بغاوت کے ملزم: بھوک پیاس اور جنسی زیادتی کا شکار


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ادارہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے آوازیں بلند کرنے والوں میں ایک بہت بڑا نام سمجھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پرسوں چوبیس جولائی کو ترکی میں ان قیدیوں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جن کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ترکی میں پریس آزاد نہیں ہے اور اسے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ سنہ 2012 اور سنہ 2013 میں مسلسل دو سال تک صحافیوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑے جیلر ملک قرار دے چکی ہے۔ ایران، چین اور اری ٹیریا کی پوزیشن اس سے بہتر ہے۔ شدید ریاستی جبر کی اس صورت حال میں ترک پریس معلومات کا ایک قابل اعتبار ذریعہ نہیں رہا ہے اور بیرونی خبر رساں اداروں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اداروں پر معلومات کے لیے انحصار کرنا پڑتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ قابل یقین اطلاعات موجود ہیں کہ انقرہ اور استنبول کے تھانوں میں گرفتار شدہ ملزمان کو مسلسل دو دو دن تک جسمانی طور پر انتہائی تکلیف دہ جسمانی پوزیشنوں میں جامد رکھا جاتا ہے، انہیں کھانا، پانی اور طبی امداد نہیں دی جاتی ہے، ان سے گالم گلوچ کی جاتی ہے اور مسلسل دھمکیاں دی جاتی ہیں، اور بدترین واقعات میں ان پر شدید جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، جس میں جنسی زیادتی بھی شامل ہے۔

\"turkish-soldiers-e1469379574785\"

کسی شخص کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے اور مختلف بے قاعدہ جگہوں پر حراست میں رکھا جاتا ہے۔ ان کو وکیل تک رسائی حاصل نہیں ہے اور ان کے اہل خانہ کو ان پر عائد کردہ الزامات سے آگاہ نہیں کیا جاتا ہے۔ ہفتے کو ترک حکومت نے ایمرجنسی کے تحت پہلا حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت کسی بھی شخص پر کوئی الزام عائد کیے گئے بغیر اسے تیس دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وکیلوں، ڈاکٹروں اور ایک حراستی مرکز پر ڈیوٹی کرنے والے ایک شخص سے بات چیت کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو پتہ چلا کہ قیدیوں کو سپورٹس سینٹروں اور گھوڑوں کے اصطبلوں میں قیدر رکھا جا رہا ہے۔ کچھ قیدیوں کو، جن میں کم از کم تین جج بھی شامل ہیں، عدالتی راہداریوں میں قید کیا گیا ہے۔ خاص طور پر انقرہ کے پولیس ہیڈ کوارٹر کے سپورٹس ہال، انقرہ باشکنت سپورٹس ہال اور رائیڈنگ کلب کے اصطبل میں شدید تشدد کے شواہد ملے ہیں۔

\"20160725_turkey2\"

انقرہ کے پولیس ہیڈ کوارٹر کے سپورٹس ہال پر ڈیوٹی دینے والے ایک اہلکار نے تشدد کے کئی واقعات بیان کیے۔ اس کے مطابق ایک پولیس کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ’انہیں مرنے دو۔ ہم کہیں گے کہ یہ ہمیں مردہ حالت میں موصول ہوا تھا‘۔ اس کے مطابق اس جگہ چھے سو سے آٹھ سو فوجی قید ہیں۔ ان میں سے تین سو کے قریب قیدیوں کے جسموں پر شدید تشدد کے نشانات ہیں اور بعض کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ایک عورت کا ذکر بھی ہے جس کے چہرے اور دھڑ پر تشدد کے نشانات تھے۔ گواہ کے مطابق اس نے پولیس افسران سے سنا کہ وہی اس تشدد کے ذمہ دار تھے اور ان قیدیوں سے معلومات اگلوانے کے لیے ان پر تشدد کیا گیا ہے۔

ملزمان کے دو وکلا نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ قیدیوں کے مطابق انہوں نے سینئر فوجی افسران کے ساتھ پولیس افسروں کو جنسی زیادتی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ عمومی طور پر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ سب سے زیادہ تشدد کا نشانہ ہائی رینک والے فوجی افسران کو بنایا جا رہا ہے۔

گواہوں کے مطابق گرفتار شدگان کا کہنا ہے کہ ان کو تین دن تک کھانے اور دو دن تک پانی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

\"160718110012-turkey-detainees-number-2-super-169\"

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انقرہ اور استنبول میں ان ملزمان کے دس سے زیادہ وکلا کا انٹرویو لیا۔ ان میں سے زیادہ تر ملزمان مرد ہیں اور وہ چھوٹے رینک والے فوجی افسران تھے، جن میں لازمی قومی فوجی ڈیوٹی دینے والے نوجوان طلبا بھی شامل ہیں۔ کچھ جج، وکیل، پولیس افسران اور سرکاری افسران بھی ہیں۔ مختلف وکلا کے (علیحدہ علیحدہ لیے گئے) بیانات ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے تھے۔ ملزمان اور ان کے وکلا کو ان پر عائد کردہ فرد جرم سے آگاہ نہیں کیا جا رہا ہے اور ایک وکیل صفائی کے مطابق ان ملزمان کا دفاع کرنا ایسے ہی ہے جیسے گھپ اندھیرے میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔ ملزمان کو نجی وکلائے صفائی منتخب کرنے کی نہایت محدود اجازت ہے اور بیشتر صورتوں میں سرکاری وکیل ہی دفاع کے لیے مہیا کیے جا رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ترک حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی وہ ذمہ داریاں پوری کریں جو کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت ان پر عائد ہوتی ہیں اور ایمرجنسی کو گرفتار شدہ ملزمان کے حقوق سلب کرنے کی وجہ نہ بنایا جائے اور ان پر تشدد نہ کیا جائے، اور آزاد مبصرین کو محبوس ملزمان تک رسائی دی جائے۔

\"Bekir

ترک اخبار حریت کے مطابق ترک وزیر انصاف بکر بزدا نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک گمراہ کن مہم کا حصہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملزم پر گرفتاری کے بعد تشدد نہیں کیا گیا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ’فتح اللہ گولن کی دہشت گرد تنظیم کی آلہ کار ہے‘۔

ایک اعلی سرکاری افسر نے کہا کہ ’ہم بطور خاص ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور ایڈووکیسی گروپس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ غیر جانبدارانہ انداز میں ان افراد کے بارے میں قانونی اقدامات کا معاملہ بیان کریں جنہوں نے تقریباً ڈھائی سو افراد کا بہیمانہ قتل کیا ہے‘۔

یہ معاملہ ترکی سے ہمدردی رکھنے والوں کے لیے پریشان کن ہے۔ ہمیں ایک طرف جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے سیاہ فام افراد پر نسلی بنیاد پر ظلم و تشدد کرنے والے سفید فام افراد کو بھی اس بنیاد پر معاف کر دیا تھا کہ یہ لڑائی تاریخ میں اسی مقام پر ختم ہو جائے۔ سفید فام اور سیاہ فام گروہوں اور افراد نے اپنے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا تھا اور اس ماضی کو تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا تھا تاکہ قوم یک مشت ہو کر ترقی کی شاہراہ پر چلے۔

لیکن ترکی میں بغاوت کے نام پر جس طرح سے تطہیر کی جا رہی ہے وہ قوم کو شدید تقسیم کا شکار کرے گی۔ کسی شخص پر بھی گولن تحریک سے منسلک ہونے کا الزام لگا کر اسے ملازمت سے برخواست کیا جا رہا ہے اور بعض صورتوں میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ بیشتر صورتوں میں الزام کی نوعیت عدالت میں ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ دلوں کا حال جاننے والا معاملہ ہے۔ پچاس سے ساٹھ ہزار افراد کو نوکریوں سے معطل یا برخواست کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

\"suleymaniye-mosque\"

دوسری طرف ترکی کی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ صدر ایردوان کی حکومت نے پہلے شام اور ایران سے تعلقات بگاڑے، پھر اسرائیل سے تعلقات خراب کیے، پھر روس کے ساتھ بگاڑ پیدا کیا جس کے بعد ترک معیشت گھٹنوں کے بل گر پڑی اور چھے ماہ بعد روس سے معافی مانگ کر اس سے اور اسرائیل سے تعلقات بحال کیے گئے اور بشار کی حکومت کو ہٹانے کے مطلق مطالبے سے بھی دستبرداری اختیار کی گئی۔ مگر اس مرتبہ ایک تو شہریوں کو نوکریوں سے محروم کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف ترک معیشت کے لیے اہم ترین یورپ اور امریکہ سے بھی تعلقات اس حد تک بگاڑے جا رہے ہیں کہ صدر ایردوان کی کابینہ کے ایک وزیر نے براہ راست امریکہ پر اس بغاوت کے منصوبے اور پشت پناہی کا الزام لگا دیا، اور خود صدر ایردوان نے بھی امریکہ کو دشمن قرار دینے والی بات کی ہے جس پر امریکہ سے سخت جواب موصول ہوا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے فتح اللہ گولن کے خلاف ٹھوس شواہد ملیں گے تو پھر ہی اس کی عدالت ان کو ترکی کے حوالے کر سکتی ہے۔

\"incirlik-air-base-turkey-map-620x432\"

ترکی میں امریکہ کا ایک بڑا جوہری اسلحہ خانہ بھی انجرلیک ائیر بیس میں ہے۔ اسی بیس کو بغاوت کا مرکز قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی دن تک اس جوہری اسلحہ خانے کو بجلی سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ازمیر میں امریکی اڈے کے قریب لگنے والی جنگل کی شدید آگ میں بھی انسانی ہاتھ ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔

ترکی کے لیے یہ سب کچھ بہتر نہیں ہے۔ اس وقت عوام کی بھاری اکثریت صدر ایردوان کی حمایت کر رہی ہے اور راتوں کو بھِی سڑکوں پر ان کا گشت جاری ہے لیکن خوف و ہراس اور بے روزگاری کی فضا جلد ہی صدر ایردوان کے خلاف ایک نمایاں عوامی لہر پیدا کر سکتی ہے۔ دوسری طرف جس طرح نچلے درجے کے اور اعلی درجے کے فوجیوں کے ساتھ سلوک کیا جا رہا ہے، اور فوج کی تطہیر کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، وہ بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ فوج بھی ہاتھِی کی مانند ہوتی ہے اور اپنی توہین کو نہیں بھولتی ہے۔ ایسے میں اگر اب فوجی قیادت کی طرف سے دوبارہ کوئی بغاوت ہوئی تو وہ مصری فوجی بغاوت کی طرح پرتشدد اور خونی ہونے کا اندیشہ ہے، اور اس صورت میں اسے امریکہ اور یورپ کی حمایت بھی حاصل ہو گی جنہیں صدر ایردوان اپنے دشمنوں کی صف میں کھڑا کر رہے ہیں۔

اب ترکی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ صدر ایردوان اپنی انتقامی روش چھوڑ کر تاریخ میں مصری صدر السیسی کی بجائے جنوبی افریقی صدر نیلسن منڈیلا کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں  اور ترکی دوبارہ امن و آشتی کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع کرے۔

انجیل مقدس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی گرفتاری کا واقعہ مرقوم ہے۔ جب غدار حواری یہودا حضرت عیسیؑ کی گرفتاری کے لیے سپاہیوں کو لایا، تو ان کے ایک حواری نے اپنی تلوار بے نیام کی اور گرفتار کرنے والوں پر حملہ کیا۔ حضرت عیسیؑ نے اسے کہا ’اپنی تلوار نیام میں واپس ڈالو کہ جو تلوار اٹھاتے ہیں، وہ تلوار سے ہی مرتے ہیں‘۔ دعا یہی ہے کہ صدر ایردوان بھی اپنی تلوار وقت پر ہی نیام میں واپس ڈال لیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments