یورپ میں اسلام کے نام پر دہشت گردی


\"edit\"دہشت اور بربریت کے واقعات کی جو خبریں شام اور عراق کے ان مصیبت زدہ علاقوں سے موصول ہوتی ہیں جو نام نہاد اسلامی خلافت یا دولت اسلامیہ کے زیر اثر ہیں ۔۔۔۔۔ اب ان کا رخ یورپ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ دولت اسلامیہ سے متاثر دو نوجوانوں نے کل صبح فرانس کے علاقے نارمنڈی کے ایک چھوٹے سے کیتھولک چرچ پر حملہ کیا اور 84 سالہ پادری جیکوئس ہامل کو گلا کاٹ کر ذبح کر دیا۔ اس وقت چرچ میں چار پانچ مزید لوگ بھی تھے جنہیں یرغمال بنا لیا گیا۔ تاہم پولیس نے موقع پر پہنچ کر حملہ آوروں کو باہر نکلنے پر آمادہ کر لیا۔ البتہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے جسم سے بم بندھے ہیں۔ اس لئے پولیس نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ دونوں حملہ آوروں میں سے کسی کے پاس بارود نہیں تھا۔ وہ صرف مرنے کےلئے یہ ڈھونگ رچا رہے تھے۔ اس سے قبل 19 جولائی کو ایک 17 سالہ افغان پناہ گزین نے جنوبی جرمنی میں ایک ٹرین پر سوار ہو کر کلہاڑی اور چاقو سے مسافروں پر حملہ کر دیا۔ اس نے چار افراد کو زخمی کر دیا اور خود پولیس کی گولی سے مارا گیا۔ اس کا تعلق بھی داعش سے تھا۔ اس دہشتگرد تنظیم نے دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

اس سے قبل 14 جولائی کو فرانس کے قومی دن کے موقع پر ایک شخص نے ایک تقریب سے باہر نکلنے والے لوگوں پر ٹرک چڑھا دیا اور دو کلومیٹر تک انسانوں کو کچلتا ہوا چلا گیا۔ اس حملہ میں 80 افراد جان سے گئے جن میں درجن بھر بچے اور کئی خواتین شامل تھیں۔ یہ تینوں حملے اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھے۔ تینوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے۔ تینوں حملوں میں حملہ آور مرنے کی نیت سے مارنے کےلئے آئے تھے۔ نیس کے علاوہ دوسرے دونوں واقعات میں حملہ آور زیادہ جانی نقصان نہیں کر سکے، لیکن وہ خوف اور بے یقینی کی ایسی فضا پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں جو یورپ میں آباد مسلمانوں اور مقامی آبادیوں کے درمیان تعلق کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ یہی دہشتگردوں کی کامیابی ہے اور مسلمانوں کو اسی ہتھکنڈے سے باخبر ہونے اور اس کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے۔

فرانس کے صدر فرانسس اولاند نے نارمنڈی حملہ کے بعد اس علاقے کا دورہ کیا اور دہشتگردی کےخلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے اقرار کیا کہ یہ جنگ طویل اور مشکل ہے لیکن ہمیں بہرصورت اس میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ فرانس کے صدر اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ دہشت گرد مختلف عقائد اور مذاہب کے درمیان تفرقہ پیدا کر کے معاشرے میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے آج مسلمانوں سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی لیڈروں سے ملاقات کی اور معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کےلئے تعاون کی اپیل کی۔ مذہبی رہنماؤں نے فرانسیسی صدر کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے مذہبی عبادت گاہوں کی سکیورٹی سخت کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور یہ واضح کیا کہ دہشت گرد مختلف عقائد کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ہتھکنڈے کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

اس دوران ہفتہ کے روز کابل میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ایک ہجوم پر دو بم دھماکے کئے گئے۔ ان حملوں میں 80 افراد جاں بحق اور 231 زخمی ہو گئے۔ اتوار کو شمالی بغداد میں بم دھماکہ میں 21 افراد جان سے گئے اور آج صبح شام کی ترکی کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب ایک کرد قصبہ میں دو خودکش حملوں میں 44 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ دولت اسلامیہ کے تحت ہونے والے یہ سارے حملے دو باتوں کو واضح کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عراق اور شام میں اب یہ گروہ چاروں طرف سے دباؤ محسوس کر رہا ہے اور اسے کم کرنے اور اپنے ہمدردوں کے حوصلے بلند کرنے کےلئے وہ دہشتگردی کے زیادہ سے زیادہ واقعات کے ذریعے خوف اور دہشت کی فضا برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس حکمت عملی کا بنیادی مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ اس گروہ کی طاقت کسی علاقے پر قبضہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں اس کے ہمدرد اور متاثرین اپنے لیڈروں کے اشارے پر موقع ملتے ہی خوں ریزی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ عراق، شام اور افغانستان کے جنگ زدہ علاقوں میں اس گروہ کے لئے اپنی جگہ بنا لینا اور سخت سکیورٹی کے باوجود خطرناک حملے کرنا زیادہ آسان ہے۔ اس لئے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کابل ، بغداد اور شام کے قصبے کماشلی میں ہونے والے حملوں میں زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ لیکن ان کے مقابلے میں فرانس اور جرمنی میں ہونے والے تازہ ترین دو حملوں میں زیادہ لوگ نہیں مارے جا سکے۔ البتہ نیس کے حملہ میں 80 افراد کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ ان سب حملوں کا مقصد تفرقہ اور انتشار کو ہوا دینا ہے۔

اگرچہ مسلمان ملکوں میں ہونے والے حملے بھی فرقہ واریت کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ کابل کا حملہ ہزارہ لوگوں پر ہوا ہے جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ بغداد میں بھی شیعہ آبادی پر حملہ کیا گیا تھا جبکہ کرد قصبے کماشلی میں ہونے والے دھماکوں میں کردوں کو نشانہ بنانا مطلوب تھا کیونکہ داعش کے خلاف جنگ کے دوران کردوں نے ہی زمین پر اس گروہ کے جنگجوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ تاہم اس جنگجوئی کا مقصد نہ تو زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنا ہے اور نہ ہی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرنا اصل مدعا ہے۔ یہ بات خاص طور سے فرانس اور جرمنی میں ہونے والے واقعات سے واضح ہوتی ہے۔ ان سانحات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ داعش خوف پھیلانے کےلئے نت نئے طریقے دریافت کرنے میں دسترس رکھتی ہے۔ چاقوؤں سے حملوں کے بعد اب صرف بندوق بردار حملہ آور سے ہی چوکنا ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی اور نہ صرف بم دھماکوں کے ذریعے لوگوں کو مارنے کا طریقہ واحد ہتھکنڈہ ہے۔ اب یہ خطرناک گروہ اپنے ہمدردوں کو لوگوں پر بھاری ٹرک چڑھانے، چاقو یا کلہاڑی سے حملہ کرنے یا ایک چرچ میں پادری کو ذبح کرنے پر بھی آمادہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

داعش ماضی میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں لوگوں کو ہلاک کرنے کےلئے مختلف طریقے اختیار کرتی رہی ہے۔ ان ہتھکنڈوں کا مقصد دنیا کو حیران کرتے ہوئے لوگوں کی زیادہ توجہ حاصل کرنا ہوتا تھا۔ اس لئے یرغمال کئے گئے لوگوں کے گلے کاٹنے، بعض مجرموں کو اونچی عمارتوں سے نیچے پھینکنے یا پانی میں غوطے دے دے کر مارنے کے طریقے اختیار کئے گئے۔ حتیٰ کہ اردن کے ایک پائلٹ کو پنجرے میں بند کر کے زندہ جلانے کے سفاکانہ طریقے پر بھی عمل کیا گیا۔ بربریت کے ان واقعات کی ویڈیو داعش خود ہی بناتی تھی اور اسے مغربی میڈیا کو فراہم کیا جاتا تھا۔ ان طریقوں سے خوف کی کیفیت پیدا کرنا مطلوب تھا اور داعش اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہی تھی۔ البتہ اب انسانوں کے ہجوم پر ٹرک چڑھانے یا چاقو اور کلہاڑی سے لوگوں کو مارنے کا جو طریقہ یورپ کے ملکوں میں اختیار کیا گیا ہے، اس کے دور رس اور نہایت سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ صرف فرانس میں 50 لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ اسی طرح جرمنی ، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اگر مقامی آبادیوں میں یہ خوف پیدا ہو جائے کہ نہ جانے کب کوئی مسلمان یا ان جیسا دکھنے والا شخص جیب سے چاقو نکال کر حملہ کر سکتا ہے تو معاشرے میں پیدا ہونے والی طبقاتی دوری کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

یورپ اور امریکہ کے دائیں بازو کے انتہا پسند پہلے سے مسلمانوں کو یکساں طور سے شدت پسند اور دہشتگردوں کا دوست ثابت کرنے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ دہشتگردی کے مختلف واقعات کو یوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ مقامی آبادیوں میں مسلمانوں کے بارے میں خوف اور شبہ کی پراسرار فضا پیدا ہو رہی ہے۔ اسی لئے فرانس سے لے کر سویڈن تک تمام یورپی ملکوں میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ میں یہ کام ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔ یہ لوگوں کے خوف اور بدلتے ہوئے رویوں ہی کا ثبوت ہے کہ ٹرمپ سخت مخالفت اور تبصرہ نگاروں کے انتباہ کے باوجود اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے میکسیکو کے باشندوں ، عورتوں اور دیگر کمزور طبقوں کےخلاف بھی اشتعال انگیز باتیں کی ہیں لیکن ان کا خاص ہدف مسلمان ہی رہے ہیں۔ یورپ یا امریکہ میں ہونے والا دہشتگردی کا کوئی بھی واقعہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی نفرت انگیز مہم میں اضافہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس طرح وہ خوفزدہ لوگوں کی ہمدردیاں اور ووٹ سمیٹنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال مغربی جمہوریتوں کےلئے ایک سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس خطرے سے نمٹنے کےلئے مغربی معاشروں کو بھی چوکنا ہونا پڑے گا اور مسلمانوں کو اپنے طور پر بھی خطرات کا اندازہ کرتے ہوئے صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہونا پڑے گا۔ خاص طور سے یہ حقیقت بے حد تشویش کا سبب ہے کہ نوجوان مسلمان داعش یا دوسرے دہشتگرد گروہوں اور ان کے ہم خیال مذہبی رہنماؤں کی فراہم کردہ یک طرفہ معلومات کی بنیاد پر سخت گیر رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض ایک قدم آگے بڑھ کر خود دہشتگردی میں ان گروہوں کے آلہ کار بھی بن جاتے ہیں کیونکہ انہیں یہ باور کروا دیا جاتا ہے کہ وہ اس طرح جنت کے حقدار ہو جائیں گے۔ یہ نوجوان اس گمراہ کن تبلیغ کو مسترد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی ادارے اور رہنما نہ تو ان نوجوانوں کے ساتھ مواصلت کی کوشش کرتے ہیں اور نہ انہیں سوال کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ اسلامی حلقوں میں عام طور سے سوال کرنے کو گمراہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس منفی رویہ کے مظاہر ہم پاکستان جیسے معاشروں میں دیکھ سکتے ہیں جہاں سنی سنائی باتوں پر لوگ دین کے نام پر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ گھوٹکی میں دو ہندو نوجوانوں پر حملہ اس خطرناک انتہا پسندی کی تازہ ترین مثال ہے۔ بدقسمتی سے یورپ کے مذہبی گروہ بھی اپنے طرز عمل کے اعتبار سے پاکستان کے مذہبی زعما سے مختلف نہیں ہیں۔ اکثر مساجد اور اسلامی مراکز کو صرف عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ یا پھر مرنے کے بعد حاصل ہونے والے ثمرات کا حال مزے لے لے کر بیان کیا جاتا ہے۔ بہت کم علمائے کرام زندگی کے فوائد اور اس نعمت خداوندی سے بہرہ ور ہونے کے بارے میں بات کرنے کےلئے تیار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس رویہ سے فوری طور پر نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں دنیا نے جن واقعات کا مشاہدہ کیا ہے، اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ ان کی شدت میں اضافہ ہو جائے اور یہ سانحات کثرت سے رونما ہونے لگیں۔ اس وحشت سے اپنے نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کےلئے صرف افسوس کرنے یا یہ قرار دینے سے کام نہیں چل سکتا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اس میں انسان کو قتل کرنا منع ہے۔ جب مسلمانوں کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں یا سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے ہلاک کیا جا رہا ہو تو ان فلسفیانہ باتوں کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اب مسلمانوں کو عملی طور پر یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ امن سے محبت کرتے ہیں اور اپنی صفوں میں ہلاکت اور مار دھاڑ کی باتیں کرنے والے ہر شخص اور گروہ کا راستہ روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کام کا آغاز جتنا یورپ اور امریکہ کے شہروں میں ضروری ہے، اتنا ہی پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں بھی امن کے اس پیغام کو عام کرنا اہم ہے۔ نوجوانوں کو شدت پسندی سے دور رکھنے اور مشتبہ عناصر کی نگرانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی صورت میں مسلمان موجودہ بحران سے نکل سکتے ہیں اور اپنے عقیدے اور طرز زندگی پر ہونے والے اس حملہ سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں جو ان کی اپنی ہی صفوں سے ان پر کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments