ضیاالحق سے پہلے اور بعد کا پاکستان


\"mianضیاالحق سے پہلے کا پاکستانی معاشرہ آئینی طور پر نہ سہی لیکن عملی اور عمومی طور پر سیکولر معاشرہ تھا لوگوں کا غیر مسلموں کی شادی بیاہ اورایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا عام تھا محلوں اور گاؤں میں بچے اور نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے کھیلتے تھےاور بلا روک ٹوک ایک دوسرے کےگھروں میں آتےجاتے تھےکمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے آنے سے بچوں کے کھیل بھی بدل گئے ہیں پہلے محلے کے سب بچے اکٹھے ہو کر کھیلتے تھے اور زیادہ سوشل تھے اور ان کی کئی طرح کی سماجی مصروفیات ہوتی تھیں جیسے محلے کی عورتیں کو گھر کا سوادا سلف لا کر دینا ۔۔۔ کھیتی باڑی یا گھر کے کاموں میں اپنے بزرگوں کی مدد کرنا اور ہر بڑے کا اپنے بزرگوں کی طرح احترام کرنا لیکن یہی گاوٴں اور محلے کے بچے اور نوجوان مل کرشرارتیں بھی بہت کرتے تھے جیسے مل کر کسی باغ سے امرود چوری کر کےکھانا یا محلے کے کسی دیوانے یا جھلے کا مذاق اڑانا یا تنگ کرنا اور پھر پاس سے گزرتے کسی بڑے کے ڈانٹنے پر سب کا بھاگ جانا ۔۔۔گاؤں میں نوجوان لڑکیاں گھروں میں یا باغوں میں مل کرجھولا جھولتی تھیں لوگ بیساکھی اور دوسرے میلے ٹھیلے شوق سے مناتے تھے اوربچے بڑے ، مرد عورتیں سب اکٹھےمیلہ دیکھنے جاتے تھے جہاں مردوں عورتوں اور بچوں کی دلچسپی کے الگ الگ سامان ہوتے تھے شہروں میں لڑکیاں سائیکل عام چلاتی تھیں اور چہرے کا نقاب بہت ہی کم خواتین کرتی تھیں خاص کر پنجاب میں ۔۔۔ محلے کے لوگوں کا اپنے ہمسایوں کے گھروں میں بلا روک ٹوک آنا جانا تھا لیکن محلے کی ماں بہن کی عزت کو اپنی عزت سمجھا جاتا تھا آپس میں محبت اور روداری کا ماحول تھا اور یہ ماحول شادی بیاہ پر خاص طور پر نظر آتا تھا جب کوئی دودھ لا رہا ہے تو کوئی چارپائیاں اور کوئی رضائیاں اٹھائے چلا آرہا ہے جیسے اس کے اپنے گھر مہمان آ رہے ہوں اس سے بھی بڑھ کر خوش آئند بات یہ تھی کے یہ سب لوگ اکثر الگ الگ فرقوں یا مسالک سے ہوتے تھے لیکن کبھی کسے نے فرقہ پرستی کے متعلق سوچا ہی نہیں تھا اور یہ ان کا ذاتی فعل سمجھا جاتا تھا اور پھر اچانک اس پیار محبت اور خوشی سے بھرپور پاکستانی معاشرے کو ضیاالحق دور کی نحوست زدہ نظر لگ گئی

آپ پودے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں ان پر پھول لگے گے اور ہر طرف خوشبو پھیلے گی مگر نتیجتاً بدبو،تعفن اور گھٹن بڑھ جاتی ہےان پودوں پر پھول تو نہ لگ سکے البتہ دہشت گردی، فرقہ پرستی ،انتہاپسندی ،نفرت اور بے حسی کی فصل خوب تیار ہوئی آج اکثر لوگ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر کسی بیگناہ کو قتل کرنا باعث ثواب سمجھتے ہیں اور جنت میں 70 حوروں کے لیے بیقرار نظر آتے ہیں کیا یہ سوچ خود بخود راتوں رات پیدا ہوگئی ہے یا اس پر اربوں روپے کی کے سالہا سال سےاندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور سرمایہ کاری کرنے والی یہ قوتیں اس سوچ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں ضیاالحق کے دور میں جس کوڑھ کی کی کاشت کی گئی اس کوڑھ سے تقریبا 70 ہزار پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں پچھلے کئی سالوں سے اس فصل کی شاخیں کاٹی جا رہی ہیں لیکن اس کی جڑوں کو بالکل نہیں چھیڑا جا رہا بلکہ کبھی کبھار دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی آبیاری کی جاتی ہے لوگ آج پہلے سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں اوراسلام کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے ہہیں لیکن یہ پڑھے لکھے لوگ ان پڑھ لوگوں کی نسبت مذہب ،مسلک اور قوم کو لیکر زیادہ انسان دشمن ہیں اگر آپ اپنے طور پر اس سچائی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو کسی اڈے سے دس مزدور اس شرط کے ساتھ اپنے ساتھ لے جائیں کہ یہ کبھی سکول نہ گئے ہو یا پرائمری تک پڑھے ہو اور دس لوگ جو کالجوں یونیورسٹیوں اور مدرسوں سے پڑھے ہو ان سے الگ الگ مذہب ،مسلک اور قوم کو لیکر انکے خیالات جاننے کی کوششش کریں آپ یقیناً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جو لوگ کبھی سکول ہی نہیں گئے یا کم پڑھے لکھے ہیں وہ زیادہ انسان دوست خیالات رکھتے ہیں بنسبت ان کے جو سکولوں کالجوں یا مدرسوں سے پڑھے ہیں آج لوگ ضیاالحق کے دور سے پہلے کی نسبت زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں لوگوں نے داڑھیاں زیادہ تعداد میں رکھ لی ہیں بیشمار اسلامی مدارس کھل گئے ہیں جو سالانہ بیشمار عالم دین پیدا کر رہے ہیں خواتین نقاب بھی اب زیادہ کرتی ہیں لوگ عمرے حج پہلے سے زیادہ کر رہے ہیں لیکن جھوٹ ،فراڈ ،اور منافقت ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے جہاد کے نام پر دہشت گردی اور مسلک کے نام پر نفرت،کفر کے فتوے اور بیگناہ انسانوں کی قتل و غارت جاری و ساری ہے۔۔۔

میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو کرو

 تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

 جو لوگ چالیس سال سے زائد عمر کے ہیں اور انہوں نے ضیاء الحق سے پہلے کا دور دیکھا ہے وہ ایمانداری سے بتائیں 1980 سے پہلے کا محبت روداری اور زندگی کی خوشیوں سے بھر پور پاکستانی معاشرہ بہتر تھا یا آج کا جہادی،اسلام کے نام پر منافقت اوراپنی زمین سے کٹ کر بدیشی کلچر کی طرف بڑھتا ہوا پاکستانی معاشرہ بہتر ہے ۔۔۔

خدا کرےکہ مری ارض پاک پر اترے

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments