سیاست: کھیل، کھلاڑی اور عوام


\"muhammadسیاست کو کھیل ماننا مشکل ہے مگر منظر کھیل کے جیسا ہی لگتا ہے۔ اس عمل سے تھوڑی سی دوری اس کے کھیل والے تصور پہ مہر لگا دیتی ہے۔ اس کا میدان کبھی پہلوانوں کے دنگل کا اکھاڑا بن جاتا ہے، کبھی شطرنج کے مہروں سے چلی چال، کبھی کرکٹ کی اصطلاحات کے استعمال سے فاتحانہ للکار، دائو پیچ جیسے جنگی الفاظ سے اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسا امر نہیں کہ خواہ مخواہ لوگ ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ یہ ایسا لگتا ہے، ایسا ہوتا ہے یا ایسا سنا جاتا ہے تبھی اسے کھیل مانا جاتا ہے۔

لوگ اپنے سیاسی نمائندوں پہ اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یقیناََ یہ نہیں ہو سکتی کہ سیاست بطور کھیل کھیلی جائے نہ کوئی شاہانہ مزاجی کی نمائش دیکھنا مقصد ہو سکتا تھا کہ جس کے بل بوتے پر عام آدمی کی بستیوں میں بڑی بڑی گاڑیوں پہ سوار افراد کا قافلہ رکے، بچے پل بھر کے لئے خالی جیبوں کو ٹٹولیں، کھلے منہ دیکھیں اور بستی کے بڑے گاڑی سواروں کو باوجود اجنبیت کے ہاتھ ہلا دیں۔ اسے دو جواز فراہم ہوتے ہیں اول یہ کہ تکریم کا ایک انداز کہئے جو آنے والے مہمانوں کے لئے مخصوص ہے یا پھر محرومی اور غلامی کی تربیت کہئے جس کے طفیل ہر \”سوار\” کو خود سے اعلیٰ سمجھا جاتا تبھی سواری کا اختیار سونپا جاتاہے۔ اگر دوسرے جواز میں جان ہے تو پھر اس سے ڈرنا چاہئے بجائے اس کے کہ مطمئن ہوں۔ یہ بے بس لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایوان میں قانون سازی ہو گی جو ہمارے اور ہماری نسل کے مستقبل کو بدلے گی۔ ہماری تکلیفیں کم ہوں گی۔ کیا ان توقعات کی کوئی اہمیت ہے؟ یہ سوال بہت پیچیدہ نہیں مگر یہ الگ معاملہ ہے کہ اس کے جواب سے ہم انکاری رہتے ہیں۔ اس گپ شپ اور اصطلاحاتی زبان سے عوام کا کیا لینا دینا، مگر ہمارے میڈیا نے سیاست پہ طنز کی ایک طرح اپنائی جسے قبول عام کا شرف ملا اور اب اس طرح کو باقاعدہ سند یافتہ پروگرامز کی حیثیت حاصل ہو گئی۔

سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ چور سپاہی کھیلنے سے عوام کو کیا حاصل؟ \” تم چور ہو، \” نہیں تم چور ہو\”، \” تم فلاں ہو \”، \”نہیں تم فلاں ہو \”۔ عوام کی روز مرہ مشکلات کا کوئی حل نکلے تو وہ جانیں کہ انتخابی عمل کا عام آدمی کی زنگی کے ساتھ کوئی مثبت تعلق ہے ورنہ کوئی اسے گنگا میں نہلائے یا زمزم کا غسل دے عوام کے ساتھ سیاست کا خوشگوار رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت سے انکار کی عوام کی اکثریت اب بھی قائل نہیں مگر البتہ وہ جمہوریت کے کھلواڑ سے ضرور نالاں ہیں۔ جب مایوسی ہو گی اور لوگوں کے مسائل نہ صرف جوں کہ توں رہیں گے بلکہ بڑھیں گے تو لوگ \”جمہوریت\” کو تقدیس کا درجہ نہیں دے سکیں گے۔ اس مروجہ سیاست کی صحت پہ سوال اٹھتے رہیں گے۔ مغربی حکومتوں کے حوالے دے کر ہمارے سیاست دان یہ تا ثر تو دے سکتے ہیں کہ وہاں فلاحی ریاستیں قائم ہیں مگر یہاں وہ اقدار کیوں نہیں پنپ سکتیں اس کی وجوہات کو اپنے رویوں اور ان کی بدولت قائم کی گئی ترجیحات میں تلاش کرنا پڑے گا۔

جنہیں بر صغیر سے بے دخل کرنے کی جدو جہد کی گئی آج ہمارے بیشتر کام اسی سلطنت برطانیہ میں انجام دئے جاتے ہیں۔ سیاسی مشاورت سے لے کر طبیعت کے ناساز ہونے تک کی تدابیر وہیں ممکن ہو تی ہیں۔ مثالیں ہم اسلامی تاریخ سے ان ہستیوں کی ڈھونڈ کے لاتے ہیں جنہوں نے قیادت کے منصب کو سنبھال کر سادہ زندگی کی روایت قائم کی۔ جبکہ یہاں ان کی طرز پہ حکومتوں کو چلانے کا دعوی کر نے والے اپنے انداز عالیشان کو بر قرار رکھنے میں کسی قسم کی کوتاہی گوارا نہیں کرتے۔ تو پھر ان شخصیات کا ذکر کرنے میں تھوڑی سی \”لجاجت\” تو بنتی ہے، مگر کتنے اکڑے سینے لے کر ہم ان کا ذکر کرتے ہیں۔

 جبکہ جن سے مینڈیٹ لے کے ایوان اقتدار میں قدم رنجا فرماتے ہیں ان کے لئےبنائے گئے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پہ انہیں کوئی فکر لاحق نہیں اور وجہ یہ ہے کہ ان کا علاج تو وہاں ہوتا نہیں اور جن کا ہوتا ہے ان کو کوئی نہ کوئی دلاسا یا کوئی نیا \”نعرہ\” دے دیں گے۔ سرکاری ہسپتال میں وسائل کی کمی کے سبب سہولیات عدم دستیاب ہیں اور یہ امور سلطنت کی فکر میں دن رات ڈوبے ہیں۔ اب یہ کیا کر رہے ہیں کسی کو معلوم نہیں کیونکہ نتائج جو بر آمد ہو رہے وہ تشفی نہیں کر رہے۔ شاید کہیں اندر خانے جمہوریت کے قیام اور استحکام کی کوئی کو شش ہو رہی۔ اس شدید گرمی میں صحت کے مراکز میں لو ڈشیڈنگ کے دوران بجلی کا متبادل ذریعہ یعنی \”جنریٹر\” ایندھن کی فراہمی نہ ہونے کے سببب کم ہی چلتا ہے، اینٹی بایئوٹیک دوائیوں کی اکثر قلت رہتی ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ وہ ہسپتال کے باہر سے ملتی ہیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اندر سے کیوں نہیں ملتیں؟ اس سوال پہ بھلے یہ لاکھ ٹال مٹول پیش کریں، اسے ناکامی ہی سمجھنا چاہئے اور یہ \”میں نہ مانوں\” کی ضد پہ چاہے اڑے رہیں۔ ان کی تربیت کا عالم یہ ہے کہ چیک اپ یا ایگزامینیشن پروٹوکول سیٹ کرنے کے بھی وسائل نہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کو لمحے بھر کے لئے ملکی منظر سےخارج کریں تو ان کی سیاست اور خدمت کا پول کھل جائے۔۔ کافی بڑا بوجھ ان نجی ہسپتالوں نے برداشت کیا ہوا ہے. کیا یہ ذمہ داری سٹیٹ کی نہیں ہے یعنی ان نمائیندوں کی معرفت اس کا مینڈیٹ حکومت کو نہیں ملا اور حکومت اس پہ عوام کو محض تسلیاں دے رہی ہے۔ ہسپتالوں میں\” ہاتھ والی پنکھیوں\” سے بیماروں کی تیمارداری ان کے خاندان والے کر رہے ہیں. ایک ہسپتال میں\” پینک اٹیک\” کی مریضہ کو لے جایا گیا تو ہسپتال عملے نے بغیر پنکھے کے اسے ابتدائی طبی امداد دی. اب سانس لینے میں اسے دشواری ہو رہی تھی مگر پنکھا نہ ہو نے کے سبب اس کی حالت مزید بگڑتی گئی۔ آکسیجن کی فراہمی نہ ہونے کے سبب کم سن بچوں کے دم گھٹنے کی وجہ سے مرنے جیسے واقعات گویا کامیاب سیاست کی دلیل ہیں۔ عام آدمی کی موت صرف اخبار کی توجہ اور اس پہ ان ارباب اختیار کا نوٹس، یہ بھی ایک خاص طرح کا ڈھنگ ہے مقبولیت حاصل کرنے کا۔

 تعلیم میں ابھی یہی طے نہیں ہو سکا کہ اس کا کوئی ایک رنگ ہونا چاہئے یا رنگ برنگی تعلیم اس قوم کے لئے ضروری ہے،( یعنی مختلف طبقات کے لئے الگ الگ ماحول، الگ نصاب اور الگ اساتذہ ) اس وقت بھی ہمارے ہاں کوئی تین سے چار قسم کے ظاہری نظام چل رہے۔ ایک سرکاری سطح پہ، ایک درمیانے طبقے کے کم فیس والے پرائیویٹ سکولز، اعلیٰ طبقات کے مہنگے پرائیویٹ سکولز اور پھر مذہبی طرز کے سکولز جن میں عصری علوم کے ساتھ مزہبی تعلیم کی فراہمی بھی منتظمین کا دعویٰ ہے۔ اب ان کے ہی قائم شدہ تعلیمی مقاصد کو اٹھا کے دیکھا جائے کہ امتحانی نمبروں کے علاوہ کیا یہ سب ادارے قابل اطمینان کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ کیا رسمی تعلیم کے ساتھ برداشت اور عدم تشدد کی تربیت بھی جاری ہے۔ کیا یہ سب لوازمات ہمارے نصاب کا جزو ہیں؟ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس میں وجہ صرف \” استاد \” نہیں بلکہ وہ پورا نظام ہے جس نے تعلیمی تر جیح کو کبھی واضح ہو نے نہیں دیا۔ اس صورت حال میں اگر کوئی یہ تو قع کرتا ہے کہ سرکاری سکول یا درمیانے درجے کے پرائیویٹ سکولوں سے فارغ التحصیل، اعلی فیس کے پرائیویٹ سکولوں کے طلبا و طالبات سے مقابلہ کریں گے تو یہ زیادتی اور انتہائی ناجائز تصور ہے۔ در حقیقت مختلف اداروں میں پڑھنے والے بچے ایک نئی آزمائش سے دو چار ہونے والے ہیں۔ پڑھنے لکھنے کے علاوہ دیگر شخصی مہارتیں ہیں جو جدید دنیا کی معاشی میدان میں تربیت یافتہ ہنر مندوں کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے معاون ثابت ہوں گی۔ گویا اب صرف کتابوں کی رٹائی سے کام نہیں چلے گا بلکہ اپنے اندر ان شخصی صلاحیتوں کو بھی فروغ دینا پڑے گا جو کسی بھی رسمی پڑھے لکھے نوجوان کو کسی اضافی خوبی کا مالک بنائیں گی۔ جیسے خود کو کسی اعتبار سے منفرد ثابت کرنا۔ نصاب میں نت نئے تجربات ہو رہے اور بہتری صرف اعداد و شمار کے فرق کی شکل میں ہی نظر آرہی۔

حکومی یا حکومت مخالف پارٹیوں کا مطمح نظر جو بھی ہو مگر اس کے نتائج عوامی حق میں ہونے چاہئے تھے مگر ایسا ہونے کے آثار نطر نہیں آتے۔

سیاسی خطابات میں اقدمات کی گنتی سے زیادہ ان کو یقینی بنانے کے مراحل سے گزرنا چاہئے۔ عام آدمی کی کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کرے یا پھر نجی اداروں میں صحت و تعلیم جیسی سہولیات کو خریدے۔ سرکاری اداروں میں فقدان جو واضح نظر آتا ہے مگر اس طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی اور نہ اس میں ناکامی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ خیر اعتراف میں تو ہم بحیثیت قوم کافی ڈھیٹ واقع ہو ئے ہیں۔ اور یہ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی بھی ہمیں یہ باور نہ کراسکی کہ وہ قومیں جو اپنے گزشتہ عہد کی سختیوں کو مد نظر نہیں رکھتی اور تواتر سے غلطیوں پہ قائم رہتی ہیں ایسی مستقل مزاجی انہیں ترقی کی بھنک نہیں لگنے دیتی۔

ہر دفعہ تجربات کی نذر ہونے والے قومی منصوبے جن پہ اربوں روپے لاگت آتی ہے ان کی مشہوری ہوتی ہے مگر عام آدمی کی زندگی کی تلخیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ صحت، روز گار اور تعلیم کے ساتھ اب بڑھتا ہوا عدم تحفظ جو شاید پہلے بھی موجود تھا مگر اس حق کی کھلی پامالی نے خوف میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب لوگ بچوں کی تعلیم، تربیت اور روزگار و صحت کے ساتھ ان کی زندگی کے بارے میں بھی بے چین رہتے ہیں۔ ریاست کی طرف اٹھی نگاہیں ابھی تک جھکی نہیں ہیں۔ لوگ اب بھی پر یقین ہیں تبھی وہ تبدیلی کا نام سن کے کھل اٹھتے ہیں۔ مگر یہ عوامی جزبات سے کھیلے جانے کی رسم کو اب چھوڑنا پڑے گا، وعدوں اور دعووں سے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ ان سیاست دانوں کو سنجیدہ اور کار آمد سیاست پہ لوگوں کے دئے ہوئے اعتماد کو درست ثابت کرنا پڑے گا۔ یہ بات طے ہے کہ عوام جب مایوس ہوتی ہے تو ہر قسم کے معروضی حالات کو لمحوں میں بدلنے کی قدرت رکھتی ہے۔ عوامی نبض پہ جتنا بھی ماہر نبض شناس کا ہاتھ ہو اس نبض کو درست پڑھنے کی قابلیت کا دعویٰ ہر مرتبہ درست نہیں ہوتا۔ سیاست کو کھیل اور محض جنگ جیسے القابات سے آزاد کرا کے اس کی طاقت کو عوامی مسائل کے چھٹکارے کے لئے استعمال کرنے میں دیر نہین کرنی چاہئے۔ وقت مٹھی سے سرکتی ریت ہے۔ اسے دھیان میں رکھ کے ہی اس کی قدر کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments