بارہ مئی 2007: وسیم اختر کا اعتراف جرم اور پرویز مشرف کی طاقت


 پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ ایم کیو ایم کے کسی رہنما نے جرم کا اعتراف کیا ہو۔ جولائی 2016 میں وسیم اختر کا اعتراف جرم بھی کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ نوے کی دہائی میں ان کی وہ جے آئی ٹی فلم کے فیتے پر محفوظ ہے،جس میں وہ کچھ ایسے ہی جرائم کا اعتراف کر رہے ہیں۔ ہمارا عسکری ذہن چونکہ ہمیشہ سے ذہین چلا آ رہا ہے اس لیے ایم کیو ایم کے ہر اہم رکن کی جے آئی ٹی افشا ہوتی چلی آ رہی ہے۔ خوشی سے ہم مر نہ جائیں اگر تحقیقاتی اداروں کو احساس ہوجائے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ان کی محبت کا یہ انداز خود ان کے کردار پہ طرح طرح کے سوالات چھوڑتا رہا ہے؟ یعنی کمال ہے کہ عامر خان صبح دس بجے نائن زیرو مرکز سے گرفتار ہوئے اور شام ڈھلے سماجی ذرائع ابلاغ پر جرائم کا اعتراف کرتے دکھا دیے گئے۔

وسیم اختر نے بارہ مئی کے حوالے سے جرم کا اعتراف کیا، تو کچھ یادیں ہیں جو لوٹ آئیں۔ بارہ مئی سے دو رات قبل کراچی کے محلوں میں یہ تیاریاں شروع ہو چکی تھیں کہ وکلا تحریک کی سرگرمیوں کو کراچی میں سبوتاژ کرنا ہے۔ بارہ مئی کو ائیر پورٹ جانے والوں میں ہم بھی تھے۔ خدانخواستہ ہم استقبال کرنے نہیں گئے تھے، بلکہ استقبال دیکھنے گئے تھے۔ شوق سے زیادہ یہ مفت کا فریضہ تھا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمارے دل میں وکلا تحریک کے لیے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ علی احمد کرد کے بعد ہم ہی تو تھے جو چکرائے گئے۔ صبح دم نکلتے ہی یہ احساس ہو گیا کہ شہر کے گرد کنٹینر کھینچ دیئے گئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک کنٹینر عبور کرتے ہوئے ناظم آباد انڈر پاس پہنچے تو کماں بدست لشکریوں کو انڈر پاس کے اوپر موجود پایا۔ اجتماعی گالم گفتار کی ایک قافیہ بند لہر اوپر سے ہم پہ چھوٹی اور ساتھ ہی دو گولیاں چلیں۔ گولیوں نے ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا البتہ موٹر سائیکل کی رفتار بڑھا دی۔ جہاں یہ مسلح کارکن صفیں ترتیب دیئے کھڑے تھے اس سے پانچ قدم پیچھے رینجرز کا کوارٹر ہے۔ یہ کون لوگ تھے؟ جھنڈوں اور شکلوں سے یہ سب واضح تھا۔

 کارساز سے ڈرگ روڈ تک شیری رحمان صاحبہ اور ہم شانہ بشانہ چلے۔ ڈرگ روڈ پل سے کچھ پہلے ہی شیری رحمن نے حالات بھانپ لیے، وقت ضایع کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ گاڑی کی چھت کھلی اور ان کا سیکورٹی گارڈ برامد ہوا۔ ڈرگ روڈ پل کے ہم اتنے قریب پہنچ گئے کہ پل کے اوپر سے یہ اعلان صاف سنائی دے رہا تھا کہ آگے مت بڑھنا گولی مار دیں گے۔ سبھی کو جان عزیز تھی، سو رک گئے۔ اسی اثنا میں فائرنگ کی تڑ تڑاہٹ سے علاقہ گونج اٹھا۔ کم و بیش چار گولیاں شیری رحمان کے گارڈ کے حصے میں آئیں جو موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ دو گولیاں دائیں کھڑے اے این پی کے ایک کارکن کے کندھے پر لگیں جس نے اسے تڑپا کے رکھ دیا۔ شیریں رحمن اتریں زخمی کارکن کو اپنی گاڑی میں ڈالا، گاڑی زن زن دوڑاتی لے گئیں۔ یہاں مجھے صرف اتنا کہہ لینے دیجیئے کہ اس خاتون کی ہمت پہ مجھے رشک آیا کہ ایک شہید ڈرائیور اور ایک زخمی کارکن کو بقائمی ہوش و حواس خود ڈرائیو کرتی ہوئی لے گئیں۔ ہم واپس ہو لیے۔ اس کے سوا چارہ بھی کیا تھا۔ ڈرگ روڈ کے جس پل سے ایک ہجوم نے فائر کھولے، اس پل کے عین نیچے پولیس تھانہ ہے۔ تھانے کی چھت پر لیٹ کر اخبار نویس اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ گولیاں چلانے والے کون تھے؟ جھنڈوں سے اور شکلوں سے یہ سب واضح تھا۔

 واپسی پر یہ احساس شدید تر ہوگیا کہ ہم سیاسی کارکنوں کے ہی نشانے پہ نہیں ہیں، ریاستی جبر بھی تعاقب میں ہے۔ یہ بات واضح تھی کہ سیکورٹی اداروں تک کو کیا احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ پولیس کو غیر مسلح رہنے کا حکم ہے، جہاں بھی کھڑے ہیں ہاتھ میں لاٹھی لیے کمر کھجا رہے ہیں۔ رینجر اہلکار خال خال کہیں برکت کے لیے موجود ہیں مگر انہیں بندوق کی نال زمین کی طرف رکھنے کا حکم ہے۔ مسلح کارکنوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے ڈھائی گھنٹے میں ہم گرومندر پہنچے۔ پہنچ کر احساس ہوا کہ ایک نجی ٹی وی چینل اس وقت نرغے میں ہے۔ کیمرے کی آنکھ ہر طرف سے دیکھ رہی تھی مگر کارندے کھلے چہرے اور کھلی شناخت کے ساتھ رزم گاہ میں اترے ہوئے تھے۔ دوسرا رستہ لیکر مزید ڈیڑھ گھنٹے کی جدوجہد کاٹی، گرتے پڑتے گھر پہنچ ہی گئے۔ منہ دھو کر ٹی وی لگایا تو اسی نجی ٹی وی چینل کے دفتر کا اندرونی منظر سامنے تھا، جس میں ایک میز کے نیچے پناہ لیے ہوئے اینکر طلعت حسین ناظرین کو صورت حال سے آگاہ کر رہے تھے۔ ٹی کا کیمرا نیچے سڑک پہ جن دندناتے کارکنوں کے کلوز اپس دکھا رہا تھا، وہ کون تھے؟ جھنڈوں اور شکلوں سے سب واضح تھا۔

 یہ سب جو جھنڈوں اور شکلوں سے واضح تھا، کیا اس پر اس قوم کو اس وقت تک یقین نہیں آنا تھا کہ جب تک وسیم اختر سے اعتراف جرم نہ کروا لیا جاتا؟ اعتراف تو اس وقت کے وردی پوش صدر پرویز مشرف نے اسی بارہ مئی کی شام کھلے آسمان تلے ایک بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے چیخ چلا کر کردیا تھا۔ اپرویز مشرف نے مکا لہرا کر فرمایا تھا،

 ’’آج دنیا نے کراچی میں عوام کی طاقت دیکھ لی کہ کس طرح ہمارے مخالفین کو جواب دیا گیا‘‘

 یہ جواب کیا تھا؟ افتخار محمد چوہدری ساتھیوں سمیت ائیر پورٹ میں محصور رہے، چار سو وکلا ہائی کورٹ میں اور دیڑھ سو وکلا سٹی کورٹ میں یرغمال رہے، اخبار نویس زد وکوب ہوئے، ٹی وی دفاتر گھیرے میں لیے گئےِ، باون شہری قتل ہوئے، سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے، بے شمار گاڑیاں نذر آتش ہوئیں۔ یہ سارے حالات و واقعات ملا کر وہ جواب بنتا ہے جس پر پرویز مشرف صاحب سگار کا کش لگا کر مکے لہرا رہے تھے۔

اصل بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ اس ملک میں جب بغاوت ہوتی ہے تو وہ آفیسر نامعلوم نہیں ہوتا جس کے حکم پرایک بندوقچی پارلیمنٹ کے پچھلے دروازے پہ لات مار کے اندر آتا ہے۔ اس سپاہی کا چہرہ سب دیکھتے ہیں جو پی ٹی وی کی دیواریں پھاند کر نشریاتی پردے پہ سیاہی پیل دیتا ہے۔ اس ملک میں کسی پیر تسمہ پا کا احتساب کبھی نہیں ہوا، لیکن یہ احتساب اگر ہو جائے تو کیا انصاف یہ ہے کہ ٹرپل ون بریگیڈ کو ٹانگ دیا جائے؟ کیا اس آفیسر کی گردن ناپی جائے جس کے حکم پہ بندوقچی نے ایوان اقتدار پہ شب خون مارا؟ کیا اس سپاہی کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیئے جسے عینی شاہدین نے پی ٹی وی کی دیوار پہ چڑھتا دیکھا تھا؟ لایئے جس کو بھی کٹہرے میں لا سکتے ہیں، ضرور لایئے مگروہ سرخیل و سرغنے؟ ہمارے تحفظ کی قسم کھانے والوں سے کرنے کو ایک سوال رہ گیا۔ بس ایک سوال

 ’’پرویز مشرف کو تو رات کے اندھیرے میں پتلی گلی سے نکال دیا گیا، وسیم اختر کے ساتھ بیٹھ کر کیا تاش کھیلنا تھی؟‘‘

 یعنی کہ۔!

 جیب سے تو اسلحے کے کنٹینر برامد ہو جاتے ہیں، توپ خانے سے آدھا پاؤ بارود بھی برامد نہیں ہوتا؟ یہ کیسا چمت کار ہے صاحب۔

27 جولائی 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments