سعودی عرب اوراسرائیل کی بڑھتی قربتیں


\"tanveerعرب بہار سے قبل آل سعود اورامریکہ کا عشق ہمالیہ کی بلندیوں سے بھی اونچا تھا دونوں ایک دوسرے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ وقت گزرا حالات بدلے۔ صدر مرسی اور اخوان کی حکومت نے سعودی عرب کے لئے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ بادشاہت کو شدید خطرات میں گھرا دیکھ کر شاہ نے امریکہ بہادر سے آس لگائی۔ مرسی کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ بہادر بھی خوش نہیں تھا۔ بس پھر کیا تھا نظریات پس پشت ڈال دیئے گئے مفاد غالب آیا۔ مصر میں اخوان کو دیوارسے لگا دیا گیا۔ یمن میں مفادات کی جنگ میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ اب تک پاکستان کو ایک غلام سے بھی کم تر سمجھنے والے سعودی شاہ پاکستانی انکار پر تلملا اٹھے۔ دھونس دھمکیاں کارگر نہ ہوئیں تو امام کعبہ کو پاکستان روانہ کیا۔ اسلام کی آڑمیں اپنی آمریت نما بادشاہت کو بچانے کی درخواستیں کی گئیں۔ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کو کچھ عرصے کے لئے خاموش رہنے پر آمادہ کر لیا۔ اب خطے میں ماضی کی سعودی ہمنواء اخوان المسلمون کا کردارگھٹ چکا ہے۔ ایران نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ ایران کا کردار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ شام، عراق، یمن، لبنان سمیت دیگر عرب ریاستوں میں ایران پوری طرح سرگرم ہے۔ ایران کی پروپیگنڈہ کی صلاحیت سعودیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ امریکہ بہادر بھی ایرانی اثرورسوخ کو بھانپ چکے ہے اس لئے درپردہ محبت کو منظر عام پر لانے کی تیاریاں ہیں۔

سعودی عرب متوقع \”بریک اپ\” سے پریشان ہے۔ ان تمام الجھنوں میں سعودی عرب کوامریکہ کے پیارے، برطانیہ کے راج دلارے، فرانس کے چہیتے اور یہودیوں کے ان داتا بنی اسرائیل ہی واحد امید نظرآئے۔ لہذا سعودی تھنک ٹینک نے اللہ اور رسول کے دشمنوں، بیت المقدس کے قابضوں، فلسطینیوں کے قاتلوں، کعبہ تک توسیع پسندانہ نظریہ رکھنے والوں سے عشق کی ابتداء کی۔ گو کہ یہ پہلی نظر والا پیار نہیں ہے۔ لیکن اس نے نظریاتی ریاست کی قلعی کھول دی اور واضح کیا کہ ریاست مفادات کے تابع ہوتی ہے نظریات کے نہیں۔ ویسے بھی اسرائیلیوں کی عظمت اورمدحت میں بہت جلد سعودی علماء فتاویٰ اور کتابیں لکھیں گے اور ماضی کے گناہوں سے توبہ کی جائے گی۔ اب پیار کیا ہے تو نبھانا بھی پڑے گا۔ یہ محبت دورتک چلے گی کیوں کہ برسوں کے بچھڑے ملے ہیں پیاس اتنی جلدی تو بجھنے سے رہی۔ خطے میں اسرائیل عرب تعلقات دوررس اثرات مرتب کر سکتے ہیں فلسطینیوں کو اپنی جدوجہد پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ پاکستانیوں کو بھی خادم حریمین شریفین کی عظمت و رفعت کا جائزہ لینا ہوگا۔ ترکی اس سے پہلے ہی اسرائیل سے دل دلگی کر چکا ہے۔ پاکستان بھی مشرف دور میں کچھ کچھ ہوتا ہے کی طرح اسرائیل سے آنکھیں چار کرچکا ہے۔ اب موجودہ حکومت کو بھی اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پرائے پھڈے میں ٹانگ کب تک اڑانی ہے۔ بہرحال یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی کہ مفاد سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے اور مختلف ممالک میں جہاد کا علم بلند کرنے والوں کو بھی ضرور سوچنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ عین فتح کے موقع پر پتا چلے کہ \”بڑوں\” نے صلح کرلی ہے لہذا مجاہدین واپس آجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments