حکومتی ترجیحات: متعفن بدن اور اجلا پیرہن


\"rai-hussain-kharal\"

داغ داربدن کو تو اجلا پیرہن ڈھانک لے گا۔ مگر سوچ کو کون سا پہناوا پہنائیے گا؟ ذرا ٹھہریے پہلے دو خبریں ملاحظہ فرما لیجئے تا کہ بات کی تفہیم میں آسانی رہے۔ نتھیا گلی مری کے سمر کالج کی اکتالیسویں افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب صدر مملکت فرماتے ہیں کہ ’ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہونے کے لئے جدید سوچ اپنانی ہو گی۔ سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ سے ہی ترقی ممکن ہے‘۔

دوسری خبر لاہور سے ہے۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی کے زیر اہتمام ہونے والے انٹری ٹیسٹ میں پانچ ہزار پانچ سو سیٹوں پر اکتالیس ہزار امیدوار شریک ہوئے۔ یعنی اکتالیس ہزار میں سے مقدر کے سکندر پانچ ہزار پانچ سو قرار پائیں گے۔ حالانکہ صدر مملکت قائل ہیں کہ ’ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہونے کے لئے جدید سوچ اپنانی ہو گی۔ سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ سے ہی ترقی ممکن ہے۔‘

ذرائع مواصلات کی بدولت اگر نسل نو میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان پنپ ہی رہا ہے تو خدارا اسے ’نندیا پورکی حور‘ تو نہ بنائیے کہ جس تک رسائی ممکن ہی نہ ہو۔ شمع علم کے پروانے اگر انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ جائیں تو یقیناً دہشت گردی ہے۔ لیکن ملک میں یونیورسٹیوں کی کمی کی وجہ سے بلند ہوتی میرٹ لسٹ اور نجی تعلیمی اداروں کی بھاری بھر کم فیسیں اگر طالب علموں کے ارمانوں کا قتل کریں تو اسے کیا نام دیجیے گا اور ذمہ دار کسے ٹھہرائیے گا۔

حصول تعلیم کے ذرائع کے گرد تاحد نگاہ بلند ہوتی اخراجات کی فصیل کو کیا کشادہ سڑکوں اور آرام دہ ذرائع آمد و رفت کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے ؟ مگر افسوس کہ نمایاں نظر آنے اور جلد ازجلد نتیجہ خیز ہونے والے کام ہی ہمارے حکمرانوں کے ہاں ہمیشہ ترجیح اول رہے۔ جبکہ تعلیم پر اٹھنے والا خرچ تو قوم کے مستقبل پر سرمایہ کاری ہے اور یہاں کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔

ہمارے حکمرانوں کا تعلیم ایسے اہم شعبہ کے ساتھ روا رکھاجانے والا رویہ تو ملاحظہ ہو۔ مرکزی حکومت اس اہم شعبے کے لئے مختص کرتی ہے تو فقط 23 ارب۔ جبکہ غریبوں کی عزت نفس کو یوبی ایل کی اے ٹی ایم میں گروی رکھنے والے منصوبے، بینظر انکم سپورٹ ایسے فضول اور کرپشن کی آماجگاہ پروگرام کے لئے 105ارب روپےمختص کیے جاتے ہیں۔ ملکی دفاع کے لئے تو ہمارے ہاں ہمیشہ ہی سے خزانوں کے دہانے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک مناسب سمجھ بوجھ کا آدمی بھی جانتا ہے کہ اب جنگیں صرف اور صرف ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر لڑی اور جیتی جائیں گی۔ اور ٹیکنالوجی مرہون منت ہے اعلی تعلیم و تحقیق کی۔

سائیں قائم علی شاہ خیر پور میں آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان فرماتے ہیں اور ’ پورے بارہ لاکھ روپے‘ اس منصوبے کے لئے مختص کرتے ہیں۔ پرائمری سکول کی عمارت جس ’خطیر‘ رقم سے بن نہیں سکتی۔ ’سائیں حکومت‘ اس رقم سے آئی ٹی یونیورسٹی بنانے چلی ہے۔ بھٹو ایسے عوامی لیڈر کی جماعت کی زبوں حالی بھی دیکھا کرے کوئی۔ جماعت کی قیادت کرنے کو بالکے اور حکومت چلانے کو میسر ہے تو ’پیر فرتوت‘ (بوڑھے بابے)۔

کوئی ڈیڑھ سال ہوتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف سے گاؤں ڈیرہ چاہل بیدیاں روڈ لاہور کے نواح میں ساڑھے آٹھ سو ایکڑ اراضی پر مشتمل منصوبے نالج سٹی کا اعلان کیا گیا اور منظوری دی گئی تھی۔ جس کی تعمیر کے لیے گزشتہ سال دنیا کی 7 بڑی اور عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں سے معاہدوں پر باقاعدہ دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ منصوبے کو تین سال میں مکمل کیا جانا تھا، لیکن آج ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود نالج سٹی کا یہ منصوبہ میاں صاحب کی نظر التفات کا منتظر ہے۔

حالانکہ منصوبے کا اعلان کرتے وقت میاں صاحب کا کہنا تھا کہ ’نالج پارک منصوبہ سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی،اعلیٰ معیار کی تعلیم او ردیگر جدید علوم کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی تعلیم کے فروغ کے لئے یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، منصوبے کے لئے آئندہ تین برسوں کے لئے 21 ارب روپے مختص کرتے ہیں، پنجاب حکومت اپنے وسائل سے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لئے ہر سال 7 ارب روپے فراہم کرے گی اور منصوبے کے لئے تمام ضروری امو ر جلد سے جلد طے کئے جائیں گے۔‘ منصوبہ اگر میٹرو یا موٹروے کا ہوتا تو میاں صاحب کی چابک خرامی قابل دید ہوتی۔

ترجیحات کامسئلہ ہے نا بابا ترجیحات کا۔ جن قوموں کے ہاں تعلیم ترجیح اول ہوتی ہے ترقی ان کے در پر دست بستہ کھڑی نظر آتی ہے۔ ہم تو اچھے نقال بھی ثابت نہ ہوئے، ترقی کو صرف کشادہ شاہراہوں اور بڑے بڑے فلائی اوروں کی تعمیر میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔

ترجیحات کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اورقوموں کے لئے وہ آب حیات کیا ہے جسے پا لینے کے بعد انہیں ایٹم بموں سے بھی ختم نہیں کیا جاسکتا؟ وہ گر کر سنبھلتی ہیں اور سنبھل کر آگے بڑھتی ہیں۔ یہ جاننا ہو تو کبھی جاپانیوں کےحالات اور ان کی ترجیحات ملاحظہ کیجیے گا۔ جنہوں نے تعلیم کو گوہر مقصود جانا۔ جن کے ہاں یونیورسٹیوں کی تعداد صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام مسلم ممالک کی کل یونیورسٹیوں سے بھی زیادہ ہے۔ جو ایک ریلوے اسٹیشن کو بند کرنے کا فیصلہ واپس لے کر سال ہا سال صرف اس لئے اسٹیشن کو جاری رکھتے ہیں کہ وہاں سے گزرنے والی ٹرین ایک طالبہ کے لئے ہائی اسکول جانے کا واحد ذریعہ ہوتی ہے۔ ٹرین کی آمد و رفت کو طالبہ کے اسکول کے اوقات کار کے مطابق کر دیا جاتا ہے۔ ٹرین آکر اسٹیشن پر رکتی، طالبہ کو لیتی سکول پہنچاتی اور سکول سے واپس گھر۔ سال ہا سال اس ریلوے اسٹیشن کایہی واحد مصرف رہا،تاآنکہ اس طالبہ کی گریجویشن مکمل نہیں ہوگئی۔ یہی طریق ہے قوموں کےآگے بڑھنے کا۔ جبکہ ہمارے ہاں تعلیم اورصحت کبھی بھی ترجیح اول نہ رہیں۔ کیا بیمار وجود محض سوٹڈ بوٹڈ ہو نے سےصحت مند و توانا ہو جاتا ہے؟

جہاں گھوسٹ سکولوں کا چلن عام ہو۔ طبقاتی نصاب تعلیم کا دور دورہ ہو۔ سکولوں میں چھت میسر نہ ہو، تو کہیں پر فرنیچر اور کہیں پینے کو ٹھنڈا پانی۔ شمع علم کے پروانے کس مہ پرسی کے باوجود ایف ایس سی تک کی تعلیمی گھاٹیاں بڑی جانفشانی سے نہایت عمدہ انداز میں عبور کرآئیں۔ مگراعلیٰ تعلیم کے داخلی دروازے پر ہجوم عاشقاں کے باعث نامراد ٹھہریں ۔ پلٹ کر نجی درس گاہوں کا رخ کریں تو ان کی ’قاتلانہ ادائیں‘ (بھاری بھر کم فیسیں ) صرف ارمانوں ہی کی نہیں، بلکہ جانوں کی بھی قاتل ٹھہریں (بصورت خودکشی)۔ کیا بنیادی ضروریات سے تہی دست قومیں سہولیات پر مبنی منصوبہ جاتی عیاشیوں کی متحمل ہو سکتی ہیں ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments