اسلامائزیشن نہیں کاپی پیسٹ قومی رویہ



\"syed یار وہ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اس کا رویہ بالکل بھی نیچرل نہیں لگتا۔ اس کا اشارہ ہمارے کسی مشترکہ جاننے والے کی طرف تھا۔ بے سا ختہ میرے منہ سے نکلا  \’کیا مطلب؟ ان نیچرل  سے کیا مطلب ہے تمہارا؟ \’ \’یار لگتا ہے جیسے وہ ہر وقت دوسروں کے رویوں کو کاپی کر رہا ہو۔ اس کی اپنی کوئی ذاتی سوچ اور اپروچ نہ ہو۔ اس میں سب کچھ مصنوعی سا لگتا ہے کہ جیسے جگہ جگہ سے مس فٹ چیزیں اس نے اپنی شخصیت کے چوکھٹے میں ٹنگا دی ہوں۔ اس کے ساتھ ذرا سا ٹائم گزا رو تو عجیب سی بے کلی شخصیت پر طاری ہو جاتی ہے کہ یہ کیا بور انسان ہے؟ اس کی اپنی کوئی پرسنلٹی ہی نہیں ہے۔

میں اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا \’بعض لوگوں کی فطری طور پر یہ رویہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور بعض لوگ اس کو بعد میں اختیار کرتے ہیں۔ اس کی سائنسی نفسیا تی اور سما جی وجوہات ہیں۔ ایک حد تک تو یہ رویہ قابل برداشت ہوتا ہے لیکن اعتدال سے باہر یہ آپ کو نقل اتارنے والے بندر کی طرح بنا چھوڑتا ہے۔ سائنسی وجوہات کی طرف آئیں تو ہمارے دماغ میں ایک سپیشل قسم کے اعصابی خلیہ (mirror neurons)کے نام سے ہوتے ہیں۔ یہ خلیہ ہماری یاداشت بنانے سے لے کر ہنر سیکھنے(skill developing)  اور ہمارے سماجی رویوں تک میں بہت اہم رول پلے کرتے ہیں۔ جن لوگوں میں یہ نیورن زیادہ ہوتے ہیں ان کا حافظہ قدرتی طور پر بہت شاندار ہوتا ہے۔ عام طور پر اس طر ح کے لوگوں کو بہترین یادداشت کا مالک گردانا جاتا ہے۔ اسی طرح جب ہم کسی سے کوئی ہنر سیکھ رہے ہوتے ہیں تو یہی مرر نیوران ہمارے کام آتے ہیں۔ دوسروں کے جذبات کی اندازہ (reading) کر کے ان کے مطابق ریکٹ کرنے میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔

جو لوگ بہت زیادہ ان کا استعمال کرتے ہیں وہ کاپی پیسٹ پرسنالٹی بن جاتے ہیں، جیسے کمپیوٹر میں فائل ہو بہو ایک جگہ سے دوسری جگہ کاپی پیسٹ ہوجاتی ہیں اسی طرح یہ لوگ دوسروں کوکاپی کرکے اپنے شخصیت کا بھونڈے انداز میں حصہ بنا لیتے ہیں۔ نفسیاتی اور سماجی وجہ اگر دیکھی جائے تو یہ عادت دوسروں کو خوش رکھنے کے مائنڈسیٹ کے نتیجہ میں پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے معاشرہ آباء پرستی کا معاشرہ ہے آپ جتنا زیادہ کسی کو کاپی کریں گے وہ اتنا زیادہ آپ کے رویے کو تحسین کی نگاہ سے دیکھے گا۔ یہ عادت شروع تو یقیناً کسی ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوششوں سے ہوگی لیکن رفتہ رفتہ یہ آپ کے رویہ کا حصہ بن جاتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ آپ کی انفرادیت کو ہضم کر کے آپ کو دوسروں کی خواہشات کے دفتر کا آفس بوائے بنا چھوڑتی ہے۔

یہ کہہ کر ہماری گفتگو کا رخ تو دوسری طرف مڑ گیا لیکن کاپی پیسٹ کی یہ بحث میرے دماغ سے چپک کر رہ گئی اور میں سوچنے لگا کہ یہ صرف ہمارے دوست کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہم بحثیت سوسائٹی اس المیہ کا شکار ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی ایک خاص انفرادیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ خدائی عنایت ہوتی ہے۔ دنیا کی ساری ایجادات، آرٹ، سائنس، تعمیرات، موسیقی اور فنون لطیفہ میں ترقی اس انفرادیت کی بدولت ہی ممکن ہو سکی ہے۔ جب معاشرہ کسی فرد کو پروان چڑھا رہا ہوتا ہے توا س کی اسی انفر ادیت کو ایک حد تک دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ وہ سوسائٹی کے بندھنوں میں ایڈجسٹ ہو سکے۔ لیکن یہی دباؤ اگر حد سے زیادہ ہو جائے تو یہ انفرادیت کا گلا گھونٹ کر کاپی پیسٹ شخصایت دھڑا دھڑ پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح کے گھٹن والا سماج تخلیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہاں اوسط درجہ کے شاعر، ادیب، سیاستدان، دانشور اور لیڈر پیدا ہونے لگتے ہیں جو اپنے سے اگلی جنریشن کو اپنے سے بھی پست معیار پر لے آتے ہیں۔ غرض پستی کا یہ سلسلہ جاری رہ کر سوسائٹی کا زوال مکمل کر دیتا ہے۔

ہمارا معاشرہ بھی اسی زوال کا شکار ہے جس کا ذمہ دار عام طور پر ضیاء دور میں ہونے والی اسلامائزیشن کو قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں، ضیاء دور کو گزرے تیس برس بھی پورے نہیں ہوئے جب کہ ہم اس بانجھ پن کا پچھلی پانچ دہائیوں سے شکار ہیں۔ ہمارے سارے نامور ادیب، شاعر، دانشور اور بڑے لوگ تقسیم ہند سے پہلے کی پیدائش ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں تخلیق کرنے کی صلاحیت کی موت ضیا دور میں نہیں بلکہ ملک بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی کاپی پیسٹ کلچر کو فروغ دینے سے شروع ہوگئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس کو پوری طرح جڑ پکڑنے میں کئی دہائیں لگی اور اب یہ ہمارے قومی رویے کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔

آپ سب سے پہلے سکول اور کالج اور مدرسے میں چلے جائیں جو کسی بھی قوم کی نرسری شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو طالب علم جتنا بڑا رٹے باز ہوتا ہے اس کو اتنا ہی لائق سمجھا جاتا ہے۔ کتاب سے پڑھ کر اپنے الفاظ میں لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ غیر نصابی مطالعہ کا رجحان اور کلچر تقریبا ناپید ہے۔ نوٹس اور پیپرز کو رٹ کر امتحان پاس کر کے ڈگری لینی کی ہوا ہمارے ہاں عام ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سرقہ بازی کا راج ہے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں (thesis) کو بنانے سنوارنے کی ایک پوری مارکیٹ موجود ہے۔ مذہبی تعلیمی اداروں میں کئی سو سال پرانی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں، جس کی وجہ یا تو جید علماء کا قحط ہے جس کی وجہ سے صدیوں پرانی کتابیںبہتر نہیں ہو سکتی یا پھر وہاں بھی کام چلاؤ کی اس کاپی پیسٹ فلسفہ کی حکومت ہے۔ نجی شعبہ میں شاید پھر شاید تخلیقی صلاحیت اور نئے آئیڈیاز کو پنپنے دیا جاتا ہے، لیکن سرکاری اداروں میں تو شاید صرف وزیر اعلیٰ کے لیول پر پہنچ کر ہی شاید ان کی کوئی وقعت ہے۔ جی حضوری ہمارے سرکاری اداروں کا سب سے بڑا سروس رول ہے۔ غرض ہر طرف یہی اندھیر نگری ہے جس نے ترقی کا روشنی کو ہم سے کوسوں دور کردیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو ضیا دور میں ہونے والی لولی لنگڑی اسلامائزیشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی بجائے سچ بتایاجائے۔ تعصب کا شکار ہو کر کوسنے کی بجائے توجہ اصل بنیادی خرابیوں کی طرف دلانا ہی اصل نیک نیتی اور دانشوری ہے۔ سہل پسندی اور کاپی پیسٹ کا ہمارا قومی رویہ تبدیلی کا بڑی شدت سے محتاج ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں برداشت صرف اقلیتوں، سیاسی اور مذہبی مخالفین کے لئے ہی نہیں بلکہ انفرادیت اور تخلیقی رویوں کے لئے بھی پیدا کرنی ہوگی۔ تب ہی ہم شاید اپنے زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments