عملی دہشت گردی مدرسے والے کرتے ہیں یا سکول کالج والے؟


بہاولپور کی طرح اچانک اٹھ کر مار دینے والوں میں کتنے مدرسے والے ہوتے ہیں اور کتنے کالج والے؟ داعش وغیرہ میں جدید تعلیم پانے والے کتنے ہوتے ہیں اور مدرسے والے کتنے؟

بہاولپور کا قاتل طالب علم انگلش میں بیچلرز کر رہا تھا۔ صفورا گوٹھ کے دہشت گردوں میں آئی بی اے کے فارغ التحصیل شامل تھے۔ داعش کی خودکش بمبار بننے کی آرزو مند نورین لغاری میڈیکل کالج کی طالبہ تھی۔ تبلیغی جماعت کے بزرگوں کو مسجد میں قتل کرنے والا ایک عام سا نوجوان تھا جو دیوبندیوں کو گستاخی کا مرتکب سمجھتا تھا۔ ممتاز قادری کسی مدرسے کا فارغ التحصیل نہیں تھا۔ پھر یہ سب اتنی آسانی سے دین کے نام پر انسانوں کو قتل کرنے پر کیوں راضی ہوئے؟

صحیح یا غلط لیکن ابھی تک یہ سمجھ آیا ہے کہ مدرسے کے فارغ التحصیل اپنے فکری مخالفین پر زیادہ سے زیادہ فتویٰ لگاتے ہیں یا گالیاں دیتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔ وہ ہتھیار اٹھا کر خود سے عمل کرنے پر نہیں تل جاتے۔ ہاں ان میں سے بعض دوسروں کو ترغیب ضرور دیتے ہیں۔ بظاہر ان کے اساتذہ نے انہیں اتنا دین سکھایا ہوتا ہے کہ وہ اپنا برا بھلا سمجھ سکیں۔

اس فتوے پر عمل کرنے یا خود سے ہی فتویٰ جاری کر کے قتل کرنے والے وہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے ہوتے ہیں جنہوں نے بس بعض انتہا پسند قسم کے مولویوں کی تقریریں سن کر ہی دین کا کچا پکا سا مفہوم اخذ کیا ہوتا ہے۔ خود سے کچھ پڑھنے سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہوتی۔

داعش اور القاعدہ کا فوکس بھی مدرسے والے نہیں ہوتے۔ وہ اپنی تنظیم میں بھرتی کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور ان کا آسان ہدف یہی جدید تعلیم پانے والے ہوتے ہیں۔ ایک طرف وہ آئی بی اے جیسے اداروں کے طلبا کو برین واش کر کے اپنا ہم خیال بناتے ہیں دوسری طرف میڈیکل کالج میں پڑھنے والی نورین لغاری اور برطانیہ میں پڑھنے والی پندرہ سالہ شمیمہ بیگم اور اس کی سہیلیاں ان کے بہکاوے میں آتے ہیں۔

اس باب میں افغان طالبان کا ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا۔ طالبان تو کہا ہی مدرسے کے طالب علموں کو جاتا ہے۔ تو کیا افغان طالبان کے معاملے میں یہ خیال کمزور پڑتا ہے؟ ویسے تو یہ تناظر پاکستان کا نہیں ہے افغانستان کا ہے جہاں حالات مختلف ہیں لیکن پھر بھی اس پر مختصر رائے دے دیتے ہیں۔ افغان تحریک سماجی نا انصافی کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ دو مقامی وار لارڈز میں نوخیز لڑکے کو جنسی غلام بنانے کی نیت سے جھگڑا ہوا تھا اور ملا عمر اور ان کے ساتھی اس لڑکے یو بچانے کے لئے ان وار لارڈز سے لڑے تھے اور اپنے علاقے کی حکومت ان سے چھین لی تھی۔ ادھر خانہ جنگی اور ظلم کا معاملہ تھا جس سے یہ تحریک شروع ہوئی۔ باقی پھر انہیں استعمال کرنے والی طاقتوں کا کمال تھا کہ کیسے انہیں طاقتور بنایا گیا۔ لیکن بہرحال طالبان ایک جماعت کے طور پر کام کیا کرتے تھے تنہا شخص کے طور پر نہیں۔

مدرسے کو جدید کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ مدرسہ غریب ترین افراد کے بچوں کو مفت میں تعلیم، کھانا اور رہائش دیتا ہے۔ تعلیم دینا آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے مگر عملی طور پر مدرسہ یہ کر رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مدرسے میں بچوں کو اس قابل نہیں کیا جاتا کہ وہ کوئی دنیاوی ہنر سیکھیں اور مدرسے سے نکلنے کے بعد اپنی روزی روٹی کما سکیں۔ ان میں سے جو خوش قسمت ہوتے ہیں، انہیں مدرسے میں استاد یا کسی مسجد میں خطابت یا امامت کی جگہ مل جاتی ہے جس کی تنخواہ عموماً حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ اب اس شخص نے خوشحال ہونا ہے تو اسے اشتعال انگیزی اور نفرت کی راہ پر چلنا ہو گا۔ ہماری قوم کا مزاج ایسا ہے کہ وہ معتدل اور صاحب علم علما کی بجائے نفرت پھیلانے والوں کو پسند کرتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس شخص کی دولت اور قوم کی انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مدرسے میں دنیاوی ہنر سکھانے اور اساتذہ کا مشاہرہ معقول کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔

ترکی میں خلافت کے زمانے سے ایک روایت چلی آ رہی ہے کہ خطیب اور امام کو حکومت لائسنس جاری کرتی ہے اور لائسنس کے بغیر یہ کام کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جاتا ہے۔ دیر یا سویر پاکستان میں بھی یہی کرنا پڑے گا۔ جو خطیب نفرت کا پرچار کرے اسے سیدھا جیل بھیجا جائے اور اس پر پابندی عائد کی جائے۔

دوسری طرف سکول کالج میں بھی موجودہ مذہبی تعلیم کا عنصر تبدیل کر کے یہ باتیں سکھانے پر فوکس کیا جائے کہ اسلام امن آشتی سکھاتا ہے، انتہاپسندی بری بات ہے، خلافت راشدہ کا خاتمہ بھی مذہبی انتہاپسندی کی وجہ سے ہوا تھا، کسی شخص کی کوئی بات غلط لگ رہی ہے تو اس کے بارے میں استادوں اور بزرگوں سے راہنمائی لی جائے۔

تعلیمی اداروں میں نصاب کو تو انتہا پسندی کا باعث گردانا جاتا ہے لیکن شاید اس سے بڑا محرک شدت پسند اساتذہ ہیں۔ میری بیٹی ایک بڑے انگلش میڈیم سکول میں او لیول میں پڑھتی تھی۔ ایک دن اس کے اسلامیات کے استاد نے طالبات کو ایک مسلک کے خلاف نفرت کی تعلیم دینے کا آغاز کیا اور ساتھ یہ بھی تاکید کی کہ یہ بات سکول انتظامیہ کو پتہ نہ لگے ورنہ اسے جان کا خطرہ ہے۔ اساتذہ کی سکریننگ کی ضرورت ہے۔
یہ سب کچھ کیا جائے تو اچھا ہے۔ ورنہ پھر سب اپنی اپنی باری کا انتظار کریں۔ خواہ وہ اپنے وقت کے وزیر داخلہ ہوں یا وزیر اعظم یا ڈکٹیٹر، سب شکار ہوں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar