سگریٹ نوشی کے نقصانات


تمباکو ایک پودے سے حاصل ہوتا ہے جو قدرتی طور پر شمالی اور جنوبی امریکہ میں اگتا ہے۔ یہ پودا اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس سے آلو اور مرچوں کے پودے تعلق رکھتے ہیں۔ تمباکو کا بیج بالکل چھوٹا سا ہوتا ہے۔ ایک اونس میں تقریبا” 300 ہزار بیج ہوتے ہیں۔ اندازا” تمباکو کا پودا امریکہ میں 6000 قبل مسیح سے اگنا شروع ہوا تھا۔ ریڈ انڈین لوگوں نے تمباکو کو قبل مسیح زمانے سے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ اس کو مذہبی اور طبی طریقے سے استعمال کرتے تھے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمباکو سے سب بیماریوں کا علاج ممکن ہے، اس کو زخموں پر رکھا جاتا تھا اور درد کا علاج کرنے کے لئیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تمباکو چبانے سے سمجھا جاتا تھا کہ اس سے دانت کے درد میں فائدہ حاصل ہوگا۔

اکتوبر 15، 1492 میں کرسٹوفر کولمبس کو ریڈ انڈین لوگوں نے سوکھے ہوئے تمباکو کے پتے تحفے میں دئیے۔ اس کے بعد یہ ملاح تمباکو کو یورپ لائے اور وہاں اگانا شروع کیا۔ اس زمانے میں یورپین سمجھتے تھے کہ تمباکو سے تمام بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ یہاں تک کہ کینسر تک کا علاج اس سے ممکن ہے۔ 1571 میں ایک ہسپانوی ڈاکٹر نے کتاب تک لکھی کہ تمباکو سے 36 مختلف بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب کے سامنے آ گیا کہ تمباکو نوشی صحت کے لئیے نہایت مضر ہے۔ 1588 میں ورجینیا کے ایک صاحب نے یہ آئیڈیا پیش کیا کہ تمباکو کو ناک کے ذرئعیے جسم میں داخل کیا جائے۔ ان صاحب کی ناک کے کینسر سے موت ہوئی۔ 1600 کی صدی میں تو تمباکو کو پیسوں کی طرح استعمال کیا جانے لگا اور اس کی سونے چاندی کی طرح اہمیت ہوگئی۔ اس زمانے میں تمباکو کے نقصانات سامنے آنا شروع ہوئے۔ 1610 میں سر فرانسس بیکن نے نوٹ کیا کہ تمباکو کی بری عادت سے جان چھڑانا نہایت مشکل کام ہے۔ 1632 میں ماساچوسٹس میں عوامی طور پر سگریٹ نوشی کرنے کوغیر قانونی بنا دیا گیا لیکن اس کی کوئی سائنسی یا صحت سے متعلق وجہ نہیں بتائی گئی۔ اس کا تعلق صرف اخلاقیات سے جوڑا گیا جو کہ سب کی الگ ہوتی ہیں۔ 1760 میں پئیر لولیارڈ نے نیویارک میں کمپنی بنائی جو آج تمباکو بنانے والی سب سے پرانی کمپنی ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں تمباکو کا استعمال اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ خواتین کے لئیے سگریٹ بنانے والی کمپنیوں میں بھی اضافہ ہوا تاکہ خریداروں کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ دوسری جنگ عظیم میں تمباکو کے استعمال میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں ایسی شواہدات سامنے آنے لگیں جن سے اندازہ ہوا کہ سگریٹ نوشی کا پھیپھڑوں کے کینسر سے تعلق ہے۔ 1964 میں سرجن جنرل کی رپورٹ نکلی۔ اس رپورٹ سے گورنمنٹ کو تمباکو کی فروخت اور اشتہاروں پر اثرانداز ہونے میں مدد ملی۔ اس کے بعد سگریٹ کے ڈبوں پر صحت کے لئیے مضر ہونے کی وارننگ بھی دی گئی۔ 1980 کی دہائی میں سگریٹ بنانے والی کمپنیوں پر کیس دائر کئیے گئے اور عوامی جگہوں پر ان کے استعمال پر پابندی لگادی گئی۔ سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کے کینسر خواتین میں چھاتی کے کینسر سے تجاوز کرگئے۔ اب یہ بات سب کے سامنے آچکی ہے کہ سگریٹ بیچنے والی کمپنیوں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی لوگوں کو سگریٹ کا عادی بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔

سگریٹ نکوٹین کو مہارت سے جسم میں جلد سے جلد داخل کرنے کا ایک آلہ ہے۔ اس میں کئی خطرناک کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں جن کے انسانی جسم پر زہریلے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سگریٹ نوشی سے نہ صرف پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بلکہ اس سے دل کے دورے، ذیابیطس کے خطرے، اسٹروک اور کئی دیگر طرح کے کینسروں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

کسی بھی روئیے میں تبدیلی لانا مقصود ہو تو اس کی درجہ بندی کے بارے میں سیکھنا اور سمجھنا نہایت اہم ہے۔ تبدیلی کی چار سطحیں ہوتی ہیں۔ پہلی سطح میں لوگوں کو اس بات کے بارے میں آگہی نہیں ہوتی کہ ان کے روئیے میں کچھ غلط بات ہے یا ان کی زندگی میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس سٹیج کو پری کانٹیمپلیشن کہتے ہیں۔اکثر مریضوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ سگریٹ پینے میں کوئی خرابی ہے۔ تو علاج کرنے والے افراد کے لئیے ضروری ہے کہ وہ ایسے مسائل کو مریض کی آنکھوں کے سامنے لانے کی کوشش کریں جن سے ان کی اور ان کے ارد گرد کے افراد کی زندگی کو خطرات ہوتے ہیں۔ بہت سے مریض ہوتے ہیں جو کافی عرصے سے اسموکنگ کررہے ہوتے ہیں ان کے سارے دوست بھی کرتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا تک نہیں ہوتا کہ اسموکنگ میں کوئی برائی ہے۔ جب مریض کی معلومات میں اضافہ ہو جائے کہ ایک مسئلہ موجود ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے تو تبدیلی کی اس سطح کو کانٹمپلیشن کہتے ہیں۔ اس سطح پر ابھی مریض اپنے غلط روئیے سے باعلم تو ہیں لیکن اس میں تبدیلی لانے کے لئیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ تیاری کی سطح کو پریپئریشن کی سٹیج کہا جاتا ہے جہاں وہ اس روئیے میں تبدیلی لانے کی تیاری شروع کرتے ہیں۔

اس کے بعد تبدیلی کی سطح آتی ہے جس کو ایکشن کی سطح کہا جاتا ہےاور اس کے بعد سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ مریض دوبارہ سے پرانی عادت شروع کرسکتے ہیں۔ کوشش کے ساتھ عادتوں سے دور رہنے کی عادت بنا لینا ایک مستقل جدوجہد کا کام ہے کیونکہ لوگ آسانی سے نہیں بدلتے۔ اس سٹیج کو مین ٹینینس کہتے ہیں۔ ایک کتاب میں میں نے پڑھا تھا کہ اگر 10 لوگوں سے کہا جائے کہ آپ بدل جائیں ورنہ آپ کو جان سے مار دیا جائے گا تو ان میں سے صرف ایک بدلنے پر راضی ہوگا۔ لیکن ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے ورنہ ہم ان مریضوں کی مدد نہیں کرسکتے۔

Stages of change

Pre-Contemplation

Contemplation

Preparation

Action

Maintenance

آپ سگریٹ نوشی کیسے ترک کرسکتےہیں؟

سگریٹ چھوڑنے کے لئیے تاریخ طے کریں۔ آج کل کئی ایسی دوائیں دستیاب ہیں جن کی مدد سے سگریٹ نوشی چھوڑی جا سکتی ہے۔ ان دواؤں میں نکوٹین پیچ، چینٹکس اور بیوپروپیون دوائیں شامل ہیں۔ نکوٹین گم سگریٹ پینے سے کافی کم خطرناک ہے۔ اور جب اسموکنگ چھوڑ دی ہے تو واپس جانے سے خود کو بچاتے رہیں۔

Medications to quit smoking

Nicotine patches

Nicotine gum

Chantix

Bupropion


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments