پاکستان: ریاست، تنازعات اور سی پیک


\"waqarبدقسمتی سے پاکستان کچھ عرصے سے پیس اینڈ کانفلیکٹ سٹڈیز (جنگ و امن کا علم) کے سکالرز اور طالب علموں کے لئے ایک پُرکشش موضوع بن گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی معاشرے سے متعلق شاید ہی کوئی تنازعہ ہو جس کی بہترین مثال پاکستان میں موجود نہ ہو بلکہ ہر مثال اپنی گہرائی، تنوع، لمبی تاریخ، پیچیدگی اور ہمہ جہت مثالیت کے ساتھ موجود ہے۔ عام طور پر ملک کے شمال مغربی علاقوں (فاٹا اور پختونخوا) میں جاری تنازعے کو مذہبی، وسط مغربی (بلوچستان) اور جنوبی (کراچی) علاقوں میں جاری شورش اور ابتری کو نسلی و لسانی جبکہ وسطی (پنجاب) علاقے میں جاری بدامنی کو فرقہ وارانہ تنازعات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ان تنازعات کے لئے جتنے بھی حل اب تک تجویز کئے گئے ہیں وہ تین موضوعات یعنی جیوپولیٹیکل، مذہب اور ریاست سے متعلق ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں سے بیشتر تنازعات کا حل ریاست کی خارجہ پالیسی کی درستگی اور توازن میں مضمر ہے۔ یعنی اگر ریاست خاص طور پر اپنے پڑوسیوں اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لئے کوشش کرے اور اس حوالے سے خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں لائی جائیں تو یہ مسائل بتدریج حل ہوسکتے ہیں۔ دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ مذہب (یا اس کی ایک مخصوص تعبیر) چونکہ ان مسائل یا تنازعات میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے اس لئے مذہب (یا مخصوص تعبیر) کی اصلاح سے ان تنازعات (بالخصوص شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں موجود مسائل) کا دیرپا حل ممکن ہوسکتا ہے۔ جبکہ کچھ اور ماہرین کا ماننا ہے کہ ریاست کو اندرونی بنیادی پالیسیوں کی اصلاح پر توجہ دینی ہوگی جس میں سماجی اور سیاسی اصلاحات، جمہوری عمل کا تسلسل، عسکری تسلط کا خاتمہ، علاقائی خودمختاری اور ملک کے تمام طبقات اور اقوام میں اعتماد کی بحالی جیسے اہم امور شامل ہیں۔

تاہم سب سے ضروری نکتہ جس کو کسی بھی حل میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ حل کی عملیت ہے۔ اس حوالے سے جب ہم جیوپولیٹیکل حل یعنی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حل کے پیش کرنے والے پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے علاقائی اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔ ظاہر ہے کسی ریاست کے لئے یہ ممکن نہیں۔ ایک ریاست پولیٹیکل گیم میں خود کو آسانی سے ملوث کرسکتی ہے اور خود اس کے شروعات میں کردار بھی ادا کرسکتی ہے لیکن بعد میں ایسے کسی تنازعے سے خود کو یک طرفہ طور پر نکال لینا یا اس کا خاتمہ صرف اس کے بس میں نہیں ہوتا اور اس طرح عمل اور ردعمل کا ایک افسوسناک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تاہم اگر ایسا ممکن بھی ہو تو اس کے لئے عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے والی اور طاقتور اعصاب کی مالک قیادت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جاری قیادت کے فقدان کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مزید براں اس خطے (خصوصاََ افغانستان) میں جاری پراکسی وار کچھ زیادہ ہی پیچدہ اور کثیر الجہت ہوگیا ہے اور فی الوقت اس کا فی الفور خاتمہ ممکن دکھائی نہیں کیونکہ اس میں کئی علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑی شامل ہوچکے ہیں اور سب اپنے مفادات کو محفوظ تر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ کھیل میں شامل کھلاڑیوں کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد بھی ہیں۔

اسی طرح مذہب (یا مخصوص تعبیر) کی اصلاح سننے میں تو ایک دلپذیر خیال اور دلکش عنوان ہوسکتا ہے لیکن شاید ہی کسی کو اس کے \"01\"ناممکن ہونے میں کلام ہو۔ یعنی ایں خیال است و محال است و جنوں! اس خیال کے موکلین ہزاروں میں ہوسکتے ہیں اور اس کے حامی لاکھوں میں لیکن پاکستان میں آپ کو 20 کروڑ مختلف النوع انسانوں سے سابقہ ہے جن کی زبانیں مختلف، مسالک مختلف، تاریخ اور جغرافیہ مختلف، سماج، سوچ اور کلچر مختلف ہے۔ اس لئے جتنا یہ خیال دلکش و دلپذیر ہے اتنا ہی غیر عملی بھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس خیال کے پیش کرنے والے شاید پاکستان کے سب سے زیادہ جمہوری سوچ رکھنے والے ہیں اور وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اُن کی تعبیرِ دین عوام پر کسی بھی طریقے سے تھوپی جائے۔ اس لئے سب سے زیادہ عملی اور بہترین ممکن راستہ یہی ہے کہ ریاست اپنے اندرونی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ان تنازعات میں ریاست یا ملک میں موجودہ نظام کے مخالف گروہوں میں حد درجہ تکثریت پائی جاتی ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو ریاست مخالف ہیں اور ریاست کی عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں (جیسے تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان میں علحیدگی پسند مسلح گروہ) اور وہ بھی ہیں جو ایک طرف فرقہ وارانہ اور لسانی تشدد میں ملوث ہیں تو دوسری طرف ریاست کے تحت سیاسی عمل کے ذریعے موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں یعنی محض نظام مخالف ہیں۔ لیکن بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ایک طرح سے ایک مشترکہ \”دشمن\” پر متفق ہیں جس کا نام \”اسٹیبلشمنٹ\” ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ گروہوں کی تشکیل خود اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ہوئی جو اب اسٹیبلشمنٹ مخالف ہو چکے ہیں اور دیگر اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے خلاف ردعمل کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان دونوں صورتوں کا منطقی نتیجہ یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ریاست کے اندرونی سطح کے اصلاحات میں اس بات کو کلیدی اہمیت حاصل ہو کہ اس نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کی شکل و ہئیت کو بالکل بدل کر رکھ دیا جائے۔

اسٹیبلشمنٹ کے نو آبادیاتی تصور کو ختم کیا جائے اور اس کے ظہور پذیر ہونے کے تمام راستوں کو بند کرکے ریاست اور ملک میں جدید دنیا کے تصورِ اسٹیبلشمنٹ سے ہم آہنگ تصور کو فروع دیا جائے۔ دیگر اصلاحات میں پاکستان کے تمام طبقات اور اقوام اور ان کی علاقائی شناخت کو حقیقی طور پر تسلیم کرنا، انتظامی یونٹس کی ازسرنو تشکیل یعنی تمام اقوام کی حقیقی نمائندہ یونٹس کا قیام، فیڈریشن کی جانب پیش قدمی، مقامی ذرائع آمدن پر مقامی حقوق کو یقینی بنانا، وسیع تر قومی معاشرے میں ہم آہنگی اور اعتماد کو فروغ دینے کے لئے مطلوبہ اقدامات، ہر سطح پر جمہوری کلچر اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا، جاگیرداری کا مکمل خاتمہ اور زمین سے متعلقہ اصلاحات، ہتھیاروں کی بجائے علم اور تعلیم پر مرتکز پالیسی، ریاستی اور حکومتی امور میں عسکری تسلط اور غلبے کا خاتمہ اور تمام شہریوں کے (بلاتفریق مذہب، مسلک، قومیت، زبان، نسل اور جنس) بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا بنیادی امور ہیں۔

\"cpec\"اگرچہ یہ اقدامات اور اصلاحات پاکستان کو غیریقینی کیفیت سے نکال لینے اور اس کے مستقبل کی ضمانت کے لئے ناگزیر ہیں لیکن بدقسمتی سے ریاست اور حکومت اس کے مخالف سمت میں برابر لگی ہوئی ہے۔ اس طرح کی پالیسیوں کی ناکامی اور ریاست پر اس کے دوررس اور انتہائی منفی اثرات کے مرتب ہونے میں کسی کو شک و شبہہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے سی پیک کا منصوبہ ایک نہایت اہم، واضح اور اہمیت کا حامل ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا۔ اپنے افادیت کے لحاظ سے یہ نہ صرف پاکستان کی معاشی حالت کے سدھار بلکہ ریاست پاکستان کے حدود کے اندر ایک قوم کی تشکیل کے لئے ایک گراں قدر موقع ہے۔ تاہم اس کے روٹ میں بنیادی تبدیلی (جس کا تقریبا فیصلہ ہوچکا ہے) اس کو پاکستان میں انتشار اور تقسیم کے لئے ایک عمل انگیز ثابت کرسکتی ہے۔ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے اذہان کبیر نے شاید درست سوچا کہ مغربی روٹ کو علاقے میں بدامنی اور ریاست مخالف انتشار کی وجہ سے اپنایا نہیں جاسکتا حالانکہ یہی تو ریاست کے لئے اصل اور کڑا امتحان ہے کیونکہ اسی امتحان سے گزر کر ریاست اپنے شہریوں کو یہ باور کراسکتی ہے کہ ان کا آنے والا کل روشن اور محفوظ ہے۔ روٹ تبدیل کرنے کا مطلب ان ریاست مخالف عناصر کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہے؛ اپنی بے بسی کا اظہار ہے اور یہ پیغام دینا ہے کہ ریاست کو چند علاقوں اور چند قومیتوں کے علاوہ باقی علاقوں اور قومیتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں۔

پاکستان کے شمال مغربی اور وسط مغربی علاقوں کی نوجوان نسل میں ریاست اور ریاست کے اندر اپنے مستقبل کے حوالے سے متعلق شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ ریاست پاکستان عام طور پر اس طرح کے عمل کو \”ملک دشمنی\” اور \”غداری\” کے لیبلز چسپاں کرکے دبانا چاہتی ہے ؛ حالانکہ یہ احساسات ریاست مخالف گروہوں میں نہیں بلکہ نظام مخالف اور پاکستان کے لئے محبت رکھنے والے لوگوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کے شکوک اور احساسات کا اظہار عام نہیں؛ بالکل تسلیم لیکن وجوہ سب کے علم میں ہیں کہ ایسے شکوک اور احساسات کا کھلے عام اظہار کیوں نہیں کیا جاتا۔ حال ہی میں القاعدہ اور طالبان کی قید سے رہائی پانے والے حیدر گیلانی نے بھی بہت بروقت ریاست کو اس پر متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ تحریک طالبان اپنا بیانیہ مذہب سے ہٹا کر قومیت کے بنیاد پر پیش کرنے کی طرف جارہی ہے۔ یعنی ان کے دلائل میں اب واضح تبدیلی نظر آتی ہے جہاں مذہب کی بجائے قومیت اور قومی حقوق یا محرومی کا ذکر غالب آرہا ہے۔ سی پیک روٹ کی تبدیلی ان حالات میں نہ صرف ریاست مخالف گروہوں کو ایک مضبوط، دیرپا اور مستحکم دلیل فراہم کرسکتا ہے بلکہ نظام مخالف اور ریاست مخالف گروہوں میں موجود خلاء کو (کم از کم فکری سطح پر) کم کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے جو ریاست کے وجود اور مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments