائے اسلام کی خامی تصور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد کسی قسم کی بحث کا دروازہ بند ہو جاتا ہے کہ جو بات کرے گا اس پہ فتوے لگائے جائیں گے۔ چلیے قصاص کا حق تسلیم کر لیں لیکن اس کے ساتھ ریاست کو فریق بننا چاہیئے کہ ورثا معاف کر بھی دیں مگر ریاست سزا ضرور دے چاہے عمر قید ہی کیوں نہ ہو۔ اکثریت کا خیال ہے کہ اس قانون کی منظوری کے بعد سختی سے عملدرآمد ہو اور دو چار لوگوں کو سزا دی جائی تو باقی ماندہ کی غیرت کا شافی علاج ممکن ہے۔ غیرت کے نام پہ بڑھتے قتل میں سفاکیت اور انتقام کا پہلو نمایاں ہے۔ زندہ جلائے جانے سے بڑھ کر سفاکیت اور کیا ہو گی اور انتقام میں اندھا ہونا اور کیا ہو گا کہ شادی کے دو تین سال بعد اولاد ہو جائے تو کسی بہانے سے گھر بلا کر اس عورت کو قتل کر کے اپنی غیرت کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔۔

غیرت کے اس فلسفے کا سہارا لے کر اپنی جھوٹی انا کو تسکین پہنچانا یا قتل کی دیگر وجوہات پہ پردہ ڈالنا ہی اصل روایت ہے۔ قندیل بلوچ کو کسی نے معتوب ٹھہرایا تو کسی نے مظلوم، کسی نے آزادی اور بہادری کا استعارہ کہا تو کسی نے فحاشی کو فروغ دینے کا الزام ان کے سر ڈال دیا۔ مالی معاملات ہوں یا کسی اور کے ملوث ہونے کا \”قوی\” امکان موجود ہو سچ تو یہ ہے کہ غیرت کے نام پہ قتل کے خلاف مجوزہ مسودے کی منظوری میں قندیل سمیت ان تمام بےنام و نشاں لڑکیوں کو بھلایا نہیں جا سکتا جو تاریک راہوں میں ماری گئیں ۔خواہش صرف اتنی ہے کہ اس بل کی منظوری اور قانون پہ عملدرآمد کے بعد قاتل کو ورثا سے شاید معافی ہی ملے مگر ریاست کی جانب سے سزا ضرور ملے۔ قانون تو شب بھر میں بن ہی جائے لیکن عملدرآمد انتہائی ضروری ہے اور یہی دیکھنا ہے کہ پرانے پاپی قانون کے شکنجے میں کب آتے ہیں،شاید اسی طرح کچھ بےغیرت بھائیوں کو سزا ملے تو باقی سب کی غیرت قابو میں آئے اور کسی کی زندگی بچائی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments