ہم سب کے احساس محرومی کی قندیل


\"waqar15اور 16جولائی کی رات کو ابھی تک کی تحقیقات کے مطابق اپنے بھائی کے ہاتھوں گلا دبا کر ماری جانے والی سوشل میڈیا کی دلربا اور ٹی وی چینلوں سے تفنن طبع کا ذریعہ بنے والی قندیل بلوچ اب منوں مٹی تلے جا چکی ۔ قندیل جنوبی پنجاب کے انتہائی پسماندہ ، ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے صدرالدین شاہ کے ایک غریب اور مزدور گھرانے میں پیدا ہوئی ۔ وہ پاکستان میں اس طرح کے ماحول میں پلنے بڑھنے والی ہزاروں لاکھوں احساس محرومی کا شکار لڑکیوں میں سے ایک تھی ۔اسے گھر میں دال روٹی کے لئے بس کی ہوسٹیس (سفری میزبان)بھی بننا پڑا۔ قندیل ماں باپ کی حسب تو فیق خدمت بھی کرتی رہی ۔ یہ اس کی ماں کی محبت تھی کہ اس نے قندیل کی لاش کے ہاتھوں اور پاﺅں پر مہندی بھی لگائی ۔ یہ مہندی اس علاقے کی روایت کے مطابق ان عورتوں کو لگائی جاتی ہے جو بے گنا ہ مار دی جاتی ہیں ۔

قندیل میں فرق یہ تھا کہ اس نے جرات دکھائی اور گھر سے نکل کر کچھ کرنے کی جستجو کی ۔ وہ اس بات سے بے نیاز لگتی تھی کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے وہ اس معاشرے میں کس حد تک قابل قبول ہے۔ وہ اپنے مقصد کی لالچ میں بہت کچھ ایسا کرتی رہی جو اس کے نزدیک رائج الوقت تھا ۔لڑکی ہونے کے ناطے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے کرتے پاکستان کے سنسنی پسند میڈیا کے ہاتھوں لگ کر وہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹی وی سکرین کی بھی زینت بن گئی ۔ اور آہستہ آہستہ معاشرے میں قندیل کی طرح کہ احساس محرومی کے شکارلاکھوںلوگ اس کے دیکھنے والے/تماش بین (Fan)بھی بن گئے ۔وہ ایک خودرو بوٹی کی طرح تھی ۔ آٹھ جماعت پڑھی لڑکی نے اپنے احساس محرومی دور کرتے کرتے وہ دوسروں کی احساس محرومی سے کھیلنے کا سبب بن گئی ۔ ایسا لگتا ہے اس نے مشہوری کے لئے اپنا استحصال خود ہی کر ڈالا ۔وہ احساس محرومی کی قندیل تھی ۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا مقابلہ ایک ملا سے پڑگیا ہے جس کے پاس اس سے بھی بڑا ہتھیار مذہب اور غیرت ہے ۔ قندیل نے بہادری سے جوا کھیلا اور وہ ہار گئی ۔

وہ جب گانا گانے کے شوق میں آگے نہ بڑھ سکی تو اس نے خو د ساختہ ماڈل کا روپ دھار لیا ۔ اور پھر چند ہفتے قبل وہ عمران خان کی محبت میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ میں پہنچ گئی ۔ اور وہاں کے ہجوم نے قندیل کو اس کے عورت ہونے کا بھر پور احساس بھی دلایا ۔ اس کے بعد ٹاک شوز میں اس طرح کے احساس محرومی کے شکار خود ساختہ مفتی عبدالقوی کے ساتھ شرکت ہوئی۔ بحث مباحث ©ہ میں قندیل ، مفتی اور میڈیا ہاوس والے اپنی ریٹنگ کو چار چاند لگاتے رہے ۔ قندیل نے اس نام نہاد ملا کو پاکستان تحریک

 انصاف (احساس محرومی کے شکار لاکھوں لوگوں کی خواہشات پر بننے والی ایک سیاسی جماعت ) کے مذہبی ونگ کے رہنما کے طورپر عمران خان سے ملنے کے لئے سیڑھی بنایا۔مفتی صاحب نے بھی اس موقع کو مال غنیمت جانا ۔ اور پھر وہ ویڈیو منظر عام پر آگئی جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا ۔ کم ازکم مفتی عبدالقوی نے تو بالکل بھی سوچا نہ ہوگا ۔ مفت کی ملنے پر خوش ہونے والے مفتی کی عزت قندیل کے سرپر بھی سج گئی ۔ بس پھر کیا تھا کہ مذہبی اور معاشرتی دلالوں کی غیرت جیسے اچانک جاگ گئی ۔ میڈیا نے بھی اس ویڈیو کو خوب اچھالا ،یہاں تک کہ مفتی عبدالقوی اپنی سیاسی جماعت اور چاند دیکھنے کی کمیٹی کے سرکاری عہدے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ لیکن مفتی صاحب نے بڑی آسانی سے شرمندگی اور بے غیرتی کا یہ طوق قندیل کے گلے میں ڈال دیا۔ چند ہی دن بعد قندیل بلوچ کا پرانے وقتوں کا شوہربھی منظر عام پر آگیا اور ایک بچہ بھی۔

 قندیل نے اپنے انٹرویو زمیں اس نے اس کو جبری شادی قرار دیا اور کہا کہ شوہر اس پر تشدد کرتا تھا اس لئے وہ اس کو چھوڑ کر بھاگ گئی ۔ ملا کی اس ویڈیو نے قندیل کی کئی برسوں کی محنت پر پانی پھر دیا۔ بیمار معاشرے کی خوشیوں کا سبب بنے والی بہادر لڑکی کئی دنوں تک پھر اسی احساس محرومی، نا امید ی اور دکھ کے لمحات میں واپس چلی گئی ۔ وہ ایسی روٹھی کہ سب کو چھوڑ کر چلی گئی ۔

 مفتی کے ساتھ ویڈیو سے پہلے سب ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک اس کا ان پڑھ ، جاہل بھائی محمد وسیم بے غیر ت بن گیا ۔غیرت کے نام پر اٹھنے والے معاشرے کے طعنوں نے اسے اتنا بے غیرت بنا دیاکہ اس نے وہ کر دیا جس کی یہ بیمار معاشرہ اورچالاک مفتی پوری توقع رکھتے تھے ۔ قندیل کے قتل پر غیر سماجی تنظیمیں غیرت کے نام پر کھیل رہی ہیں اور چھوٹے چھوٹے مظاہرے کی بڑی بڑی سرگرمی ( activity) میں مصروف ہوگئی ہیں ۔ ان کی بھی اپنی مجبوری ہے ۔ بہت سے لوگ الیکٹرانک میڈیا کو قندیل کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میڈیا کو اپنی مقبولیت کے لئے اس طرح کے کرداروں اور مناظر کو دکھانے سے پہلے سوچنا چاہیے کے اس معاشرے میں ان کہانیوں کے نتائج قندیل کے قتل کی طرح بھیانک اور افسوس ناک ہو جاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کی سنسنی پر نظر رکھنے والے قومی ریگولیٹری ادارے پیمرا(pemra)کو یہ قتل کیوں نظر نہیں آرہا ۔ لیکن میڈیا تو میڈیا ہے۔پیشہ وارانہ طور پر دیکھا جائے تو میڈیا نے وہ سب کچھ دکھانا ہے جو اس کے لئے خبر ہے یا معاشرے میں ہونے والا کوئی دلچسپ امر ہے ۔ ٹی وی چینل اور اس پر آنے والے کردار دونوں ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں ۔ بس بچ کر رہنے کا آرٹ آنا چاہیے ۔ اور یہی وہ ہنر تھا جو آٹھ جماعت پڑھی بیچاری قندیل کو نہ آسکا ۔ میڈیا تو صرف عمل کو تیز کرنے والا ایجنٹ ( catalyst)تھا ۔قندیل کو تو معاشرے

کی اس سوچ نے مارا ہے جسے مذہب اور روایت کے نام پر ٹیکے لگا لگاکر اس حد تک سن کر دیا گیا ہے کہ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی اور عدم برداشت بڑھتی نظر آتی ہے ۔ قندیل کو میڈیا نے مارا ہے نہ ہی اس کے بھائی کی غیرت بلکہ معاشرے کی ایک بیمار سوچ نے ۔یا یوں کہیں کہ اسے ہم سب نے ماراہے ۔ اس کا بھائی تو صرف آلہ قتل ہے تاکہ اصل مدعا چھپ سکے ۔ اس کے بھائی کو مذہبی دلالوں نے معاشر تی غیرت اور مذہبی حمیت کے نام پر اکسایا اور خود مفتی مکھن میں بال کی طرح نکل گیا ۔ اور یہ بھی کہہ دیا کہ قندیل کی طرح کرنے والوں کا انجام سب کے سامنے ہے اور یہ کہ © ©\”مذہبی سکالر \”اچھے لوگ ہوتے ہیں ان کی عزت سے نہیں کھیلنا چاہیے ۔ قاتل بھائی نے بھی میڈیا کے سامنے کہا کہ اس نے یہ اقدام قندیل کی مفتی کے ساتھ ویڈیوآنے کے بعد کیا ۔ برسوں قندیل اس طرح کی حرکتیں کرتی رہی اور اس کے بھائی غیرت مند رہے ۔

پاکستان کے پس منظر میں دیکھا جائے تو قندیل کا پہلا قصور یہ تھا کہ وہ ایک عورت تھی ۔ اس کا دوسراقصور یہ تھا کہ وہ غریب تھی ۔ اس کا کوئی بینک بیلنس نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی اونچے طبقہ سے تعلق دار یا اس کی سرپرستی میں تھی کہ وہ محفوظ رہتی ۔ اس کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ اسی لئے پہلے وہ میڈیا اور پھرملاﺅوں کے ہتھے چڑھ گئی ۔ وہ بہت خطرے سے دو چار (vulnerable) ہو گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments