دلی والو، تم بالکل ہم جیسے نکلے۔۔۔


جولائی کی 10 تاریخ تھی۔ وہ 2006 کا ایک گرم دن تھا۔ سب امور زندگی حسب معمول رواں دواں تھے۔ اچانک دن کو بارہ بجے ٹی وی پر یہ الم ناک خبر دیکھی کہ پی آئی اے کا فوکر طیارہ ملتان سے لاہور کے لیے ٹیک آف کرتے ہی گر گیا ہے اور تمام مسافر مع عملہ حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ اتفاق سے چھٹی کا دن تھا۔ ایئرپورٹ سے کال آگئی کہ ایمرجنسی ہے، فوراً پہنچو۔

جاتے ہی سب سے پہلے مسافروں کی فہرستیں شائع کرنا تھیں، ائیرپورٹ اور متعلقہ سڑکیں اتنی دیر میں ہی کھچا کھچ بھر گئی تھیں۔ بمشکل تمام آفس تک رسائی ملی۔ آفس پہنچتے ہی لواحقین کے جم غفیر نے گھیر لیا۔ ہر شخص مختلف قسم کے سوالات کر رہا تھا جن کے خاطر خواہ جواب دینا زمینی عملہ کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ اس لیے کہ یہ ان کی زندگی کا بھی پہلا ہوائی حادثہ تھا۔ لوگ مختلف مطالبے کر رہے تھے، آپ حیران ہوں گے کہ ابھی جہاز کی آگ پوری طرح بجھائی بھی نہ جا سکی تھی کہ ایک صاحب زور زور سے چلاتے ہوئے آ گئے، “میری ماں اس حادثے میں ہلاک ہو گئی ہے، مجھے مکمل معاوضہ (انشورنس کی رقم) اسی وقت چاہئیے۔” انہیں بہت سمجھایا کہ یہ ایک مکمل کارروائی ہوتی ہے جس میں چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ مگر وہ مان کے ہی نہیں دے رہے تھے۔ ان لوگوں میں اخباری رپورٹر بھی تھے جو وہاں کام کرنے والوں کے تاثرات اور متوقع اقدامات جاننے کے لیے متجسس تھے۔ اس دوران عملہ کے چند لوگ جائے حادثہ پر پہنچ چکے تھے، انہی سے معلوم ہوا کہ لاشوں کو ایک ایک کر کے نشتر ہسپتال کے لیے روانہ کیا جا رہا ہے۔ جوں ہی یہ اعلان کیا گیا لوگ فوراً اپنے پیاروں کی میت وصول کرنے کے لیے وہاں روانہ ہو گئے اور ائیرپورٹ پر بھیڑ کچھ کم ہو گئی۔

سب سے پہلے کرائسس کنٹرول روم قائم کر کے وہاں چار عدد ٹیلی فون اور فیکس لگائے گئے تاکہ عوام الناس کا رابطہ ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جا سکیں۔ راقم کو اس سینٹر کا انچارج بنایا گیا۔ اس افسوس ناک حادثے میں مرنے والے یوں تو ملتان سے تعلق رکھنے والے کافی نابغے تھے مگر عالمی شہرت یافتہ برین سپیشلسٹ ڈاکٹر افتخار راجہ کے انتقال سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ انہی بدقسمت مسافروں میں ہمارے دوست اور کولیگ اعجاز علی چٹھہ صاحب بھی تھے جو ان دنوں سٹیشن مینیجر پی آئی اے دہلی کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ ہم دونوں ایک ہی گروپ میں تھے، راقم ان سے ایک نمبر جونئیر تھا چنانچہ دہلی کی خالی نشست کو پر کرنے کے لیے اگلے ہی دن یعنی گیارہ جولائی کو دہلی پوسٹنگ کے احکامات وصول ہو گئے۔ انتہائی غمزدہ ماحول میں یہ اچھی اطلاع سننے کو ملی، یقین جانیے ایک لمحے کو بھی خوشی نہیں ہوئی بلکہ ایک عجیب سا بوجھ دل پر محسوس ہوا کہ اپنے دوست کی جگہ ان حالات میں جانا پڑ رہا ہے، بہرحال اسی کا نام دنیا ہے۔

شام کو گھر جا کر بیگم کو بتایا کہ ایک نئی اور منفرد سی خبر ہے۔ فورا بولیں، کیا آپ کی پوسٹنگ دہلی ہو گئی ہے؟ ہم حیران رہ گئے کہ انہیں کس نے بتایا۔ کہنے لگیں کل رات سے یہی خیال آ رہا ہے کہ شاید آپ کو مرحوم کی جگہ بھیجا جائے گا مگر آپ سے اس لیے ذکر نہیں کیا کہ حسب معمول خفا ہو جائیں گے کہ میرے دفتری معاملات میں ٹانگ کیوں اڑاتی ہو۔ ہم نے کہا بھئی تم تو ولی اللہ ہو گئی ہو، خوب اندازہ لگایا!

اگلے دن ڈیوٹی پر پہنچے تو پورے سٹیشن پر خبر پھیل چکی تھی اور سب نے مبارک باد دینا شروع کر دی۔ اور تو اور دو فون دہلی سے بھی آ گئے کہ جلدی آئیے ہم بے چینی سے چشم براہ ہیں۔ ایک ہفتے کے اندر اندر سفری کاغذات کی تکمیل کر کے اسلام آباد گئے اور ہندوستانی سفارت خانے میں پاسپورٹ اور کاغذات جمع کرا کے ویزہ ملنے کے لامتناہی انتظار میں بیٹھ گئے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہندوستان کا ویزہ ملنے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کاغذات کتنے مراحل سے گزرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے سوچ لیا تھا کہ چھ ماہ سے کم مدت میں ویزہ نہیں ملے گا (برسبیل تذکرہ مشکلات سے یاد آیا کہ نیروبی کے قیام کے دوران ایک دن ثریا کہنے لگیں، جمال صاحب، آپ نہیں جانتے یہاں ائیرپورٹ پر جاب کرنے میں اتنی مشکلاتیں ہوتی ہیں کہ کیا بتاؤں۔ ہم نے جواباً کہا کہ بی بی مشکلیں جتنی بھی زیادہ ہوں مشکلات سے آگے نہیں جا سکتیں کہ وہ مشکل کا آخری درجہ ہے۔ خوب لطف اندوز ہوئیں، اور جواباً انتہائی حسین مسکراہٹ سے نوازا۔)

بالاخر وہ شبھ گھڑی آ ہی گئی جب ہمیں اسلام آباد سے اطلاع ملی کہ ویزہ لگ چکا ہے اور آج شام کی پرواز سے آپ کا پاسپورٹ ملتان بھیجا جا رہا ہے۔ یوں جولائی 2006 کے وسط میں جمع کرایا گیا پاسپورٹ ہمیں جنوری 2007 کے اواخر میں ملا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، بہت اچھا والا ویزہ ملا یعنی ایک دفعہ ہی تین سال کا ملٹی پل ویزہ ملا اور وہ بھی کاغذات کی پابندی سے مبرا تھا۔

لیجیے صاحب جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں اس لیے کہ صدر دفتر سے حکم آ گیا تھا۔ فروری کے پہلے ہفتے میں دہلی پہنچنا مقصود تھا۔ اور یوں مورخہ پانچ فروری دو ہزار سات کے تاریخ ساز دن ہم لاہور سے دہلی آن براجے۔ آمد پر بہت زبردست پذیرائی ہوئی جو بعد میں معلوم ہوا کہ (بقول یوسفی صاحب) “خوشامدید” تھی۔ اکثر غیر ملکی سٹیشنز کی طرح دہلی میں کلیدی عہدوں کے لیے پاکستان سے تین افسران جاتے ہیں، باقی عملہ مقامی ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ مینیجر صاحب کا تعلق بھی ملتان سے تھا اور ان کے چھوٹے بھائی ہمارے کلاس فیلو تھے۔ اس لیے ان سے پہلے کی یاد اللہ تھی۔ جہاز سے اترتے ہی سب سے پہلے ان کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد مقامی عملہ سے مصافحہ اور معانقہ کی رسم ادا کی گئی۔

یاد رہے مقامی عملہ میں ایک دو کے علاوہ سب مسلمان تھے۔ ہم تو یہاں سے ایک مخالف ملک کا تاثر لے کر گئے تھے مگر دہلی کے کسٹم امیگریشن اور دیگر محکموں کے افسران بڑی کشادہ دلی سے ملے اور ہر تعاون کا یقین دلایا۔ ایک بوجھ سا دل سے اتر گیا اور معلوم ہوا کہ یہ لوگ تو بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ہم لوگ ہیں۔

دفتر تک پہنچتے پہنچتے چار پانچ لوگوں سے تعارف ہوا، اردو میں ہنسی مذاق اور ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی۔ کوئی اجنبیت محسوس ہی نہ ہوئی (لگتا ہے محب وطن لوگوں سے جوتے کھانے کا وقت قریب آ رہا ہے)۔ دفتر پہنچے اور زندگی میں پہلی دفعہ سٹیشن مینیجر کا عہدہ سنبھالتے ہوئے آفس کا چارج لیا۔ خدائے لم یزل کا شکر ادا کیا کہ اس عزت و توقیر کے قابل سمجھا۔

پاکستان سے روانہ ہو کر یہاں پہنچنے تک سارا وقت انتہائی ٹینشن میں گزرا تھا کہ خدا جانے کیسا ماحول ہو گا۔ کیسے لوگ ہوں گے۔ وقت کیسے گزرے گا، وغیرہ وغیرہ۔ شکر الحمدللہ کہ دہلی آمد کے ایک گھنٹے بعد ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نئی جگہ نہیں بلکہ وہی ملتان آفس والے ماحول میں ہیں۔ سب سے پہلے گھر والوں کو ٹیلی فون کر کے حالات سے آگاہی دی تاکہ ان کی پریشانی بھی دور ہو۔ اس کے بعد عملہ سے گپ شپ ہوتی رہی۔ پی آئی اے کے دفتری ضوابط میں ہے کہ غیر ملک میں پوسٹنگ ہو تو شروع کے کچھ دورانیہ میں کمپنی کے خرچ پر ہوٹل میں قیام کی اجازت ہوتی ہے۔ مقصد اس دوران رہائش کا بندوبست ہوتا ہے۔ اس لیے ائیرپورٹ کے نزدیک ایک پنج ستارہ ہوٹل Centaur کو شرف قیام بخشا اور مفت قیام و طعام سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے “ہمہ تن گوش” ہو گئے۔ اگلے دن اتوار تھا اس لیے ہوٹل میں آرام کیا۔ رات کو مقامی عملہ کے انور صاحب نے اپنے گھر پر دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا چنانچہ وہ آ کر اپنے گھر لے گئے جو کہ دہلی کی اچھی آبادی وسنت ویہار میں تھا۔ رام پور سے ان کے بہن بہنوئی اسی دن آئے تھے اور رام پوری کباب لائے تھے۔ پہلا لقمہ لیتے ہی والدہ مرحومہ یاد آ گئیں۔ بعینہہ اسی ذائقے کے شامی کباب وہ بنایا کرتی تھیں حالانکہ ان کا تعلق بھوپال سے تھا۔ وہاں اہل محفل سے تعارف ہوا، ہم نے بتایا کہ ماشاللہ ہماری تین سال کی پوتی ہے (نام خدا آئلہ بٹیا اب تیرہ سال کی ہیں) سب بڑے متعجب ہوئے اور فی الفور ینگ دادا کا خطاب عطا کر دیا گیا ( خود ستائی نہیں واقفان حال جانتے ہیں کہ ان دنوں چون سال کی عمر میں یہ ہیچمندان چوالیس پینتالیس سے زیادہ کا نہیں لگتا تھا)، وہاں سے پرتکلف دعوت کھا کر واپس ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں اکثر دکانوں کے بورڈ اردو میں دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی اور فہمیدہ ریاض کی وہ نظم بے ساختہ یاد آ گئی، تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments