حاٖفظ سعید اب بس اللہ اللہ کریں


\"wisiحافظ سعید اک بار پھر کشمیر پنگے میں دھم سے جا کودے ہیں۔ وادی میں آگ لگی ہوئی ہے ۔ بھارتی حکومت کے پاس وہاں اپنی ریاستی دہشت گردی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے خارجہ ماہرین کے ساتھ سر جوڑ رکھے تھے ۔ ان کا کہبنا تھا کہ کشمیر کی صورتحال کی وجہ سے بھارت کو عالمی سطح پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ایسے وقت میں جب بھارتی خارجہ آفس نے پاکستانی تنقید کے جواب میں خاموش رہنے کی حکمت عملی اپنا لی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خاموش رہ کر اتنا وقت گزار جائے کہ معاملہ ٹھنڈا ہو سکے۔ بھارتی حکومت کو اس مشکل صورتحال سے کیسے نکلنا ہے اس کی راہ نہیں دکھائی دے رہی تھی ۔ حافظ سعید نے بھارتی حکومت کی مشکل آسان کی۔ مقبوضہ وادی میں اپنی میڈیکل ٹیم بھیجنے کا اعلان کر دیا۔

برہان  وانی نے اپنے خون سے جو شعلہ بھڑکایا تھا ۔ حافظ صاحب نے اس پر بن بادل برسات کر کے دکھا دی ہے۔ میڈیکل ٹیم پہلے تو بھیجنے کا صرف اعلان ہی کیا تھا۔ حافظ صاحب کے مداحوں کا خیال یہی تھا کہ یہ ٹیم ویسے ہی جائے گی جیسے حافظ صاحب کے ملنگ داد شجاعت دینے جایا کرتے تھے۔

بھارت کو موقع مل گیا کہ حافظ صاحب کا اعلان سامنے آنے کے بعد کشمیر میں جاری تحریک کو دہشت گردی سے جوڑ سکے۔ بھارت کو جس پھٹکار کا دنیا بھر میں سامنا تھا اس ایک اعلان سے اس کا خاتمہ ہو گیا۔ ڈیمج کنٹرول کے لئے جماعت الدعوہ نے اپنے میڈیکل ٹیم کے لئے بھارتی ویزے اپلائی کر دئے۔ یہ ویزوں کی درخواستیں تو مسترد ہی ہونی ہیں ۔ پر ان بیانوں کی قلابازیوں نے بھارت کو درکار ریلیف فراہم کر دیا ہے۔

ساری دنیا دہشت گردی سے تنگ ہے۔ امریکہ یورپ میں بار بار ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ جب بھی کوئی ایشو دہشت گردی سے ٹھیک یا غلط جڑتا ہے تو اس کی اہمیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔

ہمارا جو بھی موقف ہو، قانونی کیس جتنا بھی تھکا ہارا ہو۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے دنیا کا تاثر یہی ہے کہ حافظ صاحب کی جماعت اس کارروائی کے پیچھے تھی۔

مسلح جدوجہد کے زمانے گزر چکے ہیں۔ کسی بھی تحریک کے لئے مسلح جدوجہد اب نری خود کشی ہے۔ مسلح جدوجہد کا لئے اگر کوئی \"Hafiz-Saeed-Horse\"کیس بنتا بھی ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر کے اندر ہی ہو سکتا ہے۔ کشمیریوں کی اپنی اٹھائی ہوئی مسلح تحریک کا پھر بھی کوئی جواز ہو سکتا ہے۔ اگر وہ عالمی جنگی قوانین کے مطابق ہو۔ جموں کشمیر کے سوا بھارت کی سرحدوں کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارا کسی بھارتی شہر قصبے کھیت یا انچ پر کوئی دعوی نہیں۔

نریندر مودی جب وزیر اعظم بنے تو انکے ایک مشیر قسم کے دوست نے حافظ سعید سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد حافظ صاحب نے جو بیان دیا تھا اس کا ایک جملہ میڈیا نے نظر انداز کر دیا تھا۔ حافظ صاحب نے کہا تھا کہ مودی اگر پاکستان آتے ہیں تو انہیں ویلکم کریں گے۔ جب مودی پاکستان آئے تو حافظ صاحب نے ان کے دورے کو زخموں پر نمک پاشی قرار دیا۔

پاکستان بھارت کے اچھے تعلقات میں اب ممبئ حملے ایک بڑی رکاوٹ کی صورت موجود ہیں۔ ممبئی حملوں کی وجہ سے حافظ صاحب مستقل ایک مسلہ بنے رہیں گے۔ حافظ سعید سے نریندر مودی کے دوست کی ملاقات کا ایک اور مقصد بھی تھا۔ یہ ایک خاموش پیغام تھا کہ حافظ صاحب وہی کریں جو مودی نے کیا گجرات فسادات کے بعد۔ سیاست میں آ کر اپنی پبلک سپورٹ ثابت کی۔ آپ بھی پارلیمنٹ میں آئیں تاکہ مسائل کے حل کی کوئی صورت نکلے۔

حافظ صاحب سیاست آئین اور ملکی نظام وغیرہ کو غیر شرعی سمجھتے ہیں۔ ویسے وہ تصویر کھنچوانے کے بھی خلاف ہوا کرتے تھے۔ پھر جب ضرورت محسوس ہوئی تو ’’ان کے‘‘ کہنے پر حاافظ صاحب چلمن کی اوٹ سے یہ کہتے ہوئے سامنے آ گئے کہ کھچ میری فوٹو۔
سیاست میں چھلانگ مارنے کی کوشش حافظ صاحب نے ضرور کی تھی۔ یہ بتانے والے اس کے بعد جو کچھ بتاتے ہیں وہ ایک کامیڈی فلم لگتی ہے۔ شیخ صاحب پنڈی شریف والے کو سیاسی چہرہ بنا کر آگے لانے کی کوشش مزاح کے علاوہ کچھ اور ہے تو کوئی ہمیں بھی سمجھا دے۔

حافظ صاحب کے تربیت یافتہ لوگ اچھے فائیٹر مانے جاتے تھے۔ اب انکی تنظیم نے اپنا رخ فلاحی کاموں کی جانب کر دیا ہے۔ جب انکا فوکس عسکریت کی جانب تھا تب بھی انکی تنظیم اپنے آئیڈیاز کی وجہ سے مشہور ہوئی تھی۔ جب فلاحی کاموں کی جانب رخ کیا تو جلد ہی وسائیل کے حوالے سے بہت مضبوط ادارے کے طور پر سامنے آئے۔

اناج یعنی گندم چاول زخیرہ کرنے کے حوالے سے اس وقت حافظ صاحب کی تنظیم پنجاب حکومت سے زیادہ نہیں تو برابر کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کاروبار پر اب انکے کنٹرول کو نظر انداز نہیں کیا سکتا۔ حافظ صاحب نے جب اپنی تنظیم قائیم کی تھی۔ تب شروع کے دنوں میں حافظ سعید یحی مجاہد کے سائیکل پر انکے پیچھے بیٹھ کر اپنی تنظیمی مہم چلایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اپنی تنظیم کو ایک کر دکھانے والی مشین میں ڈھالا۔

حال ہی میں کابل میں سہ فریقی فوجی اتحاد کا اجلاس ہوا ہے۔ پاکستان امریکہ اور افغانستان کے فوجی اہلکاروں نے اجلاس میں شرکت کی۔ افغان نمائندے نے داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا تعلق حافظ سعید سے جوڑا۔ داعش کے علاقائی سربراہ کا نام سعید خان ہے۔ افغان اہلکار جتنے بھی گئے گزرے ہوں اتنے سائیں لوگ نہیں ہو سکتے کہ ناموں کا یہ فرق نہ جانتے ہوں۔

یہ آغاز ہوا ہے حافظ سعید کے خلاف ایک اور مہم کا۔ بھارت کی وجہ سے امریکہ ان کے خلاف بیان دیتا اور اقدام کرتا رہا ہے۔ اب ہمارے دوسرے قریبی ہمسائے نے اعتراض داغ دیا ہے۔

کشمیر کے سب سے باخبر مقامی صحافی افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیر کی مقامی تحریک سے شدید خوفزدہ ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ اس نئی تحریک کا مقامی ہونا ہے۔ بھارت کی خواہش اور کوشش ہے کہ کوئی چھوٹی موٹی عسکری تحریک اٹھے۔ تاکہ دہشت گردی کے خلاف موجود عالمی جزبات اور حساسیت کو کشمیر کی مقامی تحریک کچلنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

افتخار گیلانی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بی بی سی کے ساتھ منسلک رہے ہیں انکے صحافتی اہمیت مسلمہ ہے۔ وہ بھارتی دارلحکومت دہلی میں رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ سید علی گیلانی کے بھتیجے اور داماد ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ریاستی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔حافظ صاحب کو باقاعدہ گراؤنڈ کیا جائے۔ کشمیر میں جاری تحریک کو ہر صورت پر امن رہنے دیا جائے۔ اس کی اخلاقی حمایت ہمارا فرض ہے۔

حافظ صاحب کو خود بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذات اور تنظیم کے حوالے سے سود و زیاں کا حساب کریں۔ بس کر دیں بیان دینے بھی چھوڑ دیں اب بس اللہ اللہ ہی کیا کریں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments