تیرا نہ میرا گھر


’’تو پھر یسوع مسیح  نے جواب دیا کہ لومڑیوں کے لیے بھٹ ہیں اور ہوا میں اُڑتے پھرنے والے پرندوں کے لیے آشیانے لیکن آدمی کے بیٹے کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں ہے جہاں اپنا سر ٹکا سکے۔۔۔‘‘ (میتھیو 8:20)

انجیل مقدس کے یہ الفاظ میں نے مدّتوں پہلے پڑھے تھے۔ پھر بھول بھال گیا۔ اب یہ الفاظ پوری شدّت کے ساتھ یاد آنے لگے جب میں نے فیس بک پر ایک پرانے دوست کا پیغام دیکھا۔ ایسے کتنے ہی دوست ہیں جن سے رابطے کبھی کبھار ہوتے ہیں۔ اصل میں میڈیکل کالج کے یہ ساتھی، جن سے ملے بچھڑے نہ جانے کتنے زمانے ہوگئے، ان میں سے اکثر شمالی امریکا میں ہیں جہاں بڑی مصروف زندگیاں گزارتے ہیں اور یہاں کے دوستوں سے اس وقت رابطہ کرتے ہیں جب کوئی سانحہ ہو جاتا ہے، جیسے کراچی میں رہ جانے والے رشتہ داروں کے دُکھ بیماری یا پھر اس منصوبے کے لیے چندہ دینا جس کے تحت ہماری کلاس نے مادر علمی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے آپریشن تھئیٹر تعمیر کروایا تھا۔

اس نے بھی مدد کے لیے لکھا تھا۔ یہ پتہ نہیں چلا کہ اس نے کس رشتہ دار کے لیے مدد مانگی تھی کہ اس نے انگریزی میں انکل لکھا تھا۔ ’’میرے دوستوں، ساتھیوں میں سے کیا کوئی دوست طریقہ بتا سکتا ہے‘‘ اس نے لکھا تھا۔ ’’میرے انکل چند دنوں کے لیے پنجاب گئے تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں ان کے مکان پر قبضہ کر لیا گیا۔ وہ سخت پریشان ہیں۔ سر چھپانے کے لیے جگہ چھن گئی۔ کسی دوست کے تعلقات کام آجائیں یا فلاں اور فلاں سیاسی جماعتوں سے بات کریں کہ تھوڑا بہت دے دلا کر۔۔۔‘‘

اس نے اپنی بات اس سے بھی مختصر عبارت میں کہی تھی مگر دل دہلا دینے کے لیے کافی تھی۔

’’تمہارے انکل کا مکان کراچی کے کس علاقے میں ہے؟‘‘ میں نے جواب میں لکھا۔ ’’اگر تم نے کسی سے رابطہ کر لیا ہے تو بتائو کہ ہم بھی فالو اپ کرسکیں یا کسی نہ کسی طرح دبائو ڈلوائیں۔۔۔‘‘ شاید میں بھی اس گمان میں تھا کہ اثر رسوخ، رابطے یا دبائو سے ضرور یہ کام ہو جائے گا کیونکہ تعلقات سے کتنے ہی بند دروازے کُھل جاتے ہیں۔ شاید میں ہی کچھ کام آ سکوں۔۔۔

میں فیس بک روزانہ ہی دیکھتا رہا۔ اس کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ لیکن باقی دوستوں کے پیغامات آنے لگے، تسلّی دلانے کے علاوہ یہاں تو یہ معاملہ تھا کہ ہر ایک کے پاس سنانے کے لیے اپنی داستان تھی۔

’’فلاں اور فلاں سیاسی پارٹی کی اندرونی قیادت سے رابطے پیدا کرو اور ان کو قائد اعظم والے نوٹوں کی ہوا لگائو۔۔۔‘‘ ایک نے لکھا، ’’رینجرز کے ہیڈ کوارٹرز جا کر کورکمانڈر کے نام درخواست جمع کرائو۔۔۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’یہ کام کسی اور کے بس کا نہیں، آرمی میں اگر کوئی تعلقات ہیں تو ان کو استعمال میں لانے کا وقت ہے۔۔۔‘‘ ایک اور دوست نے خلوصِ دل سے مشورہ دیا۔

ذرا دیر میں ایک اور پرانے دوست کی تصویر کے آگے یہ عبارت ابھر آئی۔ ’’میں نے 2005ء میں گلستان جوہر کے بلاک نمبر فلاں میں 240 گز کا پلاٹ اتنے لاکھ میں خریدا تھا۔ ایک سال بعد اس پر ناجائز تجاوزات والے آکر بیٹھ گئے۔ میں خود جاکر تمام ذمہ دار اداروں سے ملا اور ہر جگہ تحریری درخواستیں جمع کرائیں۔ مگر کسی نے ایک نہ سُنی۔ فلاں محکمے کے بڑے افسر نے کہا عدالت سے رجوع کرو۔ میں نے یہی کیا۔ پچھلے 5 سال سے مقدمہ زیرسماعت ہے۔‘‘

ایک وقفے کے بعد اس کے نام سے یہ عبارت کمپیوٹر اسکرین پر ابھر آئی۔ ’’جب میں نے ان لوگوں سے ملنے کی کوشش کی تو انھوں نے بندوقیں تان لیں اور یہ کہا پھر کبھی اس علاقے کا رخ نہ کرنا۔ وہ دن اور آج کا دن، رقم بھی ڈوب گئی اور ہر وقت کا دھڑکا۔۔۔‘‘

ایک اور دوست نے جو ایک بڑے سرکاری اسپتال سے وابستہ ہیں، یہ لکھا کہ گلشن اقبال کے فلاں بلاک میں میرے پلاٹ کا بھی یہی حشر ہوا۔ جن لوگوں نے قبضہ کیا وہ فلاں زبان کے بولنے والے ہیں۔

کسی بھی زبان کا اس بات چیت میں حوالہ دیکھ کر میں شرمندہ ہونے لگا۔ اتنے میں ایک اور میسیج سامنے آیا۔ یہ خاتون اپنے شعبے میں بہت محترم سمجھی جاتی ہیں اور کراچی کے ایک علاقے میں ان کی بڑی جمی جمائی پریکٹس ہے۔ ’’میری چھوٹی بہن کے ساتھ کچھ وقت پہلے ایسا ہی واقعہ ہوا۔ کلفٹن کے ساحلی علاقے میں ایک فلیٹ ہے۔ گھر والوں کو دوبارہ اندر گُھسنے بھی نہیں دیا۔ ان لوگوں کا سب کچھ چھن گیا، کپڑے، برتن، فرنیچر ۔۔۔ خوش قسمتی سے وہ فلیٹ کرائے کا تھا۔ میری بہن کا بس سامان کا نقصان ہوا۔‘‘

’’یہ کوئی بھیانک خواب معلوم ہوتا ہے‘‘ جس دوست کے پیغام نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا، اتنی دیر چُپ رہنے کے بعد بول اٹھا۔ ’’کیا یہ بہت عام ہوگیا ہے؟ میرے انکل کے لیے صدمے سے کم نہیں تھا کہ گھر واپس آئیں تو دیکھنے کو ملے کہ کوئی ان جانے لوگ ان کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ قبضہ کرنے کے بعد وہ لوگ جھوٹے کاغذات بھی بنوا لیتے ہیں ۔۔۔‘‘ اس نے لکھا۔

’’بڑی حیرت کی بات ہے کہ یوں دن دہاڑے کسی کے گھر پر قبضہ ہو جائے اور کوئی کچھ نہ کر سکے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ پولیس نے قبضہ کرنے والوں کی مدد کی۔ اب رینجرز میں شکایت درج کرائی ہے۔۔۔‘‘

گفتگو کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا جارہا تھا اور میں بھی کوئی سوال کرتا یا شاید مشورہ ضرور دیتا۔ لیکن کچھ لکھنے سے پہلے اپنی نانی کا چہرہ میری آنکھوں میں گھوم گیا۔ موٹی عینک کے پیچھے گول گول آنکھیں اور جھرّیوں بھرے چہرے پر محبّت ہی محبّت۔۔۔ ان کو بچھڑے ہوئے کتنے برس گزر گئے۔

لیکن اس وقت محبت کے بجائے کچھ اور یاد آیا۔۔۔ بے یارو مددگار ہو کر ان کا بے بسی کے ساتھ رونا، بلکنا، بچّوں کی طرح ہونٹ نکال کر سسکیاں بھرنا یاد آنے لگا۔ نانی امّی کے اس بھرے پُرے گھر سے بچپن کی کتنی ہی یادیں وابستہ تھیں۔ رستا بستا گھر پوری طرح آباد تھا۔ خالائیں، ماموں پھر سب اپنے اپنے گھروں کے ہوگئے۔ نانی امّی کا گھر اسی طرح کُھلا رہا۔ لیکن نانا ابّا کے انتقال کے بعد وہ اکیلی پڑگئیں۔  ’’آپ کو یہ گھر بیچنا ہوگا۔ اس کے بعد جس کے گھر چاہیں چلی جائیں۔۔۔‘‘ سبھی نے مشورہ دیا۔ لیکن وہ گھر چھوڑنے پر تیار نہیں تھیں۔ یہ بات اٹھائی جاتی تو رونے لگتیں۔

محض دوسرا ہٹ کے خیال سے اوپر کی منزل میں نانا ابّا نے اپنے ہی سامنے کرائے دار رکھ لیے تھے۔ کسی نے کہا تھا، اعتبار کے لوگ ہیں۔

پھر یہ ہوا کہ نانی امّی کو مکان چھوڑنا پڑا کیونکہ وہ ان سے چُھڑوا لیا گیا۔

ایک شام کسی رشتہ دار کے گھر ملنے ملانے کے لیے نکلی ہوں گی۔ واپس آئیں تو گیٹ پر اتنا بڑا تالہ ۔ دروازہ کھٹکھٹایا، گھنٹی پر گھنٹی بجائی، دیرتک آوازیں دیں، بہت چیخیں، چلّائیں، شور مچایا۔ پکارتے پکارتے بے حال ہوگئیں۔ ان کو سب سے زیادہ قلق اس بات کا ہوا کہ جس محلّے میں چالیس، پینتالیس برس سے رہ رہی تھیں وہاں سے کوئی ایک آدمی شور سُن کر بھی نہیں نکلا۔ نانی امّی کہا کرتی تھیں چڑیا کا بچّہ بھی نہیں جھانکا۔۔۔

روتی بین کرتی وہ وہاں سے رخصت ہوگئیں۔ اور کیا کرتیں؟ اس کے بعد معاملے نے نیا رُخ اختیار کیا۔ کرائے دار مالک مکان بن بیٹھے۔ جلد ہی ان کے پاس کاغذات بھی تیار ہوگئے۔ یہاں بے چاری نانی کے لیے دوڑ دھوپ کون کرتا؟ سبھی اپنی اپنی جگہ مصروف۔ ’’ ہم نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا اس جنجال سے جان چھڑائیں۔۔۔‘‘ کوئی نہ کوئی کہہ اٹھتا اور نانی اپنے گھر کے اس احوال پر چپ چاپ آنسو بہانے لگتیں۔

چھوٹی خالہ پولیس اور فوج میں تعلقات بروئے کار لائیں تو وہ لوگ مکان خالی کرنے کے لیے ایک معقول رقم مانگنے لگے، اور رقم ادا کرنے پر تیار ہوگئے۔ مکان کوڑیوں کے مول بک گیا لیکن نانی امّی کی صحت میں وہ بات نہ رہی۔ ان کی طبیعت کی جونچالی اور کرارا پن رُخصت ہوگیا۔ باتیں بھولنے لگیں۔ جس گھر میں جاتیں اس کو اپنا سمجھ کر جھاڑو لگانا، برتن دھونا شروع کر دیتیں، سب ٹوکتے رہ جاتے۔ پھر گھر کے بجائے ان کو آخری آرام گاہ قبرستان میں مل گئی۔

نانی امّی کے ساتھ ان کے مکان کا قصّہ ختم ہوگیا۔ بہت سی باتیں تو بھول بھی گئیں لیکن مجھے وہ مکان رہ رہ کر یاد آتے ہیں جہاں زندگی کا کوئی نہ کوئی حصّہ گزرا ہو۔ پتہ نہیں کیا یہ توقّع ہوتی ہے کہ دروازے پر دستک دوں تو ان درو دیوار میں سے ہنستا، مسکراتا مَیں نکل آئوں گا جیسا میں ہوا کرتا تھا۔

ایک دن کہیں اور جاتے ہوئے میں ناظم آباد کے اس علاقے کی طرف سے گزرا۔ یوں ہی دل میں خیال آیا کہ چلو، نانی امّی کا گھر بھی دیکھتا جائوں کہ اب کس حال میں ہے۔ میں راستہ بھٹکا نہ گلیاں گم ہوئیں۔ ذرا ہی دیر میں، مَیں سیدھا اس مکان کے سامنے کھڑا تھا۔ مکان کے اوپری رخ پر جہاں نانا ابّا نے نام پینٹ کروایا تھا، وہاں کچھ نہیں تھا۔ مکان بھی بجھا بجھا سا تھا۔ بے رونق، اندھیرا، مجھے گمان ہوا کہ یہ محض میری خوش فہمی ہے۔

’اس مکان میں اب کون رہتا ہے؟‘‘ قریب ہی کھیلتے ہوئے ایک بچّے سے میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

’’آپ کو نہیں معلوم؟‘‘ بچّے نے مسکراتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔

’’یہاں کوئی نہیں رہتا۔‘‘ اس نے تیز تیز بولتے ہوئے مجھے بتایا۔ ’’یہاں کوئی نہیں رہتا۔ وہ کسی کو رہنے نہیں دیتے۔ اس پر جنوں کا قبضہ ہے۔ بہت عرصے سے اس میں جن رہتے ہیں۔ رات کو کسی وقت روشنیاں جل اٹھتی ہیں۔ کسی کے چلنے اور بولنے کی آواز آتی ہے۔۔۔‘‘

وہ شاید تفصیلات اور بھی بتاتا مگر مجھ سے سُنا نہیں گیا۔

ایک دفعہ کے بعد میں پھر کبھی وہاں نہیں گیا۔ جائوں تو بھی تو کیا دیکھنے کے لیے جائوں، اس مکان پر آدمیوں کے قبضے سے بڑھ کر قبضہ ہو گیا۔

اب رینجرز کام آ سکتے ہیں اور نہ پولیس۔

اس قبضے کی شکایت کہاں درج کرائی جاسکتی ہے۔

بہت دن تک اس مکان کی خبر نہیں ملی۔ کسی نے پوچھی بھی نہیں۔ ادھر اتفاق سے اس پرانے محلے کو ڈھایا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ شاپنگ پلازہ بنے گا۔ ایک کنسٹریکشن کمپنی نے اپنا بورڈ لگا دیا ہے۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے آج تک یہ نہیں سنا کہ کسی شاپنگ پلازہ پر آسیب کا سایہ ہو۔ جن سے بڑا ہے سرمایہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments