کیا صرف قندیل بلوچ ہی غیرت کے نام پر قتل ہوئی؟


افضال احمد

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ قتل ‘ غیرت اور عورتوں پر تشدد کے مجرموں کی \"afzaalمعافی کا سلسلہ ختم کرے۔ ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ قندیل بلوچ کے اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں المناک قتل نے عورتوں اور مردوں کو خاندانی ناموس کے نام پر کئے جانے والے جرائم سے تحفظ کے لئے فوری عمل کی ضرورت کو نشان زدہ کر دیا ہے۔ ایمنسٹی نے پنجاب حکومت کی جانب سے قندیل بلوچ کے مقدمہ قتل میں قتل غیرت کی شق شامل کرنے کو سراہا ہے جس کے تحت اب ان کے خاندان کو مجرم کو قانونی طور پر معاف کرنے کا حق نہیں رہے گا یہ تو تھی قندیل بلوچ کے بارے میں چند باتیں خدا تعالیٰ قندیل بلوچ کی مغفرت فرمائے۔ قندیل بلوچ تو ایک مشہور ماڈل گرل تھی جس کے قتل کا شور پوری دنیا میں گونج گیا بات یہ ہے کہ قندیل بلوچ کے علاوہ ہمارے پاکستان میں عام گھرانوں کی لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہیں ہمیں اس بڑھتے ہوئے غیرت کے نام پر قتل کی جڑ تک پہنچنا چاہئے یاد رہے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے اور 2015ءمیں 1166 سے زائد خواتین کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس بارے میں میرے چند خیالات ہیں. بہت سے لوگ مجھ سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں ۔

غیرت کے نام پر قتل کی ایک وجہ ”شادی“ دیر سے کرنا بھی ہے۔ اللہ نے انسان میں جنسی خواہشات رکھی ہیں‘ یہ خواہشات فرشتوں میں نہیں ہیں‘ ابن آدم میں اللہ نے جنسی خواہشات رکھی ہیں‘ جب انسان کی جنسی خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو انسان اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے اِدھر اُدھر منہ مارتا ہے ‘یہ وہ خواہش ہے جس کی طلب پوری کرنے کیلئے انسان حد سے گزر جاتا ہے اور آج کل تو جنسی خواہشات پوری کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں ۔ ہم لوگ اسلام سے دور ہو چکے ہیں اسلام میںحکم ہے کہ بیٹی کے جوان ہوتے ہی اس کی شادی کر دو لیکن آج کل بیٹیوں کو والدین گھروں میں بیٹھا دیتے ہیں اچھے رشتوں کی تلاش کرتے کرتے بیٹیوں کے سر پر چاندی اُتر آتی ہے پھر یہی ماں باپ اپنی بیٹی کی عمر چھپاتے پھرتے ہیں اور لڑکے والوں کو اپنی بیٹی کی عمر کم بتاتے ہیں تا کہ رشتہ ہو جائے یہی اگر والدین پہلے سمجھداری سے کام لے لیں تو جھوٹ نہ بولنا پڑے اور جو رشتہ جھوٹ کی بنیاد پر جوڑا جائے گا اُس رشتے کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔

ایک باپ اپنی بیٹی کو بہت پیار کرتا ہے ہر خواہش پوری کرتا ہے لیکن اُس کی جوانی کو بھول جاتا ہے کہ اب بیٹی جوان ہو گئی ہے اب اسے شوہر کی ضرورت ہے لیکن نہیں بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے چکر میں بوڑھا کر دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں نہ کہ اگر تیار فصل کو ٹائم سے کاٹا نہ جائے تو وہ فصل انسانوں کی خوراک تو نہیں بنتی لیکن جانوروں کی خوراک ضرور بن جاتی ہے۔ یہی مثال ہے ایک نوجوان لڑکے‘ لڑکی کی اگر ہم ان کی شادیاں ٹائم سے نہیں کریں گے تو انہوں نے تو اپنی خواہشات کی بھوک مٹانے کیلئے جانوروں سے رابطے کرنے ہیں۔ جب بیٹی بھاگ کر شادی کر لے تو ہم اسی لاڈلی بیٹی کو قتل کر دینے تک آجاتے ہیں ‘ ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی کو اتنے ناز سے لاڈ سے پالا ہے ایک پل میں یہ کسی بیگانے لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلی تو اس میں ہماری اپنی غلطیاں ہیں ہم اُس کی جوانی کے تقاضوں کو سمجھ لیں تو پانی سر سے نہ گزر پائے۔

ہم نے اپنی اُولاد کا ذہن بنا دیا ہے کہ تمہاری شادی تو 32سال کی عمر سے پہلے ہو نہی سکتی تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ لڑکے لڑکیاں ساری ساری رات موبائل پر بات کرتے ہیں‘ سب لڑکی لڑکوں کو پتہ ہے ہماری شادی تو بہت دیر سے ہونی ہے تو چلو موبائلز پر دل بہلا لیں‘ موبائل پر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ شیطان بھی حیران رہ جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک میں۔ میرا خیال ہے کم عمر میں ہونے والی شادیاں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کی عمر زیادہ ہوتی ہے تو مسائل زیادہ جنم لیتے ہیں، ان کے اندر کمپرومائز کی قوت کمزور ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ پروفیشنل لائف میں آجاتی ہے۔ ان کی ساخت کچھ اس طرح بن جاتی ہے کہ اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہتی ہیں۔ آپ اگر کسی کو حلال کھانا نہیں دیں گے تو وہ حرام ہی کھائے گا۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جناب! پہلے ایم بی بی ایس ہو جائے ڈاکٹر بن جائے ملازمت پر لگ جائے‘ کچھ کما لے، اپنا مکان ہو جائے‘ اس کے بعد شادی کریں گے۔ آپ خود سوچیں عمر کہاں تک پہنچ گئی ہو گی؟ اب ایک نوجوان جوانی کے زمانے میں کیا کرے گا؟ 18سے 20 سال کے نوجوان پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے وہ بعض اوقات اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لئے آخری حدوں کو پار کر دیتے ہیں۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے ہم لوگ اپنے بچوں کو کپڑے اچھے پہناتے ہیں، کھانے پینے پر بہت خرچ کرتے ہیں، لیکن ان کی جنسی ضرورت حلال طریقے سے پوری کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتے جب زندگی کا طویل عرصہ بیت جائے، تب انہیں دُلہا اور دُلہن بنا دیتے ہیں اور اس وقت ان کی جوانی کو گہن لگ چکا ہوگا ہے۔ پھر پتہ چلتا ہے ان میاں بیوی میں سے کوئی ایک ایسا ہے جو جوانی کو غلط استعمال کر چکا ہے اب بچہ پیدا نہیں کر سکتا تو پھر طلاقیں جنم لیتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے شادی کے بعد بھی میاں بیوی ایک دوسرے سے سکون حاصل نہیں کر سکتے تو وہ شادی کے باوجود دوستیوں میں ٹائم گزارتے ہیں اِدھر اُدھر سکون ڈھونڈتے ہیں۔ یہ ساری وجہ دیر سے شادی کرنے کی ہے۔اب دُلہا ڈاکٹر تو بن گیا لیکن اپنی جوانی تو واپس نہیں لا سکتا نہ ‘ دُلہن سکول کی پرنسپل تو بن گئی لیکن جوانی اُسے کون لوٹائے گا؟ اب جب 32، 32 سال کی عمر میں نکاح ہو گا تو ایوریج زندگی انسان کی آج کل 45-50 رہ گئی ہے یہ بھی زیادہ بتا رہا ہوں تو آپ خود بتائیں اس عمر میں شادی ہو گی تو ان کے بچے یتیم اور مسکین نہ ہوں گے؟ ہمارے ملک میں بیروزگاری کیوں ہے؟ چائلڈ لیبر کیوں ہے؟ چوری چکاری کیوں ہے؟ برائی کے اڈے کیوں آباد ہے؟ ان سب کی وجہ دیر سے شادی کرنا بھی ہے۔ آپ اپنے اِردگرد کے گھروں میں یتیم ، مسکین بچوں کو ضرور دیکھیں اُن کی یتیمی مسکینی کی وجہ پوچھیں ‘ غور کریں تو 80 فیصد یہی وجہ نکلے گی۔

تعلیم کو ہم نے آج کل پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے ہم شعور تعلیم سے حاصل نہیں کر رہے ‘ ہمیں شعور دنیا کی ٹھوکریں دے رہی ہیں‘ تعلیم ہم صرف پیسہ کمانے کیلئے حاصل کر رہے ہیں‘ ہم بچوں کو پیدا ہوتے ہی کہہ دیتے ہیں تم زیادہ پڑھو گے زیادہ پیسہ کماﺅ گے ‘ اپنا گھر بناﺅ گے پھر اچھی جگہ شادی ہو گی‘ شعور نہ ہم خود اپنی اُولاد کو دیتے ہیں نہ تعلیم سے حاصل کرنے دیتے ہیں۔”علم حاصل کرو محد سے لحد تک“ یہ تو سب نے سنا ہو گا تو اگر ہم اسے اپنی شادیوں پر اثر انداز کریں تو پھر تو ہمیں پیدا ہونے سے مرنے تک تعلیم ہی حاصل کرنی چاہئے شادی تو نہیں کرنی چاہئے؟ ارے بھائی تعلیم اپنی جگہ چلتی رہتی ہے پیسہ اپنی جگہ کمایا جاتا ہے شادی اپنی جگہ کی جاتی ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر مرد بوڑھے ہو کر نوجوان لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں جو کہ اپنی بیوی کی خواہشات کو پورا نہیں کر پاتے جن کی بیویاں گھروں سے باہر جا کر اپنی خواہشات کو پورا کرتی ہیں یاد رہے کہ میں ہر بیوی کی بات نہیں کر رہا ہوں بہت ساری ایسی بھی دیکھی ہیں جو صبر سے کام لیتے ہوئے پوری زندگی گزار دیتی ہیں‘اور جب خاوند کو ایک دن پتہ چل جاتا ہے کہ میری بیوی کیا گل کھلا رہی ہے تو وہ اپنی بیوی کو ”غیرت کے نام“ پر قتل کر دیتا ہے۔ برائے مہر بانی اس میں جو بات چھپی ہے وہ آپ سب سمجھیں۔ پیسے کو اپنا دین ایمان نہ بنا لیں اپنی اولاد کی ان خواہشات کو بھی مد نظر رکھیں۔ 2015ءمیں 1166 سے زائد خواتین کا قتل کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ غیرت کے نام پر قتل و غارت کر کے تھک تو جائیں گے لیکن انسانی خواہشات انسان کو ورغلاتی رہیں گی۔

ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی تا کہ ہم اسلامی ملک میں اسلامی طرز سے زندگی گزار سکیں لیکن اب ہم خود انگریز کے پیچھے لگے ہوئے ہیں انگریز تو روز جنسی خواہشات پوری کرنے کے مختلف ذرائع ہمارے ملک میں پھینک رہے ہیں جن کے استعمال سے ہماری نوجوان نسل اندر ہی اندر سے ضائع ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف روز انگریز کوئی نئی ڈگری ایجاد کر دیتا ہے تا کہ مسلمان پیسہ کمانے کے چکر میں ڈگریوں میں پھنسیں رہیں اور شادیوں میں دیر ہو اور یہ بچے پیدا کرنے کی عمر گزار دیں اور بچے پیدا نہ ہوں ، ہمارے والدین بڑے فخر سے بتاتے ہیں ہماری بیٹی‘ بیٹے نے یہ ڈگری حاصل کی ہے یہ نہیں پتہ کہ اب ڈگریاں حاصل کرتے کرتے جوانی ضائع کر چکے ہیں۔ یہ سب نسل کشی چل رہی ہے ہمارے ملک میں مسلمانوں کو ختم کرنے کی بہت بڑی سازش ہے آج کل ہر تیسرا شادی شدہ جوڑا ایسا ہے جس کے ہاں اُولاد نہیں ہوتی آپ غور کریں اپنے اردگرد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments