قندیل۔۔۔ ایک اور عورت کا انتظار


\"Hجب هم کسی سے قطع تعلق کر لیتے ہیں تو پهر کوئی واقعه کوئی سوال باهم بات کرنے کے لیئے جذباتی هم آهنگی نہیں بن پاتا۔ اور بعض اوقات هم محض بات کرنے کے لیئے سوال اور جواز ڈهونڈ لیتے ہیں۔ کبھی غیر متوقع اور ناگوار واقعات ہر صورت ہر کسی کے لیئے اچهے نه بھی ہوں تو کوئی نه کوئی ان سے استفاده کر ہی لیتا هے۔ اسی طرح قندیل کے قتل کے واقعے نے اسے مجھ سے گفتگو کرنے کا موقع دے ہی دیا۔ میں اس شخص سے قطع تعلق کر چکا تها۔

معاشره ہمیں عدم مزاحمت کرنے پر عزیز رکهتا هے۔ سوال همیشه مزاحمت کی علامت هوتے ہیں۔ اور اس کے پاس سوال بہت تهے۔ کبھی کبھی هم کسی کو صرف اس لیئے نا پسند کرتے ہیں که معاشرے کے تشکیل شده ضمیر کا بوجھ اٹهائے هوئے لوگ اسے نا پسند کرتے ہیں۔ میرے پہلو میں رهتے هوئے بھی میں اسے ہر صورت نا پسند کرتا تها۔ پہلو میں رہتے هوئے لوگ اکثر سب سے خطرناک هوتے ہیں اور کبھی کبھی سب سے زیاده اچهے بھی۔

وه اداس هونے کے ساتھ مغموم بھی تها۔ دعا کے هاتھوں میں امید کی انگلیاں هوتی ہیں اور میری انگلی اس کو اسی حالت میں دیکهنے په شہادت دے رہی تہی۔

اس نے کہا۔ رشتوں اور وحشی رویوں کی تاریکی قندیل کو کها گئی۔ شاید قندیل تاریکیاں لے کر ہی پیدا هوتی هے۔ یا تو قندیل نے اس وجدان سے جنم لیا تها جو صنف نازک کے بارے میں مرد کی پسلیوں میں پهڑکتا رهتا هے۔ جو بس قندیل کے ساتھ رقص ذیست میں مساوی حقوق کا متمنی نہیں هو سکتا کیونکه ایک مرد تمنا ہی دوسرے مرد کے پدری جذبات کو رد کرنے کے لئے کر رہا ہوتا هے۔

میں نے پوچها۔ تو؟

اس نے جواب دیا۔ عورت کی آزادی کی تشریح زرعی دور کے تشکیل شده معاشرے کی حدود میں ره کر کی جا سکتی هے۔ قندیل ذاتی ملکیت کے معاشرے سے ماورا آزادی میں بجھ جاتی هے۔ قندیل کے ساتھ همیشه ایسا ہی هوتا آیا هے مردوں نے ہوائوں کی هلکی هلکی تعریف کر کے انہیں طوفان جو بنا دیا هے‎

میں نے سوچا۔ جب کسی کے دلائل اور گفتگو هماری پسند کی توقعات کے مطابق نہیں هوتے تو دراصل آئینہ ہی ٹیڑها نظر آتا هے۔ اس کی باتوں میں سے مجهے میرا عکس ٹیڑها نظر آنے لگا۔ ایک دفعہ مجهے سوجها میں اس آدمی کو توڑ دوں مگر وه قندیل کی موت په مجھ سے تعزیت کر رہا تها۔

پدری معاشره اپنی بیٹی کے کھیلنے کے لئے گڑیا کا کهلونا لاتا هے۔ اس نے بات جاری رکهتے هوئے کها۔ اور ہر بیٹا اپنے لیئے پستول کا کهلونا پسند کر لیتا هے پوری زندگی گڑیا کی تنہائی عورت کا پیچها کرتی هے۔ آدھی عورت اور آدھی گڑیا میں بٹی عورت کبھی بھی پدری معاشرے میں مکمل نہیں هوتی۔ ‏

پیش گوئی کی نوید عورت کی زندگی کے بارے میں بے اثر ثابت هوتی هے۔  ازدواجی خوشگمانی کبھی بھی کسی قندیل کی تعبیر نہیں رہی۔ عورت کے حصے کے خواب مرد دیکهتا هے۔

میں نے پوچها۔ آخر هونا کیا چاہیے؟

وه کچھ زیاده اداس لهجے میں بولا ۔ اب کچھ نہیں هو سکتا سوائے اس کے که عورت قندیل بننا چهوڑ دے معاشرے میں قندیل کے لئے گھریلو عورت بننے کے مواقع زیاده ہیں۔

جب حقوق صرف گلے کا پهنده بن جاتے ہیں تو مرنے کا کوئی مخصوص موسم نہیں هوتا کوئی کسی بھی وقت کسی قندیل کو کسی رشتے کا داعی بن کر مار سکتا هے۔ قندیل کی اندر کی عورت کو ازدواجی رشتوں اور معاشرے کے ہوسناک رویوں نے کب کا مار دیا تها۔ بهائی نے تو بس مارنے کے معاملے میں غیرت کی رسم پوری کی هے۔

عورت کے بارے میں پدری معاشرے کے عمومی جذبات ایک مرد کے ہی رهے ہیں بس کسی مرد کی رویوں کی روندی عورت کا کسی کی ماں بہن یا بیٹی نکل آنا اتفاقی المیه بن جاتا هے۔

فیصلوں کے معاملے میں ذاتی ملکیت کے تابع رشتے کبھی عورت کی مرضی کے محتاج نہیں رهے۔ مرد کے فیصلے ماں بہن بیٹی کے بارے میں بڑے محتاط هوتے ہیں باقی فیصلوں میں مرد عورت کے بارے میں بڑی بے احتیاطی سے کام لیتا هے۔ دونوں صورتوں میں اسے کچه اصولی تحفظات حاصل هوتے ہیں وه ان تحفظات کا فائده اپنے ضرورتی عزائم سے لیتا هے۔ زیاده تر وه عزائم جنسی تشنگی کا احاطه کرتے ہیں چند محرم رشتوں علاوه بہت سے رشتوں کے بارے میں اس کی تفریق بہت مختلف هوتی هے۔ شاید نٹشے نے کها تها که۔  \”عورت کے بارے میں مرد کا تجزیه اپنی ذات کو نظر انداز نہیں کر سکتا\”۔ اور یہی بات همارے رجعتی معاشرے کی عکاسی کرتی هے۔

وه چپ ہو گیا اور میں جذباتی هو گیا۔ جس طرح قندیل کی موت کے واقعے نے ہمیں بات کرنے کا موقع دیا تها اسی طرح اس کے نسوانی‎ ‎دفاع نے ہمیں بے ربط کرنا شروع کر دیا۔ مجهے اس کی باتوں میں سے عورت اور قندیل کے بارے میں خدشات محسوس هونے لگے۔ ‏

میں نے کها۔ تمهاری جنسی مساوات کی توقعات کے ساتھ قندیل اس معاشرے میں زنده نہیں ره سکتی۔

اور میں نے اسے اپنے پہلو میں دبا دیا۔ وه شخص شاید انتظار کرے گا که کسی دوسری قندیل کے قتل کو وجه کلام بنا سکے۔ تب تک میں بھی سوچنا چاہتا ہوں که میرے پہلو میں رہتا وه شخص کس حد تک خطرناک یا ذاتی نتائج کے حوالے سے کتنا بے ضرر ہے۔ ‏‎


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments