جان لیوا محبت اور عورت


کلاسیک ادب ایسے کرداروں سے بھرا پڑا ھے جنھوں نے لازوا ل محبت کی اور راہِ محبت میں جان دے کر جاوداں ھوے. فرھاد میاں نے\"hira اپنے تیشے سے ھی اپنی جان لے لی تو سوھنی کچے گھڑے پر بھروسہ کیے ابدی نیند سو گئی. شاہ لطیف نے کیا خوب منظر کشی کی ھے

گھڑا ٹوٹا تو یہ آواز آئی

 نہیں دونوں میں جدائی

شکستِ جسم خا کی سے ھے پیدا

ربابِ روح کی نغمہ سرائی

خیر صاحب، یہ قصےتو یادِ رفتگاں ھوے، سرعت سے بدلتی دنیا میں جہاں اور معانی بدلے وھیں عشق و جنوں کی قوسِ قزح میں بھی انواع رنگ ابھرے، کئی مدھم ھوے. صنفِ مخالف سے اختلاط جب کمیاب تھا، عشق چلمنوں کی اوٹ سے ہوتا تھا. اکیسوں صدی میں یہ محترمہ محبت جواں ھوئی، معصومیت کی جگھہ جنسیت غالب آئی تو گرل فرینڈ / بوائے فرینڈ بنانے کا رواج زور پکڑنے لگا، بھلا ہو ضیا الحق کا، چکلوں کو اسلامائیزیشن کی زد میں لے آئے اور جنسی بھوکے بلوں کو قوم کے گھر کا دروازہ دکھا گئے.

موجودہ پاکستانی معاشرے میں عورت کا مرد دوست رکھنا کوئی بڑی بات نہیں رھی۔ پچھلے کئی ایک سال سے ایسے کئی واقعات منظرِعام پر آ رھے ہیں جن میں عاشق کے ہاتھوں عورت کا قتل سرِ فہرست ہے. یہ عاشق حضرات محبوبہ کی بے وفائی سے دل برداشت ہو کر اس کو موت کی وادی ہی میں جھونک دیتے ھیں. یا ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے پریمی جوڑے کسی ناچاقی کی وجہ سے دنیا سے ہی پردہ کر لیتے ھیں. گویا غیرت کے بعد محبت کے نام پر قتل بھی اس مردانہ معاشرے کی روایت بنتی جا رہی ہے. صد افسوس اس مسلئے پر بہت کم قلم اٹھے۔ مذمت کجا ایسے واقعات کو قتل کی چٹ پٹی واردات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا گیا، جن پر کرائم سے بھرپور کرائم ڈرامے بنا کر چینل کی ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کی گئی. چاہے وہ خاتون سی ایس پی افسر کی المناک موت ہو یا چکوال سے تعلق رکھنے والی لڑکی کا قتل، ان واقعات کے پسِ پردہ عوامل پر گفتگو نہیں کی جاتی. میڈیکل کالج کی اس طالبہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں جس کو آخری پرچے کے بعد کمرہِ امتحان سے باہر بلوا کر اس کا عاشق گولی مار دیتا ھے کہ اس کی محبوبہ کی شادی کہیں اور ہونے والی تھی۔ ایسے واقعات توجہ کے طالب ھیں اور ایک سنگین معاشرتی رویے کی نشان دہی کرتے ھیں. نابالغ اذہان فلموں میں وفا اور بےوفائی کے جو پیمانے دیکھتے ھیں ان کو حقیقی زندگی میں اپنانے لگتے ہیں. اسی طرح نوجوانوں اور والدین میں رابطے کی کمی کی وجہ سے نوجوان اپنے نجی معاملا ت مخفی رکھتے ہیں خاص طور پر لڑکیاں جیسے بھی استحصال کا شکار ھوں وہ خاموش رہتی ھیں کسی کو بتا نہیں پاتیں کہ وہ کس پریشانی کا شکار ھیں. اگر گھر والے ہی بچوں کی غلطیوں سے درگزر کر کے ان کے مسائل سلجھانے کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو ہماری بیٹیاں یونہی قتل ھوتی رھیں گی. غیرت کے نام پر قتل قابل مذمت ہے مگر عشق کی بلی چڑھنے والی دوشیزائیں بھی انصاف کی طالب ہیں اور جان و مال کا تحفظ دینا حکومتوں سے زیادہ گھر کے مکینوں کا فرض ھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments