مالاکنڈ ڈویژن اور ٹیکس


\"Picture_Zubair

گزشتہ ایک سال سے تنازعہ چلا ارہا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ 1969ء کو نافذ کرکے دیگر ٹیکسوں کے لئے بھی راہ ہموار کی جائے۔ اس ایکٹ کے تحت نان کسٹم پیڈ (NCP ) گاڑیوں کو رجسٹر کروانا ہے۔ یہ کام وفاقی ادارے FBR کا ہے۔ اسی ادارے کے ایک افسر کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اس سال مئی میں اپنے سوات کے دورے کے دوران مالاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس فری زون قرار دینے والے تھے لیکن انہوں نے ایسا FBR کے کہنے پر نہیں کیا۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس کا جواز دسمبر 2014 ء کو ارمی پبلک سکول پر سفّاک حملے کو بتایا جارہا ہے۔ پتہ نہیں حملہ کرنے والوں نے کوئی نان کسٹم پیڈ گاڑی مالاکنڈ سے لی تھی کہ نہیں لیکن صوبائی ایپیکس (provincial apex committee ) کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا۔

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی اس سلسلے میں پیش پیش تھی اور ہے۔ ایسے بہانوں کو صوبائی حکومت بھی اپنے لئے استعمال کر رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال جون میں صوبائی حکومت نے صوبے کے گورنر کو ہدایت کی تھی کہ وہ مالاکنڈ ڈویژن، جو کہ (PATA ) کا علاقہ ہے، کے لئے صدر پاکستان سے یہاں مختلف ٹیکسوں کے نفاذ کے لئے اجازت لیں کیوں کہ صوبائی حکومت پاکستان کے آئین کے ارٹیکل 247 کی وجہ سے براہ راست ایسا نہیں کرسکتی۔ صوبائی حکومت کے ان ’دیگر ٹیکسوں‘ سے مراد پتہ نہیں کیا تھا۔ شائد سوات اور ڈویژن کے دیگر ہوٹلوں پر بھاری ٹیکس لگانا ہی مقصود تھا۔ اسی طرح وہ گھروں پر بھی ایسا ٹیکس لگائیں گے۔ اسی رپورٹ کے مطابق کسٹم ایکٹ کا نفاذ پہلا قدم ہے۔ اس کے بعد یہ دوسرے ٹیکس صوبائی حکومت کی طرف سے لگیں گے۔

مملکت خداداد میں ہر چیز انوکھی ہے۔ یہاں بالواسطہ ٹیکس (Indirect Tax ) کی مد میں ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ڈالا جاتا ہے۔ اس ٹیکس سے پاکستان کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس بلاواسطہ ٹیکس کے ذریعے ہر غریب گھرانہ اپنے امدن کا سولہ (16 ) فی صد ٹیکس دیتا ہے جبکہ اس کا بوجھ امیروں پر کم ہوجاتا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق امیر ترین دس فی صد اس بالواسطہ ٹیکس میں اپنے امدنی کا صرف دس فی صد ٹیکس بھرتا ہے۔

پاکستان کے ٹیکس قانون میں ٹیکس کے چار بڑے ذریعے ہیں: جنرل سیلز ٹیکس، سنٹرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور انکم ٹیکس۔

پاکستان کے ٹیکس نظام میں اس بلاواسطہ ٹیکس کا حصّہ تقریباً 76 فی صد ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ پورے ٹیکس کا تین چوتھائی غریب لوگ ہی بھرتے ہیں جبکہ امیروں کا حصّہ صرف ایک چوتھائی بنتا ہے۔ اس نظام سے غیریب اور امیر میں فرق ذیادہ ہوتا رہا ہے۔

مالاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس کے لئے لوگوں کو راضی کرنے کے لئے چائنہ پاکستان معاشی راہداری (CPEC ) کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مالاکنڈ ڈویژن ٹیکس دینے کے لئے راضی نہ ہو تو یہ پورا علاقہ اس راہداری کے فوائد سے محروم رہے گا۔ پتہ نہیں یہ منطق کدھر سے ائی۔ مالاکنڈ ڈویژن سے اس راہداری کا ایک روٹ بھی نہیں گزرتا تو اس کے فوائد کیسے؟ اس ڈویژن کا سب سے بڑا فائدہ یہاں کی سیّاحت کو فروغ دینے سے ہوگا اور جس کے لئے اچھی سڑکیں اور سہولیات کا ہونا لازمی ہیں۔ مالاکنڈ ڈویژن کی بیشتر سڑکیں کھنڈرات ہیں ایسے میں سیّاحت خاک فروغ لے گی۔

ترقی کے لئے ٹیکس کا نفاذ لازمی ہوتا ہے۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں کرپشن حکمرانوں کے خون میں دوڑتی ہو وہاں کس پر اعتبار کیا جائے۔ ہم یہ جو بالواسطہ ٹیکس روزانہ کی بنیاد پر دیتے ہیں اس کا بدلہ ہمیں کیا ملتا ہے خونریزی کے سوا۔ کہاں ہیں سکول؟ کدھر ہیں اچھے ہسپتال؟ ہمارے ہاں تو یہ دو بنیادی چیزیں بھی موجود نہیں۔ تو ایسے میں ٹیکس دینے کا کیا فائدہ؟

بڑے بڑے مگرمچھوں کو بھاری بھاری قرض معاف کیے جاتے ہیں جبکہ غریب کے پیچھے پچیس ہزار بینک قرضے کی وصولی کے لئے پولیس لگائی جاتی ہے۔ ایک اعلی افیسر ریٹائر ہوتا ہے تو چالیس چالیس کروڑ کے پلاٹس مفت میں دیے جاتے ہیں جبکہ غریب کے سر سے سایہ بھی چھین لیا جاتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مالاکنڈ ڈویژن کے لئے خاص مراعات کا نفاذ ہوتا کہ اس علاقے نے ملک کی تاریخ کی بدترین شدّت پسندی کا سامنا کیا ہے۔ کیا وہ دن اپ اتنے جلدی بھول گئے جب پورا سوات سخت گرمی میں خیموں میں بسا تھا؟

مالاکنڈ ڈویژن پر مزید ٹیکس لگانے کی بجائے ان امیروں پر ہاتھ ڈالو جو ٹیکس چراتے ہیں اور آف شور کمپنیاں (Off shore companies) بناتے ہیں۔

مالاکںڈ ڈویژن کے ہوٹلوں، بازاروں اور کھتیوں پر اس وقت ٹیکس لگاؤ جب اپ یہاں کے سارے بچّوں اور بچّیوں کے لئے سکول اور مریضوں کے ہسپتال بنا سکو، شہریوں کے لئے اچھی سڑکیں اور بڑی شاہراہیں بنا سکو۔ اپ ٹیکس لگانے کی بات کرتے ہیں ہم تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس صوبائی فارسٹ ترقیاتی فنڈ (Forest Development Fund ) کو، جس کا بہت بڑا حصّہ مالاکنڈ ڈویژن اور کوہستان ضلعے سے جاتا ہے، اسے انہی علاقوں کی ترقی اور ماحولیات کی بچاؤ پر لگاؤ جسے اپ دس فی صد فی کیوبک فٹ ٹمبر ککے حساب سے لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments