ہمارا معاشرہ اور فنون لطیفہ


\"raazia\"کل پرسوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے میرے ہاتھ میں منٹو کی کتاب دیکھتے ہی میری روشن خیالی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ ایسی کتابیں ہی ہوتی ہیں جن کو پڑھنے کے بعد لوگ بالخصوص لڑکیاں گھروں سے بغاوت کر کے باہر نکلتی ہیں، ماں باپ کی عزت کا خیال نہیں رکھتیں اور یہ کہ قندیل کا حال دیکھیں وغیرہ وغیرہ۔

جواب میں تو میں بھی بہت کچھ کہہ سکتی تھی لیکن پھر محض محترم کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے ان سے کچھ نہ کہا اور وہ بھی میرے زریں خیالات سے محروم رہے۔ مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم کتاب نہیں پڑھتے، ہم فلم نہیں دیکھتے، ہم موسیقی نہیں سنتے، ہم سیر و تفریح کے لئے نہیں نکلتے اور جب کوئی یہ کہتا ہے کہ تمام مسائل کی جڑ یہی فنون لطیفہ ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ ہر چیز کو جانچنے کا پیمانہ ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے جس میں اسکی تربیت، ذاتی سوچ، رہن سہن اور پیشے کا بہت اثر ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے منٹو کی کہانیوں میں معاشرتی مسائل اور ساتھ ہی ان کا حل بھی نظر آجائے اور کوئی دوسرا انھیں محض فحاشی کی ایک کتاب سے تعبیر کر دے۔ کسی کو کسی بھی اصلاحی فلم سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے تو کوئی اسے صرف تین گھنٹوں کا ضیاع سمجھ بیٹھے۔ بات صرف اپنی اپنی پسند اور ترجیحات کی ہے۔

غلط جو بات ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنی بات تو کہتے ہیں لیکن دوسرے کو کچھ کہنے نہیں دیتے، میں سمجھتی ہوں کہ تشدد صرف ذہنی یا جسمانی نہیں ہوتا، بلکہ تشدد کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے اور وہ ہے رائے کا تشدد۔ یعنی اپنی رائے کسی پر ٹھونستے جانا۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہمارا معاشرہ کیوں تنگ نظر اور انتہا پسند ہو رہا ہے تو اسکی بنیادی وجہ ان چھوٹی چھوٹی خوب صورتیوں اور فنون لطیفہ کی رنگینوں سے صرف نظر کرنا ہے۔

پاکستان کو ایک اعتدال پسند اور روشن خیال معاشرہ ہونا چاہیے جس معاشرے میں اچھی کتاب نہیں پڑھی جاتی، مثبت تفریح نہیں ہوتی وہ اگر انتہا پسند نہیں ہوگا تو یہ یقینا باعث حیرت ہو گا۔روزمرہ کی لگی بندھی روٹین میں ہم نے اپنی شخصی آزادی کو ہی مٹا دیا ہے۔ ہماری جمالیاتی حس کہیں کھو چکی ہے۔ ہم نے خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے جبکہ زندہ رہنے کے لئے خواب دیکھنا بہت ضروری ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اگر دیکھا جائے تو کس بات کی آزادی ہے کہ آپ اپنی پسند کی موسیقی نہیں سن سکتے ؟ آپ اپنے ذوق کے مطابق کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتے، چار لوگوں میں بیٹھ کر اچھی اور تعمیری گفتگو نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر آزادی ہے تو بس یہی کہ پستول اٹھائو جو آدمی برا لگے اسکو گولی سے خاموش کروا دو اور تو اور بچوں کو بھی کھیلنے کے لئے کھلونا پستول دے دو تاکہ انھیں بڑا ہو کر دہشتگرد اور شدت پسند بننے میں آسانی ہو۔

کوئی بھی معاشرہ تب تک قابل قبول نہیں ہو سکتا جب تک اس میں اچھائی کا احساس باقی نہ ہو جب یہ تمام تفریق ہی مٹ جا ئے کہ کیا اچھا اور کیا برا ہے تو بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہی ہیں، ہاں لیکن چند افراد کے ہاتھ میں اچھائی اور برائی کا پیمانہ دے دینے سے یقینا ناقابل تلافی نقصان ضرور ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments